کہانی سعودی عرب کے ’ستاروں پرکمند‘ ڈالنے کی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 23-05-2023
کہانی سعودی عرب کے ’ستاروں پرکمند‘  ڈالنے کی
کہانی سعودی عرب کے ’ستاروں پرکمند‘ ڈالنے کی

 

جدہ: سعودی عرب نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب ایک نئی تاریخ اس وقت رقم کی جب پہلی سعودی خاتون خلانورد ریانہ برناوی اور ان کے ساتھی علی القرنی سمیت چار خلا باز بین الاقوامی خلائی سٹیشن ( آئی ایس ایس) کے تاریخی سائنسی مشن پر روانہ ہوئے۔عرب نیوز کے مطابق سعودی خلا بازوں کا سفر ایکسیوم سپیس ٹو مشن کے ذریعے امریکی وقت کے مطابق پانچ بج کر 37 منٹ پر شروع ہوا۔ ریانہ برناوی پہلی عرب خاتون ہیں جو خلا میں گئی ہیں۔ انہوں نے  نیوزی لینڈ کی اوٹاگو یونیورسٹی سے گریجویشن کر رکھی ہے جبکہ وہ الفیصل یونیورسٹی سے بائیو میڈیکل سائنسز میں ماسٹر ڈگری ہولڈر بھی ہیں۔

ریسرچ لیبارٹری سپشلسٹ کے طور پر کام کرنے والی برناوی سٹم سیل اور ٹشو ری انجنیئرنگ کا نو سال سے زائد عرصے کا تجربہ بھی رکھتی ہیں۔ روانگی سے قبل برناوی کا کہنا تھا کہ ’ہم خلا میں جانے اور اپنے ملک اور انسانیت کے لیے تاریخی کارنامہ انجام دینے کے لیے پرجوش ہیں۔‘ان کے ساتھ روانہ ہونے والے علی القرنی نے کنگ فیصل یونیورسٹی سے ایئرناٹیکل سائنس میں بیچلر ڈگری حاصل کر رکھی ہے جبکہ انہوں نے امریکہ کے وینس ایئرفورس بیس سے ایئرناٹیکل کا ایک ڈپلومہ بھی حاصل کیا ہے۔وہ سعودی عرب کی رائل ایئر فورس میں بطور کپتان خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ جہاز اڑانے کا بھی 12 سال سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں۔ روانگی سے قبل انہوں نے بتایا تھا کہ ’ہم بہت فخر اور جوش محسوس کر رہے ہیں کیونکہ ہم پہلی بار انٹرنیشنل سپیس سٹیشن جا رہے ہیں۔
اپنے آٹھ روزہ قیام کے دوران خلانورد 14 تجربات میں حصہ لیں گے۔ جن میں سے 11 مائیکروگریویٹی سے متعلق ہیں جبکہ باقی کے تین تعلیمی آگاہی کے بارے میں ہیں جن میں مملکت بھر میں زیرتعلیم 12 ہزار طلبا و طالبات بھی شامل ہوں گے۔
ان کے ساتھ امریکہ کے آئی ایس ایس کمانڈر پیگی وٹسن اور پائلٹ جان شوفنر بھی موجود ہیں۔
مشن پر روانہ ہونے سے قبل سعودی خلانوردوں نے ایکسیوم، سپیس ایکس ناسا کے جانسن سینٹر، سپیس ایکس کے ہیڈکوارٹرز، جاپانی ایئروسپیس اور یورپین سپیس ایجنسی میں نو ماہ کی تربیت بھی حاصل کی۔
انہوں نے مصنوعی خلائی حالات میں بھی 12 دن گزارے اور اس دوران بے وزنی اور ان حالات میں تیرنے کے علاوہ مدار میں استعمال ہونے والے رابطے کے آلات کے بارے میں جانا جبکہ سپیس فلائٹ کے دوران مواصلات کی مہارت سمیت ممکنہ ضمنی اثرات کے حوالے سے معلومات حاصل کیں۔مملکت خلائی تحقیق کی سپورٹ اور ٹیکنالوجی میں سعودیوں کا کردار بڑھانے کے لیے پرعزم ہے۔ اے ایکس ٹو سعودی سپیس کمیشن کا پہلا خلائی پرواز کا پروگرام ہے۔
 یہ مشن مستقبل میں سعودی خلابازوں کو طویل قیام کے مشن پر بھیج کر مزید تحقیق کرنے اور سائنس میں مملکت کے تعاون کو وسعت دے کر ایک پائیدار پروگرام کی راہ ہموار کرے گا۔
اس پروگرام سے سائنس کے میدان میں مملکت کا حصہ بڑھے گا اور مزید تحقیق کا کام ہو گا۔
ویژن 2030 کا مقصد سعودیوں کے علم اور تکنیکی مہارتوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی معشیت کو مزید متنوع بنانا اور وسعت دینا ہے۔
ایچ ایس ایف کے تحقیقی مشن کی بدولت مسقبل میں چاند اور مریخ کے مشنز کو آگے بڑھانے کے علاوہ جسمانی صحت، بائیالوجی، بائیوٹیکنالوجی، بائیوفارما، ارتھ سائنس اور خلا کے حوالے سے مزید ترقی اور سازوسامان کی تیاری میں مدد ملے گی۔
اس سے تحقیق کے مواقع کو فروغ حاصل ہو گا اور بین الاقوامی سطح پر مملکت کا کردار مزید اجاگر ہو گا۔
 دسمبر 2018 میں شروع ہونے والا مشن بین الاقوامی فورمز پر مملکت کی نمائندگی بھرپور طور پر کر رہا ہے۔ یہ سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ کام کے علاوہ خلائی سرگرمیوں اور پالیسیوں کو منظم کرتا ہے اور خلا سے متعلق تحقیق اور صنعتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے کام کر رہا ہے۔
مملکت مستقبل میں بھی خلا اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مزید کام کے لیے پرعزم ہے۔
اس پروگرام کی بدولت سعودی طلبا و طالبات کو ممتاز بین الاقوامی یونیورسٹیز سے خلا سے متعلق مختلف شعبوں کی انڈر گریجویٹ اور گریجویٹ ڈگریاں حاصل کرنے کا موقع بھی مل رہا ہے۔
ان میں فلکیات اور خلائی سائنسز، ایئروسپیس انجینیئرنگ، فلکیاتی طبعیات، جنرل ریلیٹیویٹی فزکس، کاسمولوجی سمیت دی