آزادی کے بعد کھیلوں کی دنیا میں مسلمانوں کے جلوے

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 06-08-2025
آزادی کے بعد کھیلوں کی دنیا میں مسلمانوں کے جلوے
آزادی کے بعد کھیلوں کی دنیا میں مسلمانوں کے جلوے

 



  آواز دی وائس: نئی دہلی

تقسیم ملک اورآزادی کے بعد ہندوستان میں کھیلوں کے میدانوں میں مسلم چہروں کی کامیابی کی ایک دلچسپ کہانی ہے ،جس نے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ ملک کے فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کے  باوجود ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے ہر میدان میں راہیں کھلی رہیں ۔ملک نے صلاحیتوں کو سلام کیا مذہب کو نہیں ۔۔کھیلوں کی دنیا میں مسلمانوں کی حصہ داری کا موضوع  پر ایک کتاب تیار ہوسکتی ہے ۔ بہرحال ہم اس مضمون میں مختلف کھیلوں کے مقبول اور کامیاب ترین چہروں کو پیش کررہے ہیں ۔

 بات ملک کے سب سے مقبول کھیل کرکٹ سے شروع  کرتے ہیں تو  مسلمان کرکٹرز کی ایک طویل فہرست ہے، جن میں غلام احمد،سلیم درانی، عباس علی بیگ، منصور علی خان پٹودی، فاروق انجینئر، سید عابد علی، سید مصطفی حسین، سید کرمانی، غلام احمد حسن، محمد اظہر الدین، ارشد ایوب، ظہیرخان،سید صبا کریم، محمد کیف، عرفان پٹھان، مناف پٹیل،وسیم جعفر، یوسف پٹھان،محمد شامی، محمد سراج اور سرفراز خان جیسے نام شامل ہیں ۔

منصور علی خان پٹودی

ہندوستانی کرکٹ میں ایک صدا بہار نام ہے نواب  منصور علی خان ۔جنہیں  ہندوستانی کرکٹ میں ‘‘ٹائیگر پٹودی ‘’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔جو کرکٹ کی دنیا کے سب سے کم عمر کپتان بنے تھے۔انہوں نے 46ٹسٹ میں ملک کی نمائندگی کی جن میں 2793رن بنائے تھے ۔مارچ 1962 میں وہ ویسٹ انڈیز کے خلاف21 سال اور 77 دن ٹیسٹ کرکٹ کے سب سے کم عمر کپتان بن گئے تھے۔ان کی فتوحات میں 1968 میں نیوزی لینڈ کے خلاف بیرون ملک ہندوستان کی پہلی ٹیسٹ میچ جیت شامل تھی۔ ہندوستان نے اس سیریز میں کامیابی حاصل کی اور یہ ہندوستان کی بیرون ملک پہلی ٹیسٹ سیریز جیتنے کا اعزاز بنا۔سال 1961 میں انگلینڈ میں سڑک حادثہ میں ان کی دائیں آنکھ ضائع ہوگئی تھی لیکن اس کے باوجود پٹودی نے کرکٹ کی دنیا میں ایک آنکھ کی روشنی سے اپنا لوہا منوایا ،ہندوستانی کرکٹ میں  آج بھی ٹائیگر پٹودی کی وہی حیثیت اور مقبولیت ہے جو ماضی میں تھی ۔

ونڈر بوائے محمد اظہر الدین

کرکٹ میں ہی ایک نام  کرکٹ کا ونڈر بوائے ،محمد اظہر الدین کا ہے ،جنہیں  یہ خطاب ٹیسٹ کرکٹ میں بسمہ اللہ پر ملا تھا ۔جب انہوں نے انگلینڈ کے خلاف پہلے تین ٹیسٹ میں تین سینچریاں بنائی تھیں ۔ یہ 1984 سال تھا اور کولکتہ کا ایڈن گارٹن تھا ،جہاں اظہر الدین کا ظہور ہوا ۔ ایک کارنامہ جو آج تک کوئی نہیں دہرا سکا۔محمد اظہر الدین  نے ہندوستان کے لیے 99 ٹیسٹ اور 334 ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلے۔ بحیثیت کپتان انہوں نے 1990-91 اور 1995 کے ایشیا کپ میں ٹیم کو فتح دلائی اور 1996 کے کرکٹ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی۔انہوں نے 1990 کی دہائی کے دوران تین کرکٹ ورلڈ کپ میں ہندوستان کی کپتانی کی، جو کہ ایک ریکارڈ تھا۔

