جامعہ ملیہ اسلامیہ : بدستور نئی نسل کے طلبہ کی زندگیوں کو منور کررہی ہے ،وی سری نواس

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 03-11-2025
جامعہ ملیہ اسلامیہ : بدستور نئی نسل کے طلبہ کی زندگیوں کو منور کررہی ہے ،وی سری نواس
جامعہ ملیہ اسلامیہ : بدستور نئی نسل کے طلبہ کی زندگیوں کو منور کررہی ہے ،وی سری نواس

 



نئی دہلی::  جامعہ نے انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا میں پیوست اعلی اصولوں اور جذبے کو مثالی طورپر پورا کیا ہے کیوں کہ یونیورسٹی بدستور نئی نسل کے طلبہ کی زندگیوں کو منور کررہی ہے- ان خیالات کا اظہار وی سری نواس ، آئی اے ایس نے کیا ، جامع ملیہ اسلامیہ کے فاؤنڈیشن ڈے کی چھ روزہ تقریبات میں خطاب کر رہے تھے

 جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنے ایک سو پانچویں یومِ تاسیس کے موقع پر تہذیب، سفارت اور ہندوستانی فلسفے کے امتزاج پر ایک شاندار پینل مباحثہ منعقد کیا، جس نے تعلیم، اخلاقیات اور عالمی روابط پر گہری بحث کو جنم دیا۔ انصاری آڈیٹوریم میں ہونے والے اس پروگرام کا عنوان تھا "کلچرل کنیکٹ، ڈپلومیٹک ڈائیلاگ: دی انڈین وے اِن دی 21ویں صدی

 سری نواسن نے کہا کہ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ کی حصولیابیاں اور بندوستان کی بیان کرده تہذیبی سفارت قدیم حکمت و دانش اور عصری عملیت کا امتزاج ہے۔ شہریوں اور حکومت کو قریب لانے کے سلسلے میں ٹکنالوجی کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹکنالوجی کا بھر پور استعمال کرنے اور عالمی روابط اور تہذیبی لین دین کو فروغ دینے کے لیے جامعہ کے پاس مواقع ہیں۔ انہوں نے بندوستانی سفارت اور قیادت کے دو اہم لمحات کا ذکر کیا یعنی جی ٹوینٹی کی صدارت جس میں ہندوستان کی واسو دیو کٹمبکم کی نظیر پیش کی اور دوسرا لمحہ گلوبل ساؤتھ کے ساتھ بات چیت اور انگیجمنٹ ہے جو سب کی ترقی اور سب کا وشواس کے جذبے میں بہت عمدگی سے موجود ہے۔

 سفارت کے تئیں اخلاقیات، ڈائیلاگ اور تہذیبی قدروں میں پیوست ہندوستان کے منفرد اپروچ کے دلچسپ مباحثے میں حصہ لیا۔ پروفیسر محمد مهتاب عالم رضوی نے افتتاحی گفتگو کرتے ہوئے اس پر زور دیا کہ سفارت کبھی بھی اقتدار کی فیتہ شاہی گلیاروں سے نہیں نمودار ہوئی ہے بلکہ مختلف ادوار میں اخلاقیات، تہذیب اور مذہب کی بنیادوں میں پیوست فلسفیانہ تخیل سے بر آمد ہوئی ہے۔ انہوں نے پروثوق انداز میں کہا کہ آج کے منتشر زمانے میں امن کے لیے کلیدی بات سافٹ پاور، ڈائیلاگ اور جذبہ ہمدردی میں پنہاں ہے۔

 اس بات کو اجاگر کرتے ہوئے کہ تہذیب افہام و تفہیم کے پل کے طور پر کام کرتی ہے پروفیسر رضوی نے یوگا اور آیورویدا سے مثالیں دیں جس نے بھارت کو دنیا بھر سے جوڑ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈین ڈپلومیسی نے رابطے کے لیے صرف قوت کے استعمال کے لیے نہیں ہمیشہ سے ہی فکر پرزور دیا ہے۔ عزت مآب وزیر اعظم شری نریندر مودی کے پیغام کی باز گشت کے طور پر انہوں نے کہا کہ یہ دور جنگ نہیں بلکہ مذاکرات اور سفارت کا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کا سافٹ پاور ملک کی خارجہ پالیسی کے لیے اخلاقی بنیاد اور جذباتی جرأت فراہم کرتا ہے۔

