سری نگر: پورے ملک کی طرح کشمیر کی حسین وادیاں اور فرحت بخش فضائی کورونا کے خونی پنجوں کے نرغے میں آ چکی ہیں ۔ تیزی سے خراب ہورہے حالت کے پیش نظر حکومت اور انتظامیہ اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے پوری تندہی سے متحرک ہیں ۔ لیکن پورے ملک کی طرح کشمیر میں بھی عوام میں سے چند مخیر اور مخلص افراد نے اس لڑائی کو جیتنا اپنی زندگی کا مقصد بنا کر اپنی بے لوث خدمات سے ضرورت مند افراد کو مستفید کر رہے ہیں اور کورونا کے خوف ناک حملوں کی دھار کند کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ کورونا کے پر آشوب دور میں جہاں اچھے اچھے چھپ گئےہیں وہیں ایک خاتون ایسی بھی ہیں جواس جنگ میں بڑی دلیری کے ساتھ مزاحم ہیں ۔ خدمت کے جذبہ کو اپنی جان کی بازی لگا کر بھی عمل میں لا رہی ہیں۔کورنا کے مریضوں کے علاج میں منہمک اس بے خوف خاتون کانام ہے ڈاکٹر صداقت رحمان ۔
چھپن سالہ ڈاکٹر صداقت رحمان کے لئے جو کہ ایک بچے کی ماں بھی ہیں ، مریضوں کا علاج کرنا پیشہ سے بالاتر ایک اعلی چیز ہے۔ انہوں نے خود کو وادی کے کووڈ مریضوں کے علاج کے لئے وقف کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم جس پیشہ میں ہیں وہ نوکری کم اور انسانیت کی خدمت زیادہ ہے۔صداقت تنہا ایسی مخلص شخصیت نہیں ہیں جو خلق خدا کی پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھتے ہیں ، ان کی طرح ایسے بہت سے لوگ ہیں جوان جیسے خیالات رکھتے ہیں اور جن کا ایک ہی مشن ہے ۔صداقت انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز کشمیر میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں جنہوں نے 1997 میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا ۔ مارچ 2020 میں کشمیر میں کورونا پھیلنے کے بعد سے ہی انہوں نے اپنی زندگی داؤ پر لگا کر وائرس سے متاثرہ افراد کا علاج جاری رکھا ۔
صداقت مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ مارچ 2020 کے بعد سے تو اسپتال ہی میرا گھر بن گیا ہے ، ہمیں گھر واپس جانے کا وقت ہی نہیں ملتا ۔ میرے خیال میں یہ کسی بھی دوسری مادی چیز سے زیادہ اہم ہے۔پی پی ای کٹ میں ملبوس ڈاکٹر صداقت کا کہنا ہے کہ کووڈ مریضوں کا علاج کرنے سے اس کو خاص طرح کا سکون ملتا ہے ۔شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (ایس کے آئی ایم ایس) میں بطور نرس تعینات شبیرا رحمت کہتی ہیں کہ پچھلے کچھ مہینوں کے دوران وہ اسپتال کے مختلف شعبوں میں تعینات کی گئیں ہیں۔ آئ سی یو اور دوسری تمام ایسی جگہوں پر جہاں انفیکشن کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے ، وہ اپنی زندگی داؤں پرلگا کر کام کر رہی ہیں ۔
صداقت کا کہنا ہے کہ بعض اوقات کووڈ وارڈز میں رہنے کے بعد گھر جانا مشکل ہوجاتا ہے ، کیونکہ ہم اپنے کنبے کی صحت کو بھی خطرہ میں نہیں ڈال سکتے اس لئے ہمارے لئے ہسپتال ہی ہمارا گھر ہے اور مریض ہی ہمارا کنبہ ہیں۔رحمت نے کہا کہ کام کے طویل اوقات ، کورونا اور دیگر انفیکشن کی بے لگام ہوتی صورت حال اور پریشان سی معاشرتی زندگی مجھے اپنے مشن اور مقصد سے پیچھے نہیں ہٹا سکتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ نرسیں بھی فرنٹ لائن ورکر ہیں اور وبائی امراض کے خلاف لڑنے میں ان کا مساوی حصہ ہے۔