سید شاہد  حکیم 
فٹ بال کا ذکر کریں تو ہندوستان کبھی ورلڈ کپ اور اولمپک میں بھی دستک دیا کرتا تھا ،اب حالات بدتر ہیں ، بہرحالایسے مسلم فٹ بالرز کی ایک فہرست مل جائے گی جنہوں نے فٹ بال میں ملک کا نام روشن کیا ہے ۔ بابائے فٹ بال سید عبدالرحیم نے آزادی سے قبل ایک کھلاڑی کی حیثیت سے اور آزادی کے بعد ایک کوچ کی حیثیت سے لوہا منوایا ۔ان کے ساتھ تاج محمد، احمد خان،یوسف خان،بی پی صالح،سید نعیم الدین،نور محمد،رحمت،ٹی عبدالرحمان ،محمد حبیب ،محمد اکبر،لطیف الدین،جیسے نام یاد رکھے جاتے ہیں ۔اگر ہم آزاد ہندوستان میں سب سے بڑے ناموں میں سے کسی ایک کا ذکر کریں تو ایک  سید شاہد حکیم کا ہوگا جو کہ بابائے ہندوستانی فٹ بال رحیم کے صاحبزادے تھے۔ ہندوستانی فضائیہ کے ایک سابق اسکواڈرن لیڈر ایس ایس حکیم کے بین الاقوامی کیریئر کی خاص بات 1960 روم اولمپکس تھے۔ جس میں  ٹیم کے  کوچ ان کے والد اوربابائے فٹ بال رحیم تھے۔ ہندوستان روم میں گروپ مرحلے سے آگے نکلنے میں ناکام رہا ،لیکن  فرانس کے خلاف 1-1 سے ڈرا کسی کارنامے سے کم نہیں تھا ۔ایس ایس حکیم نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے کھیل کے دنوں کے بعد کوچنگ کا رخ کیا۔ ہندوستانی قومی ٹیم کے سابق اسسٹنٹ کوچ رہے، کوچنگ کے ساتھ ساتھ، وہ فیفا ریفری تھے ،انہوں نے  قطر میں 1988 کے اے ایف سی ایشین کپ میں ریفری کے فرائض انجام دئیے تھے۔
 
جادوگر 'محمد شاہد' 
 بات ہاکی کی کریں تو ایک ایسا کھیل جس میں کبھی ہندوستان کی طوطی بولتی تھی۔ماضی میں ہاکی کے میدان پر بھی ہندوستانی مسلم چہرے اپنا لوہا منوا چکے ہیں،جن میں اخترحسین،اسلم شیر خان،محمد شاہد اورظفراقبال کے نام ہیں ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سب سے زیادہ شہرت محمد شاہد کے حصے میں آئی تھی ،جن کا تعلق بنارس سے تھا ،1970 اور 80 کے عشرے کی ہاکی میں محمد شاہد کے ہنر کا جادو سب کو یاد ہوگا ۔ میدان میں ان کی چستی اور ‘جادوئی’ ڈربلنگ نے انہیں بہت کم عمر میں ہی اسٹار بنا دیا تھا ۔  وہ  ماسکو میں 1980  اولمپکس میں  گولڈ، 1982 کے ایشین گیمز میں سلور اور 1986 کے ایشین گیمز میں برونز کا میڈل حاصل کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے ۔ انہوں نے 1981-82 ورلڈ کپ، 1984  لاس اینجلس اولمپک گیمز اور 1988 میں سیول گیمز میں بھی  حصہ لیا تھا ۔ انہوں نے 1985-86 کے دوران ہندوستانی ٹیم کی کپتانی کی۔ انہوں نے جنوری 1989 میں بین الاقوامی ہاکی سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔
 
