بلی بائی‘ نفرت سے بھرے ذہنوں کی دین ہے۔ خالدہ پروین’

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 07-01-2022
بلی بائی‘ نفرت سے بھرے ذہنوں کی دین ہے۔ خالدہ پروین’
بلی بائی‘ نفرت سے بھرے ذہنوں کی دین ہے۔ خالدہ پروین’

 


آشا کھوسا/ نئی دہلی

ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد کی سماجی کارکن خالدہ پروین بھی ان 112 خواتین کی فہرست میں شامل ہیں، جن کا نام بُلّی بائی ایپ نے استعمال تھا۔ مگر بقول خالدہ پروین بُلّی بائی کے حربے ناکام ہو گئے ہیں۔ خالدہ پروین 11 بچوں کی دادی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھ جیسی 67 سال کی ضعیف عمر کی خاتون کا نام دیگر مسلم خواتین کی فہرست میں شامل کیا۔ جنہیں بلی ایپ والے فروخت کرنا چاہتے تھے یا جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہوں۔ انہوں نے انہیں ذہنی اذیت دینے کی کوشش کی مگر وہ اس کھیل میں ہار گئے۔

خالدہ پروین حیدرآباد کے علاقے چار مینار کی ایک معروف اور باہمت سماجی کارکن کے طور پرمعروف ہیں۔ خالدہ پروین  نے آواز دی آواز کو بتایا کہ ان کا نام اور نجیب کی 65 سالہ والدہ کا نام شامل کرنے سے غیر مسلموں میں بھی اس واقعہ کے خلاف غم وغصہ پایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس والے بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ جو لوگ اس فعل کے پیچھے ہیں، ان کی بیمار ذہنیت شامل ہے۔

خالدہ پروین نے بلی بائی ایپ کے خلاف پولیس میں ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ دیگر خواتین اس کیس کو لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں مگر میں تمام خواتین کے لیے لڑوں گی۔

انہوں نے کہا کہ نجیب ایک طالب علم تھا جو 2008 میں حیدرآباد یونیورسٹی میں مشتبہ حالت میں مردہ پایا گیا تھا۔ خالدہ پروین کہتی ہیں کہ انہیں احساس ہے کہ انہیں نفرت انگیز پروپگیڈے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں تقریباً دو دہائیوں سے ایک سماجی کارکن کے طور پر کام کر رہی ہوں۔ تاہم، پچھلے آٹھ سالوں سے میں ٹویٹر پر بہت متحرک ہوں اور اپنے خیالات کو نشر کرنے اور ایک سماجی کارکن کے طور پر اپنے کام کو فروغ دینے کے لیے اس میڈیم کا استعمال کر رہی ہوں۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں آف لائن اور سوشل میڈیا دونوں طریقے سے اپنی بات عوام کے سامنے پیش کرتی رہتی ہوں۔ میں نے ہریدوار دھرم سنسد میں تین طلاق، سی اے اے، شاہین باغ احتجاج، کسانوں کے احتجاج پر حالیہ ریمارکس کے خلاف بھی اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا نے انہیں سوشل میڈیا کا دوست بنا دیا ہے۔بالفرض آج اگر میں نے ٹوئٹر پر کسی ضرورت مند کے لیے خون کے عطیہ کی اپیل کی تو مجھے یقین ہے کہ 10 منٹ کے اندر میرے پاس ایک عطیہ کنندہ تیار ہو جائے گا۔

خالدہ کہتی ہیں کہ دوسری صورت میں ان کے کام میں مسلم خواتین کو بااختیار بنانا اور اس طرح قوم کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالنا شامل ہے۔ کورونا وائرس کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران میں نے ٹویٹر کا استعمال کرتے ہوئے بہت سے کام کئے ہیں اور تب سے میں اپنے کام کو بڑھانے اور مختلف معاملات میں اپنے خیالات کو نشر کرنے کے لیے اس سے جڑی ہوئی ہوں۔

خالدہ کا کہنا ہے کہ جب انھیں بلی بائی ایپ کے لیے تین نوجوانوں اور ایک خاتون کی گرفتاری کے بارے میں معلوم ہوا تو انھیں ان لوگوں کی حرکت اور ذہنیت پر بہت افسوس ہوا۔

وہ لوگ کیسا مستقبل بنائیں گے، جب کہ ان کے دل و دماغ نفرت سے بھرے ہوئے ہوں؟ خالدہ نے آواز دی وائس کو بتایا کہ بلی بائی ایپ میں ملوث ہونے کے الزام میں پکڑے گئے افراد اصل مجرم نہیں ہیں۔ وہ نوجوان ذہن ہیں جو بہت زیادہ نفرت انگیز پروپیگنڈے کا شکار ہوئے ہیں اور اس سے متاثر ہوئے ہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہماری پولیس بہت باہمت ہے اور ہوشیار ہے۔ اگر ان کو راستہ اختیار کرنے دیا جائے تو وہ اصل مجرموں تک پہنچ جائیں گے جو نفرت پھیلانے کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔

خالدہ کہتی ہیں کہ بُلّی بائی میں شامل نوجوانوں کو اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ اس ملک میں ان کی ذہنیت کس قسم کا ماحول بنائے گی اور کیا ان کا یہ طریقہ خود ان کی خواتین کوزیادہ محفوظ مستقبل دے پائے گا۔