 فیض قدوائی نے جامعہ کی وراثت پر اظہا رخیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ ایک فکر ہندوستان کی روح کا جیتا جاگتا ترجمان ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ تعلیم صرف ذہن و دماغ کو تیز کرنے کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے کہ اسے دلوں کو بھی منور و مستحکم کرنا چاہیے۔ انہوں نے ہمت و جرأت اعتقاد اور یقین کو بنیادی اقدار کے طور پر نشان زد کیا۔ انڈین وے کی وضاحت کرتے ہوئے جناب ، قدوائی نے اسے ایک فلسفہ قرار دیا جو روایت و جدیدیت امنگ اور انکسار میں توازن پیدا کرتا ہے اور جو وسودیو کٹومبکم یعنی پوری دنیا ایک کنبہ ہے کے اعتقاد میں پیوست ہے   انہوں نے انڈین وے کی توضیح کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی رو سے فتح پر رحم اور دولت و سرمایہ پر حکمت و دانش کو اختیار کیا جاتا ہے اور بہت زیادہ بڑھتے ہوئے قطبین کی دنیا میں باہمی زیست کو فروغ دینا بتایا جاتا ہے۔ جناب قدوائی نے سامعین سے اپیل کی کہ وہ مذاکرات کو اپنائے کسی کو دبانے کا حربہ نہ اختیار کریں اور کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل سننے کی صحت مند عادت کو اپنائیں۔ انہوں نے دماغ کی سفارت کے بجائے دل کی سفارت پر زور دیا انہوں نے نوجوانوں سے کہا کہ وہ جڑنے کی کوشش کریں نہ کہ کسی کو زیر کرنے کی۔

 

 سفیر ویریندر گپتا نے دنیا کے الگ الگ خطوں اور علاقوں سے خیالات و افکار کے لین دین اور انضمام کی ہندوستان کی ثروت مند تاریخ و تہذیب پر روشنی ڈالی اور کہا کہ کس طرحبندوستانی پکوان آرٹ سینیما اور اقدار نے مختلف بربر اعظموں میں رابطوں کو فروغ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بندوستان کی تہذیبی بناوٹ ویدوں سے ملی اور افغانستان فارس، منگولیا وغیرہ سکے مختلف ان کو شامل کیا گیا ہے جس سے فعال مشترکہ وراثت کی ایجاد ہوئی۔ سفیر گپتا نے ہندوستان کی تینتیس ملین غیر مقیم ہندوستانیوں کی تعریف کی اور کہا کہ روم برادری کو شامل کرلیں تو گلوبل انڈین ڈائسپورا کی کل تعداد تقریبا ساٹھ ملین پہنچ جاتی ہے جودنیا کہ سب سے بڑی ڈائسپورا آبادی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ڈائسپورا ہندوستان کے اتحاد فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور واسودیو کوٹمبکم کے پیغام کو دنیا بھر میں پھیلا رہا ہے۔

 روفیسر مظہر آصف نے صدارتی گفتگو میں کہا کہ ہندوستان زمانہ قدیم سے تہذیبی بوقلمونی اور تکثیریت کا مرکز رہا ہے۔ آپ کسی بھی مذہب، ذیلی علاقه و خطه یا لسانی برادری کا نام لیں اور آپ اسے ہندوستان میں پائیں گے جو ایک ساتھ نشو و نما پارہی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بندوستانی تہذیب و روایت جدید ایجادات نہیں ہیں بلکہ صدیوں پرانی وراثتیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پچاس سے زائد تہذیبیں جو ہندوستانی تہذیب کی ہم عصر تھیں وہ معدوم ہوگئی ہیں۔ ہندوستان ابھی بھی ترقی کر رہا ہے کیوں کہ اس کی تہذیبی اخلاقیات اور اس کی تکثیری و رنگارنگی وراثت کی قوت اور مصالحت کی گہرائی اور طاقت ہے۔ فارس کے ساتھ ہندوستان کے اوائلی ربط پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر مظہر آصف نے کہا کہ پنچ تنترا سے لے کر کبیر کی تعلیمات تک ہندوستانی تہذیب نے دنیا کو سکھایا اور بتایا کہ بے غرضانہ کس طرح زیست کرتے ہیں اور سب کی بھلائی کا کیسے خیال رکھتے ہیں۔ یہ یاد رکھنا ہم ہے کہ ہندوستان نے کسی بھی ملک پر حملہ نہیں کیا اور اس کے توسط سے اس نے دنیا کو ساجھا اور مشترکہ زندگی بقائے باہم کا اہم سبق اور پیغام دیا۔ بعد میں دن کے پروگراموں میں ڈین المنائی افیئر نے ایک پینل مباحثہ کم المنائی میٹ اور تہنیت تقریب منعقد کی جس میں جامعہ کے مشہور المنائی جناب برویر سنگھ عزت مآب جسٹس الہ آباد ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ جامعہ کے دوسرے اہم المنائی ڈاکٹر حنیف قریشی، ایڈیشنل سیکریٹری آٹوموبائل ڈیویژن منسٹری بیوی انڈسٹریز، حکومت بند پروگرام کے مہمان خصوصی تھے۔ انہوں نے اس موقع پر شیخ الجامعہ جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر مظہر آصف اور پروفیسر محمد مهتاب عالم رضوی مسجل، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دین المنائی افیئرز پروفیسر آصف حیسن اور ڈی ایس ڈبلیو نیلوفر افضل کی موجودگی میں ڈاکٹر انصاری آڈیٹویم میں المنائی میٹ کے حصے کے طور پر بڑی تعداد میں شامل سامعین کو خطاب کیا۔ پروفیسر رضوی نے المنائی کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ تمام لوگوں کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک سو پانچویں یوم تاسیس کے موقع پر خوش آمدید کہنا ایک خوش گوار احساس ہے۔ کسی بھی یونیورسٹی کے المنائی کو ریڑھ کی بڈی بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ دیکھنا حوصلہ افزا ہے آج جامعہ کو قومی اور بین الاقوامی رینکنگ میں اہم مقام ملا ہے۔