 ٹینس سنسنی 'ثانیہ مرزا'
جب بات ٹینس کی ہوتی ہے  تو مسلم چہروں میں اختر علی اور ذیشان علی کے ساتھ  ثانیہ مرزا کا نام ذہن میں  آیا ہے یوں تو اختر علی 1958سے 1964تک ڈیوس کپ میں ہندوستانی ٹیم کے ممبر رہے تھے، پھر کوچنگ بھی کی ۔ ان کے بیٹے ذیشان علی نے بھی کھلاڑی سے  کوچنگ تک کامیاب رہے لیکن ہندوستانی ٹینس کو شباب دینے کا سہرا ثانیہ مرزا کے سر ہی جاتا ہے۔
ثانیہ مرزا، سنگلز میں ٹاپ 100 میں شامل ہونے والی واحد  ہندوستانی خاتون تھیں ۔ وہ  ڈبلز ورلڈ نمبر 1  بھی رہیں ،انہوں نے  چھ گرینڈ سلیم ٹائٹل جیتے، جن میں تین ویمنز ڈبلز میں اور تین مکسڈ ڈبلز میں تھے۔سال 2003 سے لے کر 2013 میں سنگلز سےریٹائرمنٹ تک مرزا نے 43 ٹائٹل جیتے اور 91 ہفتے عالمی نمبر 1 کے طور پر گزارے۔ مرزا نے ایشین گیمز، کامن ویلتھ گیمز اور افرو ایشین گیمز میں14 میڈل (بشمول چھ گولڈ) جیتے ۔ثانیہ مرزا 2007 کے وسط میں WTA سنگلز رینکنگ میں کیریئر کی سب سے اونچی 27ویں پوزیشن پر پہنچ گئی تھیں ، جو آج تک سنگلز میں کسی ہندوستانی  کی بہترین ٹینس رینکنگ ہے۔ڈبلز فرنٹ میں، ثانیہ مرزا اپریل 2015 میں ڈبلیو ٹی اے ڈبلز رینکنگ میں نمبر 1 پر پہنچ گئیں، اور چوٹی تک پہنچنے والی تاریخ کی پہلی ہندوستانی بنی تھیں
سید مودی

ایک مقبول کھیل بیڈمنٹن رہا ہے جس میں سب سے کامیاب اور مقبول نام سید مودی کا رہا ہے ۔ سید مودی ہندوستان کے سب سے کامیاب بیڈمنٹن کھلاڑیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے 1980 سے 1987 تک مسلسل آٹھ بار نیشنل چیمپئن شپ جیت کر ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ بین الاقوامی سطح پر بھی انہوں نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، جن میں 1982 کے برسبین کامن ویلتھ گیمز میں مردوں کے سنگلز مقابلے میں گولڈ میڈل حاصل کرنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے آسٹریا انٹرنیشنل (1983 اور 1984) اور یو ایس ایس آر انٹرنیشنل (1985) میں بھی کامیابی حاصل کی۔1988 میں لکھنؤ میں سید مودی کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔

 باکسنگ کوئن 'نکہت زرین' 

