عالیہ سلطانہ بابی : ہندوستان کے پہلے ’جیوراسک پارک‘ کی روح رواں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-03-2022
عالیہ سلطانہ بابی : ہندوستان کے پہلے ’جیوراسک پارک‘ کی روح رواں
عالیہ سلطانہ بابی : ہندوستان کے پہلے ’جیوراسک پارک‘ کی روح رواں

 

 

انٹرنیشنل ویمن ڈے پر خاص پیشکش

منصور الدین فریدی / نئی دہلی 

بات 1985 کے آس پاس کی ہے ،جب بچے اے بی سی ڈی پڑھتے ہوئے ’ڈی‘ فار ’ڈاگ‘ یا ’ڈول‘ پڑھتے تھے تو اس وقت عالیہ سلطانہ بابی کی زبان پر ’ڈی‘ سے ’’ڈائنا سور ‘‘نکلا کرتا تھا۔اس وقت عالیہ سلطانہ کو نہیں معلوم تھا کہ ایک دن ڈائنا سور کا یہ لفظ ان کی زندگی کا حصہ بن جائے گا۔انہیں ’ڈاکٹر ڈائنا سور ‘ اور ڈائنا سور شہزادی‘ کے نام سے پکارا جائے گا۔

وہ ملک کے پہلے اور دنیا کا تیسرے ا یسے سب سے بڑے ’جیوراسک پارک‘ کی روح رواں بن جائیں گی۔جہاں لاکھوں سال قبل کی ڈائنا سور کی نشانیوں کو نہ صرف محفوظ کیا جائے گا اور دنیا بھر توجہ کا مرکز بنے گا گجرات میں ان کا آبائی وطن ’’بالا سینور‘‘ کا رائولی گاوں ۔

جی ہاں ! ہم بات کررہے ہیں گجرات کے بالا سینور میں قائم ملک کے واحد ’’جیوراسک پارک‘ کے لیے جدوجہد کرنے والی عالیہ سلطانہ بابی کی ،جنہوں نے بچپن میں ’ڈی ‘ فار ’ڈائنا سور ‘ پڑھنے کے بعد جب ہوش سنبھالا تو انہیں معلوم ہوا کہ جس خوفناک جانور کا نام ان کی زبان پر تھا ان کے آثار بھی ان کی چوکھٹ پر موجود ہیں۔

جس کے بعد وہ ڈائنا سور کے آثار اور نشانیوں کی تلاش اور دریافت کی گواہ بنیں بلکہ ہوش سنبھالنے کے بعد انہیں محفوظ رکھنے کے لیے ایسی جدوجہد کی کہ بالاسینور میں ملک کا پہلا اور دنیا کا چوتھا سب سے بڑا جیوراسک پارک قائم کرا کے ہی دم لیا۔

awazurdu

نواب زادی عالیہ سلطانہ بابی کی دن رات کی محنت رنگ لائی


بات ان دنوں کی ہے

دراصل نواب زادی عالیہ سلطانہ کا تعلق بابی خاندان سے ہے ۔جبکہ بالا سینور 18 ویں صدی میں قائم ایک شاہی ریاست تھی جو کہ گجرات میں 17 ویں صدی کے وسط میں قائم بابی سلطنت کا حصہ رہی تھی۔ بابی خاندان کا تعلق افغانستان میں پٹھانوں کے یوسف زئی قبیلے سے ہے۔صوبہ زبول میں یہ پختون برادری ’بابی ‘ یا بابائی‘ کے نام سے مشہور ہے۔

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے عالیہ سلطانہ بابی کہتی ہیں کہ جب’اے بی سی ‘ پڑھنے کی عمر میں تھیں اس وقت ڈائناسور بہت مقبول نہیں تھا ،بچے بھی اس کے بارے میں بہت زیادہ نہیں جانتے بھی نہیں تھے کیونکہ ٹی وی کا چلن بہت عام نہیں ہوا تھا جبکہ انٹر نیٹ کا وجود نہیں تھا۔لیکن اس وقت بھی وے ’ڈی‘ فار ’ ڈائنا سور‘ ہی پڑھا کرتی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈائنا سور میں ان کی دلچسپی کچھ فطری یا قدرتی ہی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ جوں جوں انہوں نے ہوش سنبھالا ،ڈائنا سور میں دلچسپی میں اضافہ ہوا بلکہ اس بات کا احساس ہوا کہ یہ علاقہ بین الاقوامی نقشہ میں آچکا ہے۔ انوکھی دریافتوں کے سبب بہت جوش و خروش تھا۔ ایک ایسی تلاش، جس کا تعلق 67 ملین یعنی چھ کروڑ اسی لاکھ سال قبل سے ہے۔ ڈائناسور کی ایک نئی نسل کی تھی جسے بادشاہ، راجہ کے ہندی لفظ کے نام پر راجہ سورس نرمادینسیس کا نام دیا گیا تھا۔

