منصور الدین فریدی:نئی دہلی
وقف ایکٹ پر احتجاجات کا سلسلہ دراز ہے لیکن اب تک وقف کی املاک کی بندر بانٹ اور خرد برد بھی جاری تھی اس ایکٹ پراحتجاج جمہوری حق ہے لیکن اس سے قطع نظر ممکن نہیں کہ اب تک وقف کی ملکیت کا کیا حشر ہوا ہے اور کون لوگ اس ملکیت پر قابض ہیں۔ وقف کی ملکیت سے قبضہ جات کا خاتمہ بھی وقت کا اہم تقاضہ ہے ۔
مفتی منظور ضیائی کے مطابق ’’وقف کا ادارہ و اسلامی تہذیب کی ایک یادگار اور لازوال میراث کے طور پر کھڑا ہے۔ صدیوں سے، اس نے امت مسلمہ کے اندر سماجی، اقتصادی تعلیمی اور خلاقی ترقی کے ستون کے طور پر کام کیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے فریم ورک میں، وقف محض ایک عبادت نہیں ہے بلکہ اسے سماجی بہبود، اجتماعی استحکام اور انسانیت کی خدمت کے لیے ایک طاقتور طریقہ کار کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔تاہم موجود و دور میں ، خاص طور پر ہندوستان کے تناظر میں، وقف املاک اور اس سے منسلک اداروں کی حالت تشویش ناک ہے اور انھیں چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان میں انتظامی بدانتظامی، پالیسی کی خرابیاں، قانونی پیچیدگیاں اور وسیع پیمانے پر ساختی کمزوریاں شامل ہیں۔ اس طرح کے مسائل نے وقف کی روح اور مقاصد کو بری طرح مجروح کیا ہے، جن کا اصل مقصد معاشرے کے پسماندہ طبقات کی ترقی اور کمیونٹی کی اجتماعی بہبود میں حصہ ڈالتا تھا۔
انہوں نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ کتاب ایک سنجیدہ اچھی حقیقی اور تجزیاتی کوشش ہے جو اسلامی فقہ عصری قانونی فریم ورک اور ہندوستان کے موجود و سماجی و سیاسی حقائق کی عینک سے وقف نظام کا جائز و لیتی ہے۔ یہ نہ صرف انتظامی خامیوں، انتظامی نا اہلیوں، اور پالیسی کے خلا کو جو اس وقت وقف اداروں کو متاثر کر رہا ہے، کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ بامعنی اصلاحات کے لیے متوازن عملی اور قابل محمل سفارشات بھی پیش کرتی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ کام محض ایک علمی مشق نہیں ہے۔ یہ ایک دانشورانہ دستاویز ہے جسے ہندوستان میں وقف اداروں کے تحفظ اور بہتری سے متعلق پالیسی سازوں ، علماء کمیونٹی لیڈروں اور تمام اسٹیکہولڈرز کے لیے رہنمائی کے فریم ورک کے طور پر کام کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
مفتی منظور ضیائی نے کہا کہ وقف ایک ایسا ادارہ ہے جسے اسلام نے صدقہ جاریہ کا مقام دیا، جو امت کے تعلیمی، رفاہی اور معاشی استحکام کا عظیم ذریعہ بن سکتا تھا مگر افسوس کہ سیاسی مفادات ، انتظامی نا اہلی ، اور قوم کی بے حسی نے اسے زوال کی طرف دھکیل دیا۔ وقف کو صرف مذہبی تناظر میں دیکھنا اس کی معنویت کو محدود کرتا ہے، جبکہ یہ ایک زندہ، ہمہ گیر اور تجدیدی تحریک ہے، جسے از سر نو زندہ اور فعال کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ کتاب میں جہاں تاریخی، فقہی اور عملی پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے، وہیں 2024 کے وقف ایکٹ کی بعض اصلاحی دفعات کی نہایت دانشمندانہ تائید بھی کی گئی ہے۔جن میں وقف املاک کی ڈیجیٹل رجسٹریشن و Geo-taggingشامل ہے ، یہ شفافیت اور غیر قانونی تصرفات کے تدارک کا موثر ذریعہ ہے، جو وقف جائیدادوں کی چوری ، فروخت یا جعل سازی کے خلاف ایک مضبوط ہتھیار بن سکتا ہے۔اس کے ساتھ وقف بورڈز میں ماہرین قانون مالیات اور انتظامی امور کی شمولیت اہم قدم ہے ۔ اس سے بورڈ کی پیشہ ورانہ صلاحیت میں اضافہ ہوگا اور ذاتی اثر و رسوخ سے ہٹ کر پالیسی سیازی ممکن ہو سکے گی۔ وقف ٹربیونل کو اختیارات کی منتقلی اور فوری فیصلے برسوں تک چلنے والے وقف مقدمات کا بروقت فیصلہ قوم کی املاک کو ضیاع سے بچا سکتا ہے۔ ناجائز قبضوں کے خلاف تیز کارروائی اورمجاز افسروں کو اختیارات: یہ شقیں وقف جائیدادوں کو بچانے کے لیے نہایت ضروری اور عملی اقدام ہیں، جن سے حقیقی متولیوں کو تقویت ملے گی۔
مفتی ضیائی نے کہا کہ اگر قوم ان اصلاحات کی روح کو سمجھے، اور دیانت دار قیادت و مستعد وکالت کے ذریعے ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائے، تو ہزاروں کروڑ کی وقف جائیدادیں قوم کے لیے علم صحت ، رہائش ، روز گار اور خود مختاری کی بنیاد بن سکتی ہیں۔ انہوں نے تلقین کی کہ وقف کو صرف " مفت زمین" یا " مفت آمدنی" کا ذریعہ نہ سمجھا جائے ، یہ ادارہ ملت کا معاشی ریڑھ کی ہڈی بن سکتا ہے بی بشر طیکہ ہم شعور، تنظیم، شفافیت اور اجتماعی نیت کے ساتھ اس کی حفاظت و ترقی کا بیڑا اٹھا ئیں۔