صبیحہ فاطمہ
خدا خاموش اور شیطان ہنس رہا ہے…
یہ جملہ پڑھ کر آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ یہ کسی عام کہانی کا حصہ نہیں، یہ اُس کرب کی صدا ہے جسے لفظوں میں باندھنا مشکل ہے۔ یہ عید لاشوں کے دیس میں — جاوید دانش کے سولو ڈرامہ کا مکالمہ ہے، جو سن کر سانس رک سی جاتی ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے کچھ اور مکالمے ملاحظہ کریں تاکہ۔آپکو اندازہ ہوجائے کہ آپ کہاں لینڈ کرنے والے ہیں۔۔۔۔
"ہاسپٹل کے کمپاؤنڈ میں یہ سمجھ کر پناہ لی تھی کہ شاید بم یہاں نہیں برسے گا مگر پچھلی رات کی بمباری نے اس ہاسپٹل کو بھی نہیں بخشا"
— پناہ گاہ کا تصور بھی جب مٹ جائے، تو انسان کہاں جائے؟
"آخری رسومات ادا کی گئیں یاMass Grave میں ڈال دیا گیا — کہ اکثر کے ساتھ یہی ہو رہا ہے"
— مرنے کے بعد دو گز زمین بھی نصیب نہ ہونا سب سے بڑا دکھ ہے۔
"جنگ مسئلے کا حل نہیں"
— مگر یہ سبق شاید دنیا نے کبھی سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔اور یہ بھی آپ سمجھ گئے ہونگے کہ یہاں کس جنگ کی بات ہورہی ہے۔
"ان زخمی لوگوں کو دوائیں نہیں، روٹی چاہیے"
— بھوک اور زخم کا ایک ساتھ علاج کون کرے؟
"عالم اسلام کے شاہ اور صدور خاموش تماشائی ہیں"
— جب مسند پر بیٹھے لوگ آنکھیں بند کر لیں، تو چیخ وپکار کا کوئی مطلب تو نہیں رہ جاتا سوائے اس کے کہ جان بچ جائے یا اگر جان جانی ہی ہے تو کوئی مقصد تو ہو۔۔
"فلسطینی سخت جان نسل ہیں، مرنے سے نہیں گھبراتے"
— زندگی کا مطلب ہی جب وطن کی محبت ہوتو جنگ کیسے رکے گی۔
"مولوی جہنم کی آگ اور سزا کی بات کرتے ہیں، مگر انہیں نہیں معلوم… جہنم کا ایک حصہ برف کا بھی ہے"
— درد کی کیفیت میں اتنی ہولناکی کہ برف انسان کے اعصاب کو تو منجمد کرتی ہی ہے مگر ارادے حوصلے کسی برف اور آگ سے کب ٹل سکتے ہیں ۔
"آخر اتنے مظلوموں کی دعائیں کہاں بھٹک رہی ہیں؟"
— شاید آسمان بھی ان دعاؤں کا بوجھ اٹھا نہیں پا رہا۔
جاوید دانش کا سولو ڈرامہ عید لاشوں کے دیس میں محض ایک اسٹیج پر پیش کیا جانے والا مکالمہ نہیں، بلکہ ایک دل چیر دینے والا مرثیہ، بے بسی کی ڈائری اور غزہ کے اجتماعی المیے کی شہادت ہے۔ یہ تخلیق اس بات کا ثبوت ہے کہ مصنف کس کمال مہارت سے رپورٹنگ، شخصی یادداشت اور تھیٹر کو ایک دھڑکتے ہوئے بیانیے میں جوڑ دیتا ہے، جو قاری کے ضمیر کو سکون لینے نہیں دیتا۔
مرکزی کردار ڈاکٹر غسان حبیب صباوی ہے — "ایک کمزور، مجبور اور بے بس ڈاکٹر" جو "دنیا کے سب سے برے، غلیظ اور ٹوٹے پھوٹے جیل غازہ" میں محصور ہے — ایک کھلا قید خانہ جہاں زندگی استثنا ہے اور موت معمول۔ صباوی کی آواز کے ذریعے، دانش ایک ایسا داخلی ڈرامائی مکالمہ تعمیر کرتے ہیں جو حقیقت پسندی میں بے مثال ہے۔