ایک میدان ہے باکسنگ کا ،جس میں نکہت زرین کا نام سنہرے لفظوں میں لکھا گیا ہے۔نکہت زرین عالمی چیمپئن شپ میں گولڈ میڈل جیت کرباکسنگ کی سنسنی بن چکی   ہیں ۔سب سے پہلے 2011 میں خواتین کی جونیئر اور یوتھ ورلڈ باکسنگ چیمپئن شپ میں گولڈ  جیتا۔اس کے بعد 2019بنکاک میں ایشین چیمپئن شپ میں سلور جیتا تھا ،اس کے بعد 2022استنبول میں عالمی چیمپئن شپ، اور برمنگھم میں ہونے والے کامن ویلتھ گیمز میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔2023نئی دہلی میں آئی بی اے خواتین کی عالمی باکسنگ چیمپئن شپ میں گولڈ میڈل جیتا، یہ کارنامہ دو بار حاصل کرنے والی صرف دوسری ہندوستانی خاتون بنیں۔2023ہانگزو میں ایشیائی کھیلوں میں برونز میڈل  جیتا، پیرس اولمپکس میں ہندوستان کے لیے کوٹہ حاصل کیا۔جبکہ 2024پیرس اولمپکس میں حصہ لیا، راؤنڈ آف 16 تک پہنچی تھیں ۔

شمع پروین

 کبڈی میں ہندوستان کی اجارہ داری رہی ہے ،اس کھیل میں مرد اور خواتین دونوں نے ہی دبدبہ بنایا ہے،اگر ہندوستان میں خواتین کی کبڈی میں مسلم چہرے کی بات کریں تو پہلا نام شمع پروین کا آتا ہے ۔ بین الاقوامی کبڈی کھلاڑی کا تعلق بہار سے تھا ۔ جنہوں نے 2008 سے کبڈی کھیلنا شروع کی اور مختلف سطحوں پر کئی اعزازات جیتے۔ اس نے 2017 میں گولڈ جیتنے والی ایشین کبڈی چیمپئن شپ ٹیم میں بھی ہندوستان کی نمائندگی کی۔

نسرین شیخ

نسرین شیخ  ہندوستانی کھو کھو ٹیم کی کپتان تھیں ،جن کا تعلق  دہلی سے تھا ۔ وہ ارجن ایوارڈ حاصل کرنے والی دوسری کھو-کھو کھلاڑی تھیں ۔ انہوں نے  جنوبی ایشیائی کھیلوں میں ہندوستانی خواتین کی کھو کھو ٹیم کی کپتانی کی، جہاں ہندوستان نے گولڈ میڈل  جیتا تھا۔وہ ہندوستانی خواتین کی ٹیم کا حصہ تھیں جس نے جنوری 2025 میں نئی دہلی میں پہلا کھو کھو ورلڈ کپ جیتا تھا۔ ہندوستانی ٹیم نے گروپ مرحلے میں جنوبی کوریا، آئی آر ایران اور ملائیشیا کو، کوارٹر فائنل میں بنگلہ دیش اور سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کو شکست دی۔ انہوں نے فائنل میں نیپال کو 78-40 سے شکست دی۔ وہ اپنی کارکردگی کے سبب  بی بی سی 'اسپورٹس وومین آف دی ایئر 2025 کی حقدار بنی تھیں

 ریسنگ کو ئن' علیشا عبداللہ'

اگر ہندوستان میں موٹر اسپورٹس  کی بات کریں تو خواتین میں ایک نام  علیشا عبداللہ کا ہے ،ملک کی تیز ترین کار ریسر اور پہلی خاتون بائیک ریسنگ چیمپئن کی حیثیت سے  علیشا عبداللہ کا نام زبان پر آتا ہے ۔علیشا عبداللہ، جو 1989 میں چنئی میں پیدا ہوئیں، انہیں بچپن سے ہی ریسنگ کا شوق تھا۔ سال 2004  میں انہوں نے  جے کے ٹائر نیشنل ریسنگ چیمپئن شپ میں سرفہرست پانچ ریسروں میں جگہ بنائی بلکہ انہوں نے ریسنگ کی دنیا میں اپنی راہیں بھی ہموار کیں۔ وہ کار ریسنگ سے بائیک ریسنگ کی طرف ان کا رجحان اُن کے والد کی رہنمائی سے ہوا،مگر 2010 میں بائیک پر کافی سنگین حادثے کے بعد، علیشا نے واپس کار ریسنگ کا رخ کیا ۔ وہ ملک کی پہلی خاتون موٹر اسپورٹس اسٹار ہیں جنہیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے