ممبئی پر حملہ کرنے والے پاکستان میں آزاد گھوم رہے ہیں-ہم نے مہدی حسن اور نصرت فتح علی کو یاد کیا لیکن آپ لتا منگیشکر کو یاد نہ کرسکے - پاکستان میں بولے جاوید اختر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 19-02-2023
ممبئی پر حملہ کرنے والے پاکستان میں آزاد گھوم رہے ہیں-ہم نے مہدی حسن اور نصرت فتح علی کو یاد کیا لیکن آپ لتا منگیشکر کو یاد نہ کرسکے -  پاکستان میں بولے جاوید اختر
ممبئی پر حملہ کرنے والے پاکستان میں آزاد گھوم رہے ہیں-ہم نے مہدی حسن اور نصرت فتح علی کو یاد کیا لیکن آپ لتا منگیشکر کو یاد نہ کرسکے - پاکستان میں بولے جاوید اختر

 

 

 لاہور:: میں ممبئی سے ہوں ہو اور ممبئی پر حملہ کرنے والے پاکستان میں میں ہیں، 26/11 کے حملہ آوروں کا تعلق اس کے ملک سے ہے اور وہ اب بھی آزاد گھوم رہے ہیں

 یہ  کھری کھری باتیں ہیں ممتاز   مصنف شاعر یار اور منظر نگار یار جا وید اختر  کی، جو  انہوں نے سرحد پار پاکستان کے لاہور میں  مقبول لاہور  فیض فیسٹیول میں کی- 

جاوید اختر نے یہ بات سامعین میں بیٹھے ایک شخص کے جواب میں کہی جو انہیں تجویز دے ر ہے تھے کہ پاکستان کس طرح 'ایک مثبت، دوستانہ اور محبت کرنے والا ملک ہے'۔ اس شخص نے اختر سے درخواست کی کہ وہ پاکستانیوں کا پیغام ہندوستان لے جائیں۔ شخص نے کہا کہ 'آپ کئی بار پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں۔۔ جب آپ واپس جاتے ہیں تو کیا آپ اپنے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ یہاں کے لوگ اچھے ہیں، یہ صرف بمباری نہیں کرتے بلکہ ہار اور پیار سے ہمارا استقبال بھی کرتے ہیں؟۔ انہوں نے مزید کہا کہ ' ہم دونوں خطوں کے درمیان دوستانہ صورتحال چاہتے ہیں'

جاوید اختر نے پروگرام میں کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو الزام نہ دیں تو اس سے بات نہیں ہوگی ، اہم بات یہ ہے کہ جو گرم فضا ہے، وہ کم ہونی چاہئے ۔

ہم تو ممبئی کے لوگ ہیں، ہم نے دیکھا وہاں کیسے حملہ ہوا تھا ۔ وہ لوگ ناروے سے تو نہیں آئے تھے ، نہ مصر سے آئے تھے، وہ لوگ ابھی بھی آپ کے ملک میں گھوم رہے ہیں ۔۔۔ تو یہ شکایت اگر ہندوستانی کے دل میں ہو تو آپ کو برا نہیں ماننا چاہئے

انہوں نے شکایت بھرے لہجہ میں کہا کہ ہم نے تو نصرت اور مہندی کے بڑے بڑے پروگرام کئے، آپ کے ملک میں تو لتا منگیشکر کا کوئی پروگرام نہیں ہوا ۔ فیض صاحب جب ہندوستان آئے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ کوئی ملک کا سربراہ آیا ہو۔ آپ نے کبھی کیفی اعظمی ، ساحر کا کوئی انٹرویو پی ٹی وی پر دیکھا ہے؟ ہم آپ کو دکھائیں گے ، ہمارے یہاں ہوا ہے ۔ تو حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو الزام نہ دیں، اس سے حل نہیں نکلے گا

انہوں نے  اردو اور مادری زبان کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ زبان کو ترک کردینے کا مطلب ہے کہ لوگوں اور ثقافت سے علیحدگی اختیار کردینا ہے-

بچے اب مادری زبان کے بجائے انگریزی زبان سیکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں__ اب اردو  اور دیگر مادری زبانیں غریبوں کی بن کر رہ گئی ہے- ایک انسان کو اپنی مادری زبان کا علم ہونا چاہیے چاہے وہ کوئی بھی زبان ہو

معروف مصنف، منظر نگار اور شاعر جاوید اختر نے اردوکو مادری زبان کی حیثیت سے اس کی اہمیت اور تاریخ پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے اردو شاعری کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔

 جاوید اختر لاہور میں جاری فیض فیسٹیول کے ساتویں ایڈیشن میں شرکت کرنے کے لیے پاکستان میں ہیں۔ جاوید اختر نے جادونامہ نامی سیشن میں کہا کہ شاعری لکھنے کا مقصد لوگوں سے رابطہ کرنا ہے، اسی لیے شاعر جو کہنا چاہتا ہے اسے جاننے کے لیے ایک اچھی شاعری کا کامیاب ہونا ضروری ہے۔

ان کے مطابق کہ زبان کے خالص یا اصل ہونے کی بات صرف ایک افسانہ ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’ایک زبان میں دیگر زبانوں کے الفاظ اپنے اندر شامل کرنے کا عمل ہر وقت جاری رہتا ہے‘۔

آکسفورڈ ڈکشنری کا ذکر

جاوید اختر نے نشاندہی کی کہ آکسفورڈ ڈکشنری انگریزی زبان میں سالانہ کم از کم 25 نئے الفاظ کا اضافہ کرتی ہے لیکن ہمارے یہاں زبان کے نام نہاد ٹھیکیدار زبان سے الفاظوں میں کمی کرتے رہتے ہیں اور انہیں غیر ملکی قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے زبان کا ذخیرہ الفاظ محدود ہوتا جائے گا۔

انہوں نے عربی، اطالوی، پنجابی، گجراتی، فارسی، ترکیہ، تامل، انگریزی، جاپانی اور سنسکرت سمیت مختلف زبانوں کے الفاظ کی نشاندہی کرتے ہوئے اردو کے ایک حوالے کی مثال دی ، ان کا کہنا تھا کہ ’زبان راتوں رات ہی نہیں تخلیق ہوتی بلکہ اسے طویل اور سست عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔

جاویداختر نے کہا کہ زبان کو ترک کردینے کا مطلب ہے کہ لوگوں اور ثقافت سے علیحدگی اختیار کردینا ہے، انہوں نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’آجکل بچے اب مادری زبان کے بجائے انگریزی زبان سیکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں‘ ، انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایک انسان کو اپنی مادری زبان کا علم ہونا چاہیے چاہے وہ کوئی بھی زبان ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ جب شیخ عبدالقدیر نے 1798 میں قرآن پاک کا اردو ترجمہ کیا تھا، تو ان کے خلاف فتویٰ جاری ہوگیا تھا، اُس وقت اردو کو جہنمی زبان کہا جاتا تھا۔

awaz

اردو آغاز سے ہی سیکولر ہے

انہوں نے کہا کہ وہ اس بات پر فخر محسوس کرتے ہوئے کہا کہ اردو ان کی مادری زبان ہےجہاں اس کے مقابلے دیگر زبانوں کی شاعری کا آغاز مندروں اور گرجا گھروں سے ہوا، اردو اپنے آغاز سے ہی ایک سیکولر زبان ہے کیونکہ یہ مذہب مخالف، توہم پرستی اور بنیاد پرستی کے خلاف تھی۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا میں ہر چیز مادی میں بدل گئی ہے اور یہ مادیت ان کی نسل سے شروع ہوئی جبکہ ان کے والدین مادیت کے فوائد کو زیادہ ترجیح نہیں دیتے تھے۔ ان کامزید کہنا تھا کہ اردو سمیت تمام مادری زبانیں غریبوں کے لیے رہ گئی ہیں۔

پنجابی پنجابیم

صنف نین سکھ کا کہنا ہے کہ پنجابی زبان کو بہت زیادہ نشانہ بنایا گیا اور آج بھی ہم اس کا سامنا کر رہے ہیں جو برطانوی راج کے دوران شروع ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جب انگریزوں نے اسکولوں میں نصاب متعارف کرایا تو زبانوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ گرومکھی کا نصاب سکھ مذہب کے مطابق بنایا گیا تھا، دیوناگری کا نصاب ہندی سے منسلک کیا گیا جبکہ مسلمانوں کے نصاب میں فارسی اور عربی سے منسلک تھے

ہندوستان میں اردو اور فیض 

ہندوستان  میں لوگوں نے نہ اردو کو چھوڑا نہ فیض کو، فیض احمد فیض سے محبت برقرار ہے۔ فیض احمد فیض کی شاعری میں جادو ہے۔  فیض احمد فیض کی شاعری ہندوستان میں جتنی اردو زبان میں مقبول ہے اتنی ہی ہندی زبان میں بھی پڑھی جاتی ہے،

اردو کا کوئی لفظ اگر سمجھ نہیں آتا تو ہندی میں معنی تلاش کیے جاتے ہیں۔ جاوید اختر نے کہا کہ ہندوستان میں لوگوں نے نہ اردو کو چھوڑا نہ فیض کو، فیض احمد فیض سے محبت برقرار ہے۔

فاصلہ کم مگر لاعلمی زیادہ

جاوید اختر نے کہا کہ لاہور اور امرتسر کا فاصلہ 30 کلومیٹر ہے لیکن دونوں ملکوں میں لاعلمی حیرت انگیز ہے، لاہور میں بیٹھی لڑکیوں کو نہیں معلوم کہ کچھ پنجابی ہندو بھی ہیں، ایسا ہی وہاں بھی ہے۔

جاوید اختر نے کہا کہ مواصلات کی بندش دونوں طرف ہے شاید آپ کے ہاں تھوڑی زیادہ ہے، ہم نے مہدی حسن اور نصرت کے بڑے فنکشن کیے، آپ کے ہاں تو لتا منگیشکر کے کوئی فنکشن نہیں ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ لاہور میں عمدہ لوگ ہیں، یہاں محافل کمال ہوتی ہیں، آئندہ کبھی بلائیں تو ایک ہفتے کے لیے بلائیں، 3 روز میں میرا کام نہیں بنتا۔ ہندوستان کے ممتاز شاعر نے کہا کہ لاہور میں لوگ اچھے لگنے لگتے ہیں کہ واپس جانے کا وقت ہو جاتا ہے، فیض کی شاعری میں چاندنی والی خوبی ہے، چاندنی جہاں گرے منظر خوبصورت کر دیتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہند پاک میں ایسے لوگ ہیں جو امن چاہتے ہیں، عوام کا فرض بنتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پر پریشر بنائے رکھیں، ہم کوششیں کرتے ہیں لیکن کوئی ایک واقعہ سارے کام پر پانی پھیر دیتا ہے۔

جاوید اختر نے یہ بھی کہا کہ برصغیر کی تاریخ ہزاروں برس پر محیط ہے، پرانی تاریخ کے سبب یہاں کے لوگوں کا شعور بھی زیادہ ہے، نقشہ اٹھا کر دیکھیں، ملک اکیلے آگے نہیں جاتے، خطے آگے جاتے ہیں، وہ محبت محبت ہی نہیں جس میں دوستی نہ ہو

شبانہ اعظمی سے دوستی 

جاوید اختر نے گفتگو کے دوران بتایا کہ میں نےایک جگہ لکھا ہےکہ میری اورشبانہ کی دوستی اتنی اچھی ہےکہ شادی بھی اس کاکچھ نہیں بگاڑسکی۔

لاہور کی انفرادیت پر بات کرتے ہوئے  انہوں نے کہا کہ لاہورمیں عمدہ لوگ ہیں، محافل کمال ہوتی ہیں، آئندہ کبھی بلائیں توایک ہفتے کیلئے بلائیں، تین روز میں میرا کام نہیں بنتا، لوگ اچھےلگنےلگتےہیں اور لاہور سے واپس جانےکاوقت ہوجاتاہے۔ دوسری جانب معروف شاعر فیض کی شاعری پر بات کرتے ہوئے بھارتی نغمہ نگار نے کہا کہ فیض کی شاعری میں چاندنی والی خوبی ہے، چاندنی جہاں گرے منظر خوبصورت کردیتی ہے، جیل کوئی خوبصورت جگہ نہیں لیکن فیض کی شاعری پڑھ کر لگتا ہے کہ جیل جاؤں۔