ہندوستان کے تعمیراتی ورثے کی تکثیریت بہت دلکش ہے۔ پروفیسر عرفان حبیب

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-03-2023
ہندوستان کے تعمیراتی ورثے کی تکثیریت بہت دلکش ہے۔  پروفیسر عرفان حبیب
ہندوستان کے تعمیراتی ورثے کی تکثیریت بہت دلکش ہے۔ پروفیسر عرفان حبیب

 

علی گڑھ، 13 مارچ: ''تعمیراتی ٹکنالوجی کا مطالعہ تاریخ نویسی کے نقطہ نظر سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہندوستان کے تعمیراتی ورثے کی تکثیریت بہت دلکش ہے۔ ہمارے پاس اشوک کے دور کے غاروں سے لے کر دہلی سلطنت کے دور کے گنبد اور مغلیہ عہد کے تاج محل سمیت بے شمار تعمیرات ہیں جو ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہیں

۔ ان خیالات کا اظہار معروف مؤرخ اور شعبہ تاریخ، اے ایم یو کے پروفیسر ایمریٹس پروفیسر عرفان حبیب نے کیا۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ تاریخ، سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی کے زیر اہتمام ’مغل سلطنت: آرٹ، آرکیٹیکچر و تاریخ نویسی‘ کے موضوع پر تین روزہ قومی سیمینار کے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ پیش کررہے تھے۔

پروفیسر حبیب نے ’مغل فن تعمیر اور تاریخ نویسی‘ پر گفتگو کرتے ہوئے مغل فن تعمیر کو تشکیل دینے والے متنوع عناصر کو بیان کیا اور واضح کیا کہ عمارتوں میں گنبد کس طرح بازنطینی سلطنت سے مستعار لیے گئے جب کہ محراب یونانیوں سے درآمد کیا گیا۔ انھوں نے کہاکہ چونے اور جپسم جیسے مواد کا استعمال بھی مسلمانوں نے فارسیوں اور یونانیوں سے اپنایا۔

پروفیسر عرفان حبیب نے مغل بادشاہ اکبر اور جہانگیر کے وسیع المشرب نقطہ نظر پر روشنی ڈالی جیسا کہ ان کے دور کی تحریروں میں نظر آتا ہے۔ انھوں نے کہا ”درباری تاریخیں آئین اکبری اور تزک جہانگیری، مغلوں کے کثیر ثقافتی طور طریقوں کو تفصیل سے بیان کرتی ہیں جن کا اندازہ ان کے فن تعمیر سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے

افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی کے طور پر شعبہ تاریخ کی اہمیت اور اس کی خدمات کی ستائش کی۔انہوں نے مغل شہزادہ دارا شکوہ کے عہد کے مجموعی فکری اور ثقافتی ماحول کا بھی ذکر کیا کہ وہ کس طرح متنوع ہندوستانی ثقافت اور معاشرے کی علامت بنے۔ پروفیسر منصور نے مغلوں کی تعمیر کردہ عمارات و باغات، کشمیر کے پری محل باغ وغیر ہ کاحوالہ دیا اور پروفیسر ایبا کوچ کی حالیہ کتاب ’دی پلینیٹری کنگ‘ کا بھی ذکر کیا، جس میں آرٹ اور فن تعمیر میں مغل بادشاہ ہمایوں کی دستیابیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

وائس چانسلر نے مزید کہا کہ سرسید احمد خاں نے ہندوستان کی تعمیراتی وراثت میں بہت تعاون کیا ہے۔ اس سے قبل شعبہ تاریخ کی سربراہ پروفیسر گلفشاں خان نے مہمانوں اور مندوبین کا خیرمقدم کیا۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاں کی وراثت اور تاریخ کے میدان میں ان کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے آثار الصنادید کا بطور خاص ذکر کیا۔

انھوں نے کئی تاریخی عمارات جیسے کہ اکبرآبادی مسجد اور لال قلعہ کے اندر کی کچھ عمارتوں کا بھی ذکر کیا جو 1857 کی جنگ آزادی میں برباد ہوگئیں۔ پروفیسر گلفشاں خاں نے مزید کہاکہ ہسٹوریو گرافی، سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی کی توجہ کا اہم میدان ہے، جس میں پینٹنگ، فن تعمیر، آرٹ اور تاریخ کے موضوعات شامل ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ تین روزہ سیمینار میں فرانس، اٹلی، امریکہ، جاپان اور ہندوستان کے مختلف اسکالرز موضوع کے مختلف پہلوؤں پر مقالے پیش کریں گے۔پروفیسر علی اطہر نے شکریہ کی تجویز پیش کی، جب کہ ڈاکٹر لبنیٰ عرفان نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