کب دریافت ہوئے ڈائنا سور کے آثار

عالیہ سلطانہ بابی ’’آواز دی وائس ‘ سے کہتی ہیں کہ گجرات میں ڈائنا سور کے آثار دریافت ہونا بھی ایک اتفاق تھا۔بقول نواب زادی عالیہ سلطانہ یہ جگہ حادثاتی طور پر 1980 کی دہائی میں دریافت ہوئی یہ 1981 کے موسم سرما تھا جب وہ ایک بچی تھیں۔

جیولوجیکل سروے آف انڈیا (جی ایس آئی) کے سائنسدانوں نے اتفاق سے رائولی گاؤں کی چٹانوں میں فوسل یعنی ڈائنا سور کے ڈھانچے اور آثار دریافت کیے۔اس وقت دراصل ماہرین معدنیات کے سروے کر رہے تھے جب انہیں بڑے پھلوں کے سائز کے کچھ غیر معمولی پتھر ملے۔

awazurdu

لیب کی جانچ نے بعد میں تعین کیا کہ تلاش ڈائناسور کے انڈے اور ہڈیاں تھیں۔ اگلے چند مہینوں کے دوران ڈائنوسور کی کم از کم سات اقسام سے تعلق رکھنے والے ڈائناسور کے تقریبا 1000 انڈوں اور ہڈیوں کے فوسل دریافت کیے گئے جو اس شعبے کی ایک بہت بڑی پیش رفت تھی۔ 

عالیہ کی جدوجہد

عالیہ سلطانہ بابی نے گجرات کے شہر بالاسینور میں نایاب ڈائناسور کے فوسل بیڈز کے تحفظ کے لئے سخت جدوجہد کی ہے۔ 46 سالہ پیلیونٹولوجسٹ بابی بالاسینور کے 500 سال پرانے بابی خاندان سےتعلق رکھتی ہیں۔بابی کو پیار سے "ڈائناسور شہزادی" یا "ڈاکٹر ڈائناسور" کہا جاتا ہے اور آج ان کا شہر ہندوستان کے اپنے جیوراسک پارک یعنی ڈائناسور فوسل پارک اور میوزیم کامالک ہے۔

awazurdu

نواب زادی عالیہ سلطانہ بابی


مگر یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔ جس کے لیے ان کی محنت اور دلچسپی کو سلام کرنا ہوگا کیونکہ ذاتی دلچسپی کی کامیابی کا دارومدار سرکاری دلچسپی پر بھی منحصر کرتا تھا۔جس کے لیے ان کی بھاگ دوڑ نے پورے علاقہ کی زندگی بدلنے کا کام کیا ۔سیاحت کے دروازے کھلے تو روزگار کی راہیں بھی کھل گئیں اور ایک گمنام گاوں دنیا کے نقشہ پر دنیا کی تاریخ کے سب سے خوفناک جانور کے آثاروں کے سبب نمودار ہوگیا۔ 

پہلی کوشش

حکومت کو اس بات کا احساس تھا کہ گجرات کی سرزمین میں کچھ خاص دریافت ہوا ہے۔ مگر روایتی سرکاری سستی آڑے آرہی تھی۔ لیکن عالیہ سلطانہ نے ہمت نہیں ہاری ۔وہ سرکاری سطح پر بھاگ دوڑ کرتی رہیں ۔سرکاری مشنری کو جھنجھوڑتی رہیں ۔پھر رفتہ رفتہ کی کوششوں سے گجرات حکومت نے فوسل پارک کے تحفظ کے لیےسرمایہ کاری شروع کردی۔ اس کے اردگرد دوہری باڑھ لگائی گئی، محافظوں کو تعینات کیا گیا۔تاکہ غیر قانونی طور پر کسی کو اس علاقہ میں داخل ہونے سے روکا جاسکے ۔

awaz

عالیہ سلطانہ بابی کی بھاگ دوڑ نے حکومت کو متحرک کردیا


شروع میں اس جگہ پر مناسب سڑکیں نہیں تھیں ۔سب سے اہم تھا کہ ڈائناسور کی ہڈیاں اتنی ہی خستہ اور نازک ہوتی ہیں جتنی انسانی ہڈیاں اور ان پر چلنے پھرنے سے وہ تباہ ہوسکتی ہیں ۔ اس سے پہلے پتھروں پر چلنے والے سیاح ہڈیوں کو تباہ کر دیتے تھے۔انہیں نقصان پہنچاتے تھے جس سے ان کا تحفظ مشکل ہو گیا تھا۔ لیکن میوزیم نے اب اس انمول خزانے کی حفاظت میں مدد کی ہے۔

