حیدرآبا د :تصوف اصل میں اخلاق کا نام ہے اور آدمیت کی بنیاد بھی اخلاق ہی پر قائم ہے۔
امیر جامعہ نظامیہ مفتی خلیل احمد نے ان خیالات کا اظہار کیا،انہوں نے کہا کہ جدید سائنسی اور عصری علوم کی تحقیق کے باوجود ان کے بنیادی تصورات کا ذکر ہمیں قرآن مجید میں بھی ملتا ہے۔ وہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں دکن کی خانقاہوں کے موضوع پر دو روزہ قومی سمینار میں خطاب کر رہے تھے جس میں مختلف شعبوں کے ماہرین نے شرکت کی۔
انہوں نے کہا کہ ہر دور میں علماء نے مختلف علوم میں مہارت حاصل کی جبکہ صوفیائے کرام نے تزکیہ نفس اور احسان کو اپنا میدان عمل بنایا۔ ان کے مطابق تصوف کی اصل روح اخلاق ہے اور اخلاق کی بنیاد انسان میں پائی جانے والی آدمیت سے پہچانی جاتی ہے۔ اگر آدمیت نہ ہو تو انسان اخلاق سے بھی خالی ہو جاتا ہے۔ انہوں نے یہ نکتہ بھی بیان کیا کہ تصوف کا پہلا مدرسہ اصحاب صفہ کا چبوترہ تھا جہاں تعلیم اور تزکیہ دونوں کا اہتمام ہوتا تھا۔
درگاہ حضرت خواجہ بندہ نواز کے سجادہ نشین اور کرناٹک وقف بورڈ کے چیئرمین سید محمد علی الحسینی نے بھی سمینار سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں خانقاہ محض عبادت گاہ نہیں بلکہ تربیت گاہ، مکتب، خدمت خلق کا مرکز اور روحانی تربیت کا سنگ بنیاد ہوا کرتی تھی۔ ان کے مطابق اگر اسی خدمت عبادت اور تربیت کے نظام کو دوبارہ زندہ کیا جائے تو خانقاہی روایت کی اصل روح بحال ہوسکتی ہے۔
اپنے صدارتی خطاب میں وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن نے کہا کہ تصوف خوب سے بہتر کی طرف سفر کا نام ہے جس میں برداشت اور استقامت بنیادی اوصاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا میں انسانیت کو درپیش مسائل کا حل خانقاہی نظام کو اس کی اصل روح کے ساتھ جاری رکھنے میں پوشیدہ ہے۔ ان کے مطابق اس سمینار کا مقصد دکن کی خانقاہوں پر تحقیقی کام کو جامعاتی سطح پر فروغ دینا ہے تاکہ محققین کو اعتماد حاصل ہو۔
پہلے سیشن میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر بدیع الدین ماہری نے کہا کہ کرناٹک مہاراشٹرا تلنگانہ اور آندھرا پردیش قدیم دکن کا حصہ رہے ہیں جہاں خانقاہوں کی زرخیز تاریخ ملتی ہے لیکن اس موضوع پر ابھی باضابطہ تحقیق کی ضرورت باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خانقاہ کا بنیادی مفہوم مہمان نوازی اور خدمت خلق ہے۔ لنگر خانقاہ کی روح تھا جس کے ذریعے بھوک مٹانے کے ساتھ ساتھ باطنی تربیت کا جامع نظام بھی قائم تھا۔ دکن کی خانقاہوں کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہاں کے حکمران بھی رہنمائی کے لیے ان کا رخ کرتے رہے۔
رجسٹرار پروفیسر اشتیاق احمد نے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے دکن کی مختلف خانقاہوں کی اپنی زیارتوں کا ذکر کیا اور اس بات پر مسرت ظاہر کی کہ سمینار کے تمام مقالات کو کتابی شکل اور پی ڈی ایف میں شائع کیا جارہا ہے جن میں اردو کے انیاسی اور ہندی و انگریزی کے چودہ مقالات شامل ہیں۔
آغاز میں پروفیسر علیم اشرف جائسی نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے سمینار کے اہداف بیان کیے۔ انہوں نے کہا کہ خانقاہیں ہمیشہ علم اور عمل کے ذریعے انسانوں کی تربیت اور تزکیہ کا مرکز رہی ہیں اور اسی مقصد کے تحت اس سمینار میں اولیائے کرام کی خدمات کو سامنے لایا جارہا ہے۔ کارروائی کی نظامت پروفیسر محمد عبدالسمیع صدیقی نے کی جبکہ اجلاس کا آغاز ڈاکٹر عبدالعلیم کی تلاوت سے ہوا۔