زیبا نسیم : ممبئی
ہندوستان کی قدیم تہذیب میں امام حسین کی یاد صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رہی بلکہ کئی ہندو خاندانوں نے بھی ان کی لازوال قربانی کو اپنی شناخت اور عقیدت کا حصہ بنایا۔ انہی میں ایک منفرد خاندان "حسینی برہمن" کہلاتا ہے، جن کے آباؤ اجداد نے میدان کربلا میں امام عالی مقام کے شانہ بشانہ یزیدی لشکر سے جنگ کی۔ جبکہ دلوں کو جوڑنے والی ایک قدیم اور لازوال کڑی عزاداریِ امام حسینؑ ہے۔ عزاداری محض مذہبی روایت نہیں رہی، بلکہ ایک منظم قومی عمل بن گئی، جو تہران کے مقتل خوانی کے اجتماعات سے نکل کر فکری اور روحانی تحریک کی صورت اختیار کر گئی-
ادھربرصغیر میں لکھنؤ، دکن اورحیدرآباد سے پروان چڑھتی عزاداری کی روایت نے ہندوستانی معاشرت میں اپنی جڑیں گہری کیں۔آصف الدولہ کے عہد میں لکھنؤ عزاداری کا عظیم مرکز بنا، جہاں امام باڑے، تعزیے، سوز و سلام، نوحہ خوانی، نذر و نیاز اور علم و جلوس کی رسمیں صرف مذہبی وابستگی نہیں بلکہ ایک زندہ ثقافتی پل بن گئیں۔ میر انیسؔ اور دبیرؔ کی مراثی آج بھی ایران کے ذاکروں کی زبان پر اسی درد اور شوق سے پڑھی جاتی ہیں، جیسے ہندوستان میں ایرانی نوحوں کی گونج آج بھی مجلسوں میں جذب و عقیدت کی لہر دوڑا دیتی ہے۔
دلچسسپ بات یہ ہے کہ یاد حسین کا درد صرف مسلمانوں کے دل میں نہیں ہے بلکہ برصغیر میں یہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت بھی بن گیا ہے،امام حسین کو یاد کرنے والوں میں ہندو بھی شامل ہوتے ہیں ،وہ عزاداری ہو یا مرثیہ نگاری ،امام حسین کو خراج عقیدت پیش کرنے میں کوئی پیچھے نہیں ہوتا ہے ۔ یہ ایک مشترکہ روحانی ورثے ہے ،جس کی ایک حیران کن جھلک ہندوستان کے ہندو راجہ مہاراجاؤں کی عزاداری میں بھی صاف دکھائی دیتی ہے۔ بنارس، آگرہ، جھانسی، کولکتہ، میسور، الور اور گوالیار کے کئی ہندو حکمرانوں نے امام حسینؑ کی مظلومیت اور عظمت کو سچائی اور عدل کا استعارہ مان کر محرم کے جلوسوں میں شرکت کی، امام باڑے تعمیر کرائے اور نوحہ خوانی کی محفلیں برپا کیں۔ راجہ رائے سنگھ، راجہ چیت سنگھ اور راجہ گجندر پرشاد جیسے فرماں روا امام عالی مقامؑ کے غم کو اپنا اعزاز سمجھتے تھے۔برہمن علما کی قیادت میں تعزیے اٹھانے اور جلوس نکالنے کے واقعات تاریخ کی روشن مثالیں ہیں۔ کہیں اشوک ون میں تعزیہ دفنایا جاتا، کہیں “پیر صاحب” کے نام سے عزاداری منائی جاتی اور کہیں ہندو خواتین تعزیے کے نیچے سے بچوں کو گزار کر منتیں مانگتیں۔ یہ سب صرف رسومات نہ تھیں بلکہ امام حسینؑ کے آفاقی پیغامِ انسانیت اور مظلوم کی حمایت کا گہرا اظہار بھی تھیں۔کربلا کا یہ درد، یہ سوز، یہ جذبہ دونوں تہذیبوں کا مشترکہ روحانی اثاثہ بن چکا ہے—ایک ایسا پیغام جو ہر دور میں ظلم کے خلاف علم بغاوت بلند کرتا ہے اور انسان کی روح کو پاکیزگی اور سچائی کی راہ دکھاتا ہے۔ چاہے وہ شیعہ ہو یا سنی، ہندو ہو یا پارسی، زبان سنسکرت ہو یا فارسی، اگر دل سچ کے ساتھ ہو تو وہ نوحہ حسینؑ میں ڈھل جاتا ہے۔
راہیب دت اور ان کے بیٹوں کی کربلا میں شرکت
مشہور لکھاری انتظار حسین نے اپنے انگریزی کالم Brahmans in Karbalaمیں لکھا ہے کہ وہ شروع میں اس روایت کو محض ایک افسانہ سمجھتے تھے۔ تاہم دہلی میں ایک محفل میں پروفیسر نونیکا دت نے ان کے سامنے خود کو حسینی برہمن خاندان کی فرد بتایا اور اپنے بزرگوں کے بارے میں دو پرانی کتابیں پیش کیں۔ ان کے جدِ امجد راہیب دت اپنے سات بیٹوں اور دو دیگر برہمنوں کے ساتھ ہندوستان سے کربلا روانہ ہوئے۔ ان میں صرف راہیب دت زندہ واپس لوٹے اور افغانستان کے راستے سیالکوٹ کے گاؤں وتن ورن میں آباد ہوئے۔
