شب قدر ۔ کیا ہے فضیلت اور اہمیت

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 02-04-2024
شب قدر ۔  کیا ہے فضیلت اور اہمیت
شب قدر ۔ کیا ہے فضیلت اور اہمیت

 

نئی دہلی : آواز دی وائس 

رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے جو بہت ہی قدر و منزلت اور خیر و برکت کی حامل رات ہے۔ اس رات کو اللہ تعالی نے کیونکہ ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے اور ہزار مہینے کے تراسی برس چار ماہ بنتے ہیں ،اس لئے ” خیر من الف شھر‘ ‘کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کریم جتنا زیادہ اجر عطا فرمانا چاہے گا عطا فرما دے گا۔ اس اجر کا اندازہ انسان کے بس سے باہر ہے۔

قرآن مجید کی ابتدائی آیات غارِ حرا میں حضرت جبرئیل ؑ کی زبانی رمضان المبارک میں لیلتہ القدر کو نازل ہوئیں۔ جس رات میں اﷲکا آخری پیغا مِ ہدایت نازل ہونا شروع ہوا اس سے بڑھ کر خیر و برکت والی رات دورِ فلک نے نہ دیکھی اور نہ دیکھے گا۔ سورئہ البقرہ کی آیت نمبر 185 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ترجمہ "رمضان و ہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا"۔ لیلتہ القدر کی فضیلت سورئہ دحٰان کی آیت نمبر 3 میں یوں فرمائی گئی ہے ترجمہ "ہم نے اسے ایک برکت والی رات میں نازل فرمایا ہے"۔ رمضان المبارک کی وہ رات جس میں قرآن نازل کیا گیا اسے لیلتہ القدر یا شبِ قدر کہتے ہیں۔

شب قدر کا معنی و مفہوم:امام زہریؒ فرماتے ہیں کہ قدر کے معنی مرتبہ کے ہیں چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے اس لئے اسے ” لیلة القدر“ کہا جاتا ہے۔(تفسیر القرطبی )

حضورؐ کا فرمان ہے کہ لیلتہ القدر کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو یعنی 29-27-25-23-21اور آخری رات میں تلاش کیا جائے۔ علمائے کرام نے 27شب کو ہی لیلتہ القدر ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا جو شخص اس مبارک رات میں عبادت کے لئے کھڑا رہے گا اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ اﷲ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

شب قدر احادیث کی روشنی میں

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب شب قدر ہوتی ہے، جبرائیل امین علیہ السلام ملائیکہ کی جماعت میں اترتے ہیں اور ہر قیام و قعود کرنے والے بندے پر جو خدا تعالیٰ کے ذکر و عبادت میں مشغول ہو (اس کیلئے) دُعا کرتے ہیں‘‘ (بیہقی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جس شخص نے ایمان اور اخلاص کے ساتھ ثواب کے حصول کی غرض سے شب قدر میں قیام کیا (عبادت کی) تو اس کے سارے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے‘‘(بخاری شریف و مسلم شریف)

شب قدر کو کن راتوں میں تلاش کریں؟

اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو (بخاری، مشکوۃ)

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا شب قدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں یعنی 21، 23، 25، 27 اور 29 کی رات میں ہے، جو شخص ثواب کی نیت سے ان راتوں میں عبادت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیتا ہے، اس رات کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ یہ رات کھلی ہوئی اور چمکدار ہوتی ہے، صاف و شفاف گویا انوار کی کثرت کے باعث چاند کھلا ہوتا ہے، یہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈی بلکہ معتدل ہوتی ہے، اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے بعد صبح کو سورج بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے، بالکل ہموار ٹکیہ کی طرح جیسا کہ چودھویں کا چاند کیونکہ شیطان کے لئے یہ روا نہیں کہ وہ اس دن سورج کے ساتھ نکلیں (مسند احمد، جلد 5ص 324، مجمع الزوائد)

شب قدر کو پوشیدہ رکھنے میں حکمتیں

علماء کرام نے شب قدر کے پوشیدہ ہونے کی بعض حکمتیں بیان فرمائی ہیں جو درج ذیل ہیں۔