ذاتی جرم کا بار — ڈرامے کا محرک
اس ڈرامے کا سب سے طاقتور اسلوبی ہتھیار بار بار دہرایا جانے والا جملہ ہے "میں شرمندہ ہوں" — ایک اعترافی جملہ جو پورے متن کو سہارا دیتا ہے۔ صباوی کی شرمندگی کئی پرتوں میں بٹی ہوئی ہے:
یتیموں سے: "میں شرمندہ ہوں، ان تمام یتیم اور معصوم بچوں سے جن کے باپ کو میں نہیں بچا سکا…"
بیواؤں سے: "میں شرمندہ ہوں ان ہزاروں بیواؤں سے جن کے سہاگ کو میں کوشش کے باوجود نہیں بچا سکا…"
ماؤں، باپوں اور حتیٰ کہ اپنی ماں سے بھی۔
یہ تکرار ایک اخلاقی فرد جرم بھی ہے اور ایک مرثیہ بھی، جو غزہ کے لامتناہی غم کو اجاگر کرتا ہے۔ اسلوبی اعتبار سے یہ ایک شاہکار تکنیک ہے، جو سامع یا قاری کو کردار کے احساس جرم اور بوجھ سے الگ نہیں ہونے دیتی۔
شخصی صدمہ بطور سیاسی استعارہ
سب سے زیادہ لرزادینے والا منظر وہ ہے جب صباوی اپنے بچپن کی یاد دہراتا ہے:
"دو بھائیوں کو گرفتار کر کے باہر لے گئے اور پھر یکے بعد دیگرے سات فوجی جوانوں نے ماں کی آبروریزی ایسے کی کہ جسم کے چیتھڑے کر ڈالے…"
یہ منظر بیان میں کسی قسم کی نرمی یا ہچکچاہٹ نہیں رکھتا۔ یہ عریاں حقیقت نگاری سنسنی خیزی کے لیے نہیں بلکہ اس صدمے کو عیاں کرنے کے لیے ہے جو ایک فرد کی پوری زندگی پر چھا جاتا ہے۔ یہاں ماں محض ذاتی رشتہ نہیں بلکہ فلسطین کی علامت بن جاتی ہے — پامال، مسخ شدہ، مگر پھر بھی مزاحمت اور صبر کا سرچشمہ۔
جنگی رپورٹنگ اور شعری تھیٹر کا امتزاج
اگرچہ متن حقیقت کی سفاک تفصیلات سے جڑا ہوا ہے — آکسیجن کی کمی، "جلے ہوئے انسانی گوشت" کی بو — لیکن بار بار یہ بیانیہ شعری مرثیے میں بدل جاتا ہے:
"زمین سرخ آسمان سرخ۔۔۔ کربلا کا عجیب منظر ہے۔۔۔"
کربلا کا حوالہ غزہ کے دکھ کو محض معاصر سیاست کے دائرے سے نکال کر شہادت اور اخلاقی آزمائش کی دائمی کہانی میں رکھ دیتا ہے۔ یہ اشارہ مختلف ثقافتی پس منظر کے قارئین کو بھی اس سانحے کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔
اخلاقی کشمکش اور مزاحمت کا سوال
ایک مقام پر صباوی کی داخلی جدوجہد شدت اختیار کر لیتی ہے:
"میں شرمندہ ہوں خود سے کہ ہم نے ہتھیار کیوں نہیں اٹھایا؟ کیا میں بزدل ہوں یا اپنے والدین کی موت سے ڈر گیا تھا؟"
یہاں مصنف اس کشمکش کو سامنے لاتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر کا زندگی بچانے کی ذمہ داری اور ظلم کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا تقاضا کہاں ٹکراتا ہے۔ آخر میں استعفیٰ لکھنے کا منظر محض ذاتی فیصلہ نہیں بلکہ اس لمحے کی علامت ہے جب ایک معالج جنگجو بننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
