بکر پرائز جیتنے والی بانو مشتاق۔ جنہیں پابندیوں نے خودکشی کرنے کے قریب پہنچا دیا تھا

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 28-05-2025
بکر پرائز جیتنے والی بانو مشتاق۔ جنہیں پابندیوں نے خودکشی کرنے  کے قریب پہنچا دیا تھا
بکر پرائز جیتنے والی بانو مشتاق۔ جنہیں پابندیوں نے خودکشی کرنے کے قریب پہنچا دیا تھا

 



آشا کھوسہ / نئی دہلی

میری کہانیاں عورتوں کے بارے میں ہیں  کہ مذہب، معاشرہ اور سیاست کس طرح ان سے بغیر سوال کیے اطاعت کا مطالبہ کرتے ہیں،اسی اطاعت کے بہانے ان پر غیر انسانی ظلم ڈھاتے ہیں، انہیں صرف ماتحت بنا دیتے ہیں۔ میڈیا میں روزانہ آنے والی خبریں اور میرے ذاتی تجربات ہی میری تحریک ہیں۔ ان عورتوں کی اذیت، تکلیف اور بے بسی میری روح کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ میں زیادہ تحقیق نہیں کرتی — میرا دل ہی میری تحقیق کا میدان ہے۔

یہ الفاظ کنڑ زبان کی مصنفہ اور وکیل، بانو مشتاق نے اپنے کتابHeart Lamp کے بارے میں اس وقت لکھے جب وہ 2025 کے بین الاقوامی بکر پرائز کے لیے اپنی نامزدگی داخل کر رہی تھیں۔

زیادہ تر لوگ نہیں جانتے کہ بانو مشتاق خود بھی ان پابندیوں کا سامنا کر چکی ہیں جن کا سامنا آج بھی بہت سی مسلمان عورتیں کر رہی ہیں۔ اگرچہ انہوں نے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور اپنی مرضی سے شادی کی، مگر ایک تعلیم یافتہ اور بااختیار عورت کے طور پر زندگی ویسی نہیں تھی جیسی انہوں نے تصور کی تھی۔26 سال کی عمر میں شادی کے بعد انہیں یہ جان کر شدید صدمہ پہنچا کہ ان سے صرف ایک گھریلو عورت بننے کی توقع کی جا رہی ہے، جو چار دیواری میں محدود ہو کر زندگی گزارے اور خود کو مکمل طور پر ڈھانپ لے۔

انہوں نے ووگ میگزین کو بتایا کہ جب اکثر مسلمان لڑکیاں نوعمری میں شادی کر رہی تھیں، وہ اس وقت یونیورسٹی میں داخل ہوئیں۔ بعد ازاں وہ ایوارڈ یافتہ مقامی اخبار لنکش پترکے کی رپورٹر بنیں، کئی احتجاجی ادبی تحریکوں جیسے بندایا ساہتیہ سے وابستہ رہیں، اور پھر وکالت کے شعبے میں قدم رکھا۔ وہ دو بار بلدیاتی کونسل کی رکن بھی منتخب ہوئیں۔ انہوں نے ووگ کو بتایاکہ میں ہمیشہ سے لکھنا چاہتی تھی، مگر میرے پاس کچھ لکھنے کو نہیں تھا کیونکہ اچانک، ایک محبت کی شادی کے بعد، مجھے برقع پہننے اور گھریلو کام کاج کے لیے وقف ہونے کو کہا گیا۔ میں 29 سال کی عمر میں ماؤں کے بعد پیدا ہونے والے ڈپریشن(postpartum depression) میں مبتلا ہو گئی۔"

بانو مشتاق نے دی ویک میگزین کو بتایا کہ ایک وقت ایسا آیا جب انہوں نے خودکشی کرنے کا ارادہ کیا اور اپنے جسم پر مٹی کا تیل چھڑک لیا۔ جیسے ہی وہ ماچس جلانے لگیں، ان کے شوہر موقع پر پہنچ گئے۔اللہ کا شکر ہے کہ انہوں نے بروقت اندازہ لگا لیا، مجھے گلے لگا لیا اور ماچس کی ڈبیا لے لی۔ وہ مجھ سے منتیں کرنے لگے اور ہمارا بچہ میرے قدموں میں رکھ کر کہا، ‘ہمیں چھوڑ کر مت جاؤ’۔