۔ اگر شب قدر کو ظاہر کر دیا جاتا تو کوتاہ ہمت لوگ اسی رات کی عبادت پر اکتفا کر لیتے اور دیگر راتوں میں عبادات کا اہتمام نہ کرتے اب لوگ آخری عشرے کی پانچ راتوں میں عبادت کی سعادت حاصل کر لیتے ہیں۔

۔ شب قدر ظاہر کر دینے کی صورت میں اگر کسی سے یہ شب چھوٹ جاتی تو اسے بہت زیادہ حزن و ملال ہوتا اور دیگر راتوں میں وہ دلجمعی سے عبادت نہ کر پاتا، اب رمضان کی پانچ طاق راتوں میں سے دو تین راتیں اکثر لوگوں کو نصیب ہو ہی جاتی ہیں۔

۔ اگر شب قدر کو ظاہر کر دیا جاتا تو جس طرح اس رات میں عبادت کا ثواب ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ ہے، اسی طرح اس رات میں گناہ بھی ہزار درجہ زیادہ ہوتا، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس رات کو پوشیدہ رکھا تاکہ اس شب میں عبادت کریں وہ ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ اجر و ثواب پائیں اور اگر اپنی جہالت و کم نصیبی سے اس شب میں بھی گناہ سے باز نہ آئیں تو انہیں شب قدر کی توہین کرنے کا گناہ نہ ہو۔

۔ شب قدر کا پوشیدہ رکھنا اسی طرح سمجھ لیجئے جیسے موت کا وقت نہ بتانا، کیونکہ اگر موت کا وقت بتا دیا جاتا تو لوگ ساری عمر نفسانی خواہشات کی پیروی میں گناہ کرتے اور موت سے عین پہلے توبہ کر لیتے، اس لئے موت کا وقت پوشیدہ رکھا گیا تاکہ انسان ہر لمحہ موت کا خوف کرے اور ہر وقت گناہوں سے دور اور نیکی میں مصروف رہے، اسی طرح آخری عشرے کی ہر طاقت رات میں بندوں کو یہی سوچ کر عبادت کرنی چاہئے کہ شاید یہی شب قدر ہو، اسی طرح شب قدر کی جستجو میں برکت والی پانچ راتیں عبادت الٰہی میں گزارنے کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔

شب قدر اور بہت سی پوشیدہ چیزیں

بے شمار حکمتوں اور مصلحتوں کے باعث بہت سی اہم چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے پوشیدہ رکھا ہے۔

چنانچہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں کہ

اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کو عبادت و اطاعت میں پوشیدہ رکھا ہے تاکہ لوگ تمام امور میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں۔

اس نے اپنے غصہ کو گناہوں میں مخفی (پوشیدہ) رکھا ہے تاکہ لوگ ہر قسم کے گناہوں سے بچیں۔

اپنے اولیاء کو مومنوں میں پوشیدہ رکھا ہے تاکہ لوگ سب ایمان والوں کی تعظیم کریں۔

اسم اعظم کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ہر نام مبارک کی تعظیم کریں۔

صلوۃ الوسطی (درمیانی نماز) کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ سب نمازوں کی حفاظت کریں۔

موت کے وقت کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ ہر وقت خدا سے ڈرتے رہیں۔

توبہ کی قبولیت کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ جس طرح ممکن ہو، توبہ کرتے رہیں۔

ایسے ہی شب قدر کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ رمضان کی تمام راتوں کی تعظیم کریں۔

شبِ قدر کی دعا

شبِ قدر میں کیا کرنا چاہیے اور کونسی دعا مانگی چاہیے؟ اس حوالے سے اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کہا ’’اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بتلائیں کہ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ (فلاں رات) شبِ قدرہے تو میں اپنے رب سے کیا مانگوں اور کیا دعا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: (یہ) دعا مانگو!

اللہم انک عفو تحِب العفو فاعف عنِی۔ (شعب الایمان، حدیث:3427)، ترجمہ: اے اللہ! آپ بہت معاف کرنے والے ہیں اور آپ معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں لہٰذا مجھے معاف کر دیجیے!