انہوں نے المنائی سے کہا کہ وہ جامعہ کے ساتھ اپنا ربط مضبوط کریں اور دنیا میں ایک طاقتور نیٹ ورک قائم کریں اور کہا کہ یہ جامعہ کے شیخ الجامعہ پروفیسر مظہر آصف کا جامعہ میں میڈیکل کالج اور اسپتال قائم کرنا کا خواب ہے اور المنائی سے کہا کہ آگے آئیں اور اس کام کو مکمل کرنے میں اپنا بیش قیمت تعاون دیں۔ پروفیسر نیلو فر افضل نے تعلیمی میلہ جو کافی زمانے سے نہیں ہوا تھا اس کے احیا کے حوالے سے گفتگو کی اور اسے واپس زیادہ بہتر انداز میں یعنی چھ روزہ تقریب کی صورت لانے میں جو مساعی صرف ہوئی ہیں ان کی بابت بتایا۔

جسٹس برویر سنگھ نے بی ایس سی (آنرس) ایم ایس سی ایل ایل بی مکمل کیا ہے اور یہ تمام ڈگریاں انہوں نے (آنرس) جامعہ سے حاصل کی ہیں اور دس سال سے زیادہ کا زمانہ جامعہ میں بطور طالب علم گزارا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے پرانی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے جامعہ کے ساتھ اپنے بیالیس سالہ قدیم رشتے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ انہوں نے جامعہ کو کبھی چھوڑا ہی نہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ ہمیشہ ان کا گھر تھا۔ ایس آر کے باسٹل جامعہ لائبریری اور نگینہ اسٹور کا ذکر کرتے ہوئے جہاں وہ ان کے دوست چائے کے لیے جاتے تھے اس کا ذکر کیا اور پوری المنائی برادری کو یاد دلایا کہ وہ اپنے عزیز ادارے اور سوسائٹی کو اپنا تعاون دیتے رہیں

ڈاکٹر حنیف قریشی نے اپنے طالب علمی کا زمانہ یاد کیا جب وہ جامعہ سے ایم ٹیک، ایم بی اے پی ایچ ڈی سے پہلے انیس سو بانوے میں بی ٹیک کے طالب علم تھے۔ انہوں نے کہا کہ آج یہاں آنا ایسا معلوم ہورہاہے میری گھر واپسی ہوئی ہے۔ اور جامعہ کے دوسرے عظیم اور ممتاز المنائی کا بھی انہوں نے یاد کیا جیسے شاہ رخ خان اور ویریندر سہواگ جن کے کام شہرت اور ان کے خاص میدان میں مقبولیت ملک کے تئیں جامعہ کی خدمات کے بارے میں بہت واضح ہیں۔ اب المنائی کا وقت ہے کہ سوچیں کہ وہ وہ اپنے مادر علمی کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر ریتا ، ڈائریکٹر اسٹیٹ کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ ایس سی ای ،آرٹی حکومت دہلی کی بھی اس موقع پر تہنیت ہوئی۔ انہوں نے انیس سو نوے میں جامعہ میں طالب علمی کے دنوں کو یاد کیا اور ان کے کیریئر کو بنانے میں جامعہ کے غیر معمولی کردار کی تعریف و توصیف کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بہت سے اس کے المنائی الگ الگ رول میں ملک کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جامعہ نے تعلیم کی سب سے عظیم اقدار یعنی تعلیم تہذیب اور تربیت کادرس دیااس موقع پر ڈپارٹمنٹ آف پینٹنگ فیکلٹی آف فائن آرٹس، جامعہ ملیہ اسلامیہ، جناب شاہ ابوالفیض کا تیار کردہ کلینڈر بھی جاری کیا گیا۔