Heart Lamp بانو مشتاق کی لکھی گئی مختصر کہانیوں کی کنڑ زبان سے ترجمہ شدہ کتاب ہے، جسے 2025 کے بین الاقوامی بکر پرائز کا فاتح قرار دیا گیا — جو دنیا کا سب سے باوقار ایوارڈ ہے ترجمہ شدہ فکشن کے لیے۔ یہ ایوارڈ 20 مئی کو لندن کے ٹیٹ ماڈرن میں معروف مصنف میکس پورٹر نے اعلان کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ مختصر کہانیوں کے کسی مجموعے کو یہ ایوارڈ دیا گیا۔

12 مختصر کہانیوں پر مشتمل یہ کتاب جنوبی بھارت کی پدرسری معاشرتوں میں عورتوں اور لڑکیوں کی روزمرہ زندگی کو بیان کرتی ہے۔

بین الاقوامی بکر پرائز کی ویب سائٹ کے مطابق، “یہ ایوارڈ ترجمے کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے، جس کے £50,000 (تقریباً 57.59 لاکھ روپے) انعامی رقم مصنف اور مترجم کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کی جاتی ہے۔

Heart Lamp کی کہانیاں 1990 سے 2023 کے درمیان لکھی گئیں اور ان میں بانو مشتاق نے اپنے پاس قانونی امداد کے لیے آنے والی خواتین کے تجربات سے متاثر ہو کر کہانیاں تخلیق کیں۔ بانو مشتاق، جو وکیل بھی ہیں، کنڑ ترقی پسند ادب کی ایک اہم آواز سمجھی جاتی ہیں اور بھارت میں خواتین کے حقوق، ذات پات، اور مذہبی جبر کے خلاف بھرپور احتجاجی کردار ادا کرتی رہی ہیں۔یہ پہلی بار ہے کہ کنڑ زبان ۔ جسے تقریباً 65 ملین لوگ بولتے ہیں — سے کسی کتاب کو بین الاقوامی بکر پرائز کے لیے نامزد کیا گیا۔ دیپا بھاشتی اس ایوارڈ کو جیتنے والی پہلی بھارتی مترجمہ بن گئی ہیں۔

بین الاقوامی بکر پرائز 2025 کے ججوں کے چیئر، میکس پورٹر نے کہا۔۔۔"Heart Lamp انگریزی قارئین کے لیے واقعی کچھ نیا ہے۔ ایک انقلابی ترجمہ جو زبان میں ارتعاش پیدا کرتا ہے؛ مختلف انگریزی لہجوں میں نئے رنگ اور ساخت پیدا کرتا ہے۔ یہ ترجمہ کے تصور کو وسعت دیتا ہے۔ ان کہانیوں میں عورتوں کی زندگی، تولیدی حقوق، ایمان، ذات، طاقت اور جبر کے پیچیدہ موضوعات کو نمایاں انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ ججوں کی وہ کتاب تھی جس سے ہم سب نے ابتدا ہی سے محبت کی۔ ان کہانیوں کی قدر ججوں کے مختلف زاویوں سے بڑھتی گئی۔

بین الاقوامی بکر پرائز کی ویب سائٹ کے مطابق۔مشتاق کی تحریر بیک وقت طنز و مزاح سے بھرپور، مؤثر، دل کو چھو لینے والی اور جھنجھوڑ دینے والی ہے۔ وہ عام زبان میں بے پناہ جذبات کو سمو کر ایک منفرد انداز میں کہانیاں سناتی ہیں۔ ان کے کردار ، شوخ بچے، نڈر دادی اماں، مضحکہ خیز مولوی اور غنڈہ نما بھائی، اکثر بے بس شوہر، اور سب سے بڑھ کر مائیں، جو جذبات کو سہا کر بھی زندہ ہیں — ان کے انسانی فطرت کے مشاہدے کو اجاگر کرتے ہیں۔

بانو مشتاق چھ مختصر کہانیوں کے مجموعے، ایک ناول، ایک مضامین کی کتاب، اور ایک شاعری کی کتاب کی مصنفہ ہیں۔ انہیں کرناٹک ساہتیہ اکیڈمی اور دانا چنتامنی اٹما بّے جیسے اہم ادبی اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔دیپا بھاشتی کا یہ ترجمہ "پین ٹرانسلیٹس" ایوارڈ بھی جیت چکا ہے۔ انہوں نےHeart Lamp کے ترجمے کو "لہجے کے ساتھ ترجمہ کرنا" قرار دیا اور کہا:یہ وہ کتاب ہے جس نے میری سوچنے کی دنیا کو بدل دیا۔