آواز دی وائس : نئی دہلی
یہ ایک فلمی کہانی کی اسکرپٹ ہے جسے ہم نے کسی پردے پر نہیں بلکہ میدان پر حقیقت بنتے دیکھا ۔ دبئی میں ایشیا کپ فائنل میں کرکٹ کے افق پر ایک ستارا نمودار ہوا،جسے دنیا اب تلک ورما کے نام سے جانتی ہے ،جس نے جیت کا ہیرو بننے کے بعد جشن میں ڈوبے میدان سے جسے پہلی ویڈیو کال کی اس کا نام تھا ۔۔۔ سلام بایش۔ ایک حیدرآبادی کرکٹ کوچ ،جنہوں نے نہ صرف تلک ورما کو دریافت کیا تھا بلکہ خاندان کی مالی حالت خراب ہونے کے سبب کوچنگ کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی ۔آج وہ صرف کرکٹ کے میدان کی کہانی نہیں بلکہ ہندوستان کی اصل تصویر بن کر ابھرے ہیں ،جس میں کسی کا مذ ہب نظر آتا ہے اورنہ ذات، بلکہ صرف جذبہ ہے،جسے ہم ہندوستانیت کہتے ہیں
دراصل ایشیا کپ 2025 کے فائنل میں پاکستان کے خلاف شاندار فتح کے بعد جب تلک ورما اپنے ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ جشن منا رہے تھے، تو یہ لمحہ محض ایک کرکٹ ٹرافی جیتنے کا نہیں تھا۔ یہ ایک ایسے سفر کی جیت تھی جسے غیر معمولی قربانیوں نے ممکن بنایا،قربانی صرف اس نوجوان کی نہیں،بلکہ اس کوچ کی بھی جس نے ایک ننھے لڑکے کی آنکھوں میں خواب کی چمک دیکھی اور اسے حقیقت میں بدلنے کی جدوجہد کی۔وہ کرکٹ کوچ جنہوں نے 11 سال کی عمر میں تلک ورما کو دریافت کیا تھا انہیں چار مینار کے شہر میں سلام بایش کے نام سے جانا جاتا ہے
تلک ورما کے ظہور اور عروج کے ساتھ جو نام سرخیوں میں آیا ہے وہ سلام بایش کا ہے ،صرف ایک کوچ نہیں بلکہ ایک مسیحا ۔ جنہوں نے ایک غریب خاندان کے ایک ایسے لڑکے کو کرکٹ کے عالمی افق پر لا دیا،قومی ہیرو بننے سے بہت پہلے تلک ورما ایک عام سا بچہ تھا جو حیدرآباد کی مٹیالی زمین پر ٹینس بال سے کھیلتا تھا۔ اُس کے والد نمبوری نَگراجو ایک الیکٹریشن تھے، مالی حالات ایسے تھے کہ پروفیشنل کرکٹ ٹریننگ لینا ایک خواب سے زیادہ کچھ نہ لگتا تھا۔
یادیں ۔۔۔ سب سے اوپر کی تصویر میں کوچ سلام تلک ورما کو بائیک پر کوچنگ کے لیے لے جاتے ہوئے ،درمیانی تصویر کوچنگ کیمپ کی ہے جبکہ تیسری تصویر میں مختلف مواقع پر کوچ سلام اپنے شاگرد تلک کے ساتھ
کوچ کا ظہور
یہی وہ وقت تھا جب کوچ سلام بایش تلک کی زندگی میں آئے۔ ایک میچ کے دوران انہوں نے اس کے خام مگر چمکتے ہنر کو پہچان لیا۔ فوراً ہی تلک کے والد کو فون کیا، مگر حقیقت یہ تھی کہ گھر کی مالی حالت اس خواب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔لیکن بایش ہار ماننے والوں میں سے نہ تھے۔ انہوں نے ایک حیران کن پیشکش کی،تمام فیس معاف کرنے کے ساتھ ساتھ تلک کی آمد و رفت کی پوری ذمہ داری اپنے سر لے لی۔یوں ایک ناقابلِ یقین سفر شروع ہوا۔ پورے ایک سال تک، ہر دن صبح پانچ بجے، بایش اپنی موٹر سائیکل پر تلک کے گھر پہنچتے، اُسے 40 کلومیٹر دور لِنگم پلی کی اکیڈمی لے جاتے اور پریکٹس ختم ہونے کے بعد واپس چھوڑ آتے۔
شروعات اور لگن و محنت
تلک ورما کے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے بایش کہتے ہیں کہ میں نے اسے سب سے پہلے بنیادی تربیت دی، تیسرے مہینے کے بعد ہی اسے ایک مقامی میچ میں کھلایا۔ وہ فوراً ہی اپنے مزاج اور تکنیک سے نمایاں ہو گیا۔ وہ کئی کئی گھنٹے مشق کرتا اور خوشی خوشی خاندان کی تقریبات چھوڑ کر نیٹ سیشن کے لیے آتا۔ اس کی نظم و ضبط لاجواب تھا۔ وہ کبھی نیٹ سیشن مس نہیں کرتا۔ ہم دونوں گرو اور شِشیا شہر بھر میں میچوں کے لیے موٹر سائیکل پر گھومتے۔ آج بھی وہ سبھی لڑکوں اور اسٹاف سببہت محبت اور نرمی سے ملتا ہے۔ کامیابی نے