نرگس اور سنیل دت کی حسینی برہمن نسبت
نونیکا دت نے بتایا کہ مشہور فلمی اداکار سنیل دت بھی اسی حسینی برہمن خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے خاندان کے بارے میں فلمی اداکار منوج کمار نے بھی تصدیق کی۔ یہاں تک کہ نرگس کے والد بھی پہلے حسینی برہمن تھے اور بعد میں مسلمان ہو گئے تھے۔ راہیب دت اپنے ساتھ حضرت امام حسین علیہ السلام کا ایک بال مبارک بھی لائے جو آج بھی کشمیر میں محفوظ ہے۔
عقیدہ و رسوم: ہندو برہمن اور امام حسینؑ
جب انتظار حسین نے پوچھا کہ کیا یہ خاندان مسلمان ہو گیا ہے تو پروفیسر نونیکا دت نے جواب دیاکہ ہرگز نہیں، ہم ہندو برہمن ہی ہیں۔ لیکن حسینی ہونے کے ناتے مندروں میں نہیں جاتے اور ہندوانہ رسومات ادا نہیں کرتے۔ ہم محرم کے دنوں میں امام حسین علیہ السلام کا ماتم کرتے ہیں اور اپنے شہیدوں کو یاد کرتے ہیں۔
قدیم ہندوستان میں امام حسین کی عزت
واقعہ کربلا کی عظمت نے ہندوستانی معاشرے کو گہرائی تک متاثر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ شہید انسانیت امام حسین علیہ السلام کی یاد نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوؤں میں بھی صدیوں سے عقیدت و احترام کا مرکز رہی ہے۔
مہارانی لکشمی بائی کی عقیدت
پروفیسر رفیعہ شبنم نے لکھا ہے کہ جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی یوم عاشورہ بڑے خلوص سے مجلس عزا برپا کرتیں۔ آج بھی جھانسی پولیس کوتوالی میں ان کی قائم کردہ مجلس ہوتی ہے جہاں کبھی ان کا قلعہ تھا۔
مغل عہد اور عزاداری
منشی جوالہ پرشاد اختر کے مطابق صوبہ اودھ میں حضرت عباس علیہ السلام کے علم کا پہلا جلوس مغلیہ فوج کے راجپوت سردار دھرم سنگھ نے اٹھایا۔ لکھنؤ میں عزاداری کی شان میں ہندو مسلم مشترکہ شرکت نے قومی اتحاد کو مضبوط کیا۔
ہندوؤں کے عزاخانے اور روضے
مسز میر حسن علی لکھتی ہیں کہ لکھنؤ میں مشہور روضہ "کاظمین" ہندو عقیدت مند جگن ناتھ اگروال نے تعمیر کرایا۔ اسی طرح راجہ جھا لال، راجہ بلاس رائے، اور راجہ ٹکیل رائے نے عزاخانے تعمیر کر کے علم اور تعزیے رکھے۔ گوالیار اور مدھیہ پردیش میں ہندو مہاراجے ایام عزا بڑے خلوص سے مناتے تھے۔مدھیہ پردیش کے گونڈوانہ میں ہریجن اور دیگر ہندو اپنی منتیں پوری کرنے کے لیے حسین بابا کے تعزیے اٹھاتے ہیں۔صحافی جمناداس اختر لکھتے ہیں کہ حسینی برہمن خصوصاً دت اور موہیال ذات پنجاب میں آباد ہیں۔ یہ خاندان راہیب دت کی نصرت امام میں قربانی کو اپنی عزت سمجھتے ہیں۔ عاشورا کے دن یہ لوگ سوگ مناتے ہیں اور ان کے گھروں میں کھانا نہیں پکایا جاتا۔
ہندو شعرا کی حسینی عقیدت
اردو ادب میں ہندو شعرا نے بھی معرکہ کربلا کو موضوع بنایا۔ پریم چند کا ڈرامہ "کربلا" ہو یا راماراؤ، مکھی داس، منشی چھنو لال دلگیر، چکبست، مہندر سنگھ بیدی سحر جیسے شعرا کی لازوال تخلیقات، سب میں حسین ابن علی سے غیرمعمولی محبت جھلکتی ہے۔
کربلا کی یاد آج بھی زندہ
محرم میں کشمیر سے کنیا کماری تک ہر شہر، قصبہ اور دیہات میں ہندو اور مسلمان مل کر مجالس اور جلوس عزا برپا کرتے ہیں۔ کہیں شربت کی سبیلیں لگتی ہیں، کہیں منتیں مانی جاتی ہیں۔ ہندو عورتیں بچوں کو تعزیے کے نیچے سے گزار کر ان کی امان حسینی بابا کو سونپتی ہیں۔یہ داستان نہ صرف کربلا کے پیغام حق و صداقت کی گواہ ہے بلکہ ہندوستان کی صدیوں پرانی مشترکہ تہذیب اور بین المذاہب احترام کی روشن علامت بھی ہے۔