"عید" کا استعارہ بطور طنز
عنوانی فقرہ "عید لاشوں کے دیس میں" — جاوید دانش کے المناک طنز کا نچوڑ ہے۔ جب ایک ساتھی اسے عید مبارک کہتا ہے، وہ کہتا ہے:
"مجھے ایسا لگا کسی نے گالی دی ہو۔۔۔ عید اور لاشوں کے دیس میں؟"
یہاں عید — خوشی اور مسرت کا دن — ایک تلخ یاد دہانی بن جاتی ہے کہ معمول کی زندگی ختم ہو چکی ہے۔ آخری اشعار اس طنز کو مزید گہرا کرتے ہیں:
"مدتوں اس سرزمین پر آتے شرمائے گی عید
دوستوں کس دل سے آئے گی اگر آئے گی عید؟"
فن اور اسلوب کی کاریگری
دانش کا ڈرامائی اسلوب میکرو اور مائیکرو منظرنامے کے درمیان بے ساختہ حرکت کرتا ہے:
ایک لمحہ ہم مریم کے ہاتھ تھامے کھڑے ہیں، جو جڑواں بچوں کو جنم دے رہی ہے۔
اگلے ہی لمحے ہم "ویسٹ بینک، یروشلم" کے عوامی مارچ کے ہنگام میں ہیں۔
یہ ادبی "کیمرا موومنٹ" قاری کو باندھے رکھتا ہے، جبکہ یکجملہ بیانیہ اس قربت کو قائم رکھتا ہے جو سولو ڈرامے کا جوہر ہے۔
غیر معمولی ادبی مقام
اس تخلیق میں جاوید دانش کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ متن کو نہ تو محض نعرہ بازی بننے دیتے ہیں اور نہ ہی دور کھڑے انسان کی ہمدردی کا بیانیہ۔ وہ دل سے لکھتے ہیں، مگر تھیٹر کی ساخت، منظرنامہ اور استعارہ سازی پر ان کی گرفت اسے محض جنگ کی روداد سے بلند کر کے فن پارہ بنا دیتی ہے۔
یہ ڈرامہ نعرے بازی کے بجائے گواہی پر مبنی ہے — کھنڈروں میں کھڑا ایک شخص، جو مردوں کے نام لیتا ہے، خدا، انسان اور خود اپنی ذات سے ایک ساتھ سوال کرتا ہے۔
آخر میں یہی کہوں گی کہ
خاموشی ، چاہے وہ خدا کی ہو، سیاست کی یا فرد کی — عید لاشوں کے دیس میں اس کے خلاف ایک سخت فردِ جرم ہے۔ یہ قاری کو غزہ کے خون آلود اور دم گھٹتے ہوئے ماحول میں لے جاتا ہے، جہاں ایک ڈاکٹر کا حلف روز ٹکراتا ہے بارود اور محاصرے کی حقیقت سے ۔
جاوید دانش کا سولو ڈرامہ ایک مرثیہ بھی ہے اور ایک مطالبہ بھی — شہیدوں کے خون اور مظلوموں کے دکھ کو یاد رکھنے کا، احتجاج کرنے کا، اور نسل کشی کو کبھی معمول نہ بنانے کا۔
اپنی تکرار، سفاک تصویروں اور یادداشت و تھیٹر کے حسین امتزاج کے ذریعے، یہ تخلیق اردو ڈرامے میں غزہ پر لکھے گئے شدت سے دل دہلا دینے والی تخلیقات میں شامل ہوتی ہے۔ دانش کی زبان، جو ایک ساتھ جراحی کی طرح تیز اور شاعری کی طرح لطیف ہے، اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ عید لاشوں کے دیس میں آخری سطر کے بعد بھی دیر تک ذہن میں گونجتا رہے — اور یہی اس کا سب سے بڑا کمال ہے۔