مقامی لوگوں کی خواہشات بنیں چیلنج

ہمیں اپنے لوگوں کی دیکھ بھال کرنا سکھایا گیا تھا، چاہے نوابی یا شاہی دور نہ ہو لیکن اس کے باوجود عوام اب بھی ہماری طرف دیکھتے ہیں۔جب میں اس پارک کے لیے بھاگ دوڑ کررہی تھی تو ساتھ ہی یہ بھی سوچتی تھی کہ رائولی گاؤں کے لئے کچھ کروں ۔

awazurdu

محنت رنگ لائی۔ وزیر اعلی گجرات نے کیا جیوراسک پارک کا افتتاح


گاوں والے ایک وقت بہت بے چین تھے،وہ دریافت کیا کرتے تھے کہ کب کھلے گا میوزیم ؟ ترقی کب آئے گی؟ وہ میری گاڑی کے گرد چکر لگاتے تھے۔ میں نے ان کے لئے کام کرنے کا عزم کیا کیونکہ مجھے چیلنجز پسند ہیں، میں نے اس مشن کو بھی ایک چیلنج کے طور پر لیا تھا۔ ان کی بھاگ دوڑ کے بعد آخر کار 2019 میں فوسل پارک کے حصے کے طور پر منفرد ڈائناسور میوزیم شروع کرنے کے لیے قائل کرنے میں بھی کامیاب رہیں۔۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ نے اس کا افتتاح کیا۔آج عالیہ نے گاؤں میں ایک مقامی سرکاری اسکول کو اپنایا ہے اور اسکول کی کتابیں، دوپہر کے کھانے کے ڈبے کے ساتھ عطیہ کیے ۔

کیسے ملا روزگار

اس وبا سے قبل میوزیم میں جون سے دسمبر 2019 کے درمیان 92,000 سیاحوں نے دورہ کیا تھا، جو چھوٹے بالاسینور کے لئے ایک اہم کامیابی رہی۔کورونا کے سبب جیوراسک پارک بھی طویل مدفت تک بند رہا۔

awaz

عالیہ سلطانہ بابی کی کوشش نے ایک گاوں کو دنیا کے نقشے پر لادیا


مقامی لوگوں کوبھی تربیت دی،بہت سے تربیت یافتہ مقامی لوگ میوزیم چلانے اور اس کی دیکھ بھال کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ گاؤں کی بارہ خواتین میوزیم کی کینٹین چلا رہی ہیں۔ اس کے روز مرہ کے کاموں میں بھی چند افراد کام کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مرد گارڈز اور میوزیم آپریٹرز کے طور پر کام کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ڈائناسور کے جیوراسک پارک کی سیاحت نے بالاسینور کی معیشت کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے، جو کیفے، ریستوران، ہوٹلوں اور یادگاروں کے اسٹالز کی شکل میں نظر آرہے ہیں ۔ پیتل، سیمنٹ اور میٹل سے بنا دہاڑتا ہوا چھ میٹر کا ڈائناسور شہر کے داخلی دروازے پر آنے والوں کا خیرمقدم کرتا ہے۔

گارڈن پیلس بنا ہیریٹج ہوٹل

ایک جانب عالیہ سلطانہ اپنے آباؤ اجداد کی سرزمین پر گھومنے والے ڈائناسور کی تاریخ اور نشانات کی حفاظت کے لئے کام کرتی ہیں تو دوسری جانب عالیہ گارڈن پیلس ہیریٹیج ہوٹل کا انتظام کرتی ہے جہاں ان کا خاندان اب بھی رہتا ہے۔ عالیہ ٹرپ ایڈوائزر اور گوگل پر خصوصیات پیش کرتی ہیں اور گجرات ٹورازم کی کسٹمر کیئر سے جڑی ہوئی ہیں۔ عالیہ کا کہنا ہے کہ خاندانی وراثت کا حصہ ہونے کی وجہ سے میں اس علاقے سے وابستہ ہو گئی اور اس کے لیے کام کرنا چاہتی تھی۔ 

awazurdu

 

بابی خاندان کی گرم جوشی سے مہمان نوازی اور قریبی فوسل پارک کے اسرار کے علاوہ اس ہیرٹیج ہوٹل میں آنے والوں کے ساتھ بالاسینور کے روایتی کھانے پیش کیے جاتے ہیں۔ جو عالیہ کی والدہ ملکہ خود بیگم فرحت سلطانہ کی نگرانی میں شاہی باورچی خانے میں پکا ئے جاتے ہیں۔

میڈیا کی توجہ کا مرکز

عالیہ سلطانہ بابی کی کہانی اب دنیا بھر میں سرخیوں میں ہے۔ ان کی اس انوکھی جدوجہد اور کامیابی کی کہانی فیمینا، ، ہیلو، ہیبلٹز، جی آر 8، انڈیا ٹوڈے، ٹائمز آف انڈیا، ڈیلی میل، دی انڈین ایکسپریس جیسے بے شمار ہندوستانی اور غیر ملکی زبانوں کے اخبارات اور رسالوں کی زینت بن چکی ہے۔

وہ مختلف ٹیلی ویژن شوز اور چینلز جیسے کوکنگ فار دی کراؤن، ڈسکوری چینل،بی بی سی، رائل ریزرویشنز فار این ڈی ٹی وی گڈ ٹائمز، ہسٹری چینل، لیونگ فوڈز، ٹریول ایکس پی، چینل نیوز ایشیا سمیت دیگر کا بھی حصہ لیتی رہتی ہیں۔ عالیہ کی ثابت قدمی کو سرکاری اداروں اور سائنسی اداروں نے بجا طور پر تسلیم کیا اور انعام دیا ہے۔

فیمینا اور ایشیائی افریقی چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے بھی ان کی تحفظ کی کوششوں پر انہیں مبارکباد دی ہے۔ انہیں ہیلو میگزین اور رائل فیبلز کی طرف سے ان خدمات کے لیے سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا ۔ انہوں نے فوسل کے تحفظ کی کوششوں کے لئے ٹائمز آف انڈیا کی ٹائمز پاور ویمن 2019 کی فہرست میں جگہ بنائی تھی۔ انہیں 500 سب سے بااثر شخصیات کی فہرست میں ٹاپ 50 میں جگہ ملی تھی جو کہ نیویارک پریس نیوز ایجنسی نے جاری کی تھی۔

کون ہے بابی خاندان ؟

دراصل بالا سینور 18 ویں صدی میں قائم ایک نوابی ریاست تھی جو کہ گجرات میں 17 ویں صدی کے وسط میں قائم بابی سلطنت کا حصہ رہی تھی۔ بابی خاندان کا تعلق در حقیقت افغانستان میں پٹھانوں کے یوسف زئی قبیلے سے ہے۔ صوبہ زبول میں یہ پختون برادری ’بابی ‘ یا بابائی‘ کے نام سے مشہور ہے۔

بابی خاندان یا برادری کو حضرت قیسؓ کے سلسلے کا مانا جاتا ہے جو کہ صحابی تھے۔ بابی خاندان در اصل میں 16 ویں صدی کے اوائل میں مغلوں کے ساتھ ہندوستان آیا تھا۔ بابی در اصل مغل شہنشا ہ بابر کے سب سے معتبر سپہ سالار کے طور پر پہنچے تھے۔

awazurdu

کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ ہمایوں کو حملے سے بچانے کے بعد انہیں گجرات کی صوبیداری (گورنری) سے نوازا گیا۔ جنوری 2018 میں نواب سلابات خانجی دوم کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے دسویں نسل کے نواب سلطان صلاح الدین خان بابی نے گارڈن پیلس بالاسینور میں راجپوت اور اسلامی دونوں تقریبات میں راج تلک یا گدی دستور کے نام سے اپنی تاجپوشی کروائی تھی۔

آج نواب سلطان صلاح الدین خان بابی اپنی والدہ بیگم فرحت سلطانہ، ان کی اہلیہ بیگم زیبا سلطان خان اور ان کی بہن نواب زادی عالیہ سلطانہ بابی کے ساتھ بالاسینور کےخاندانی محل میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ گجرات کی قدیم تاریخی وراثت کی ثقافتی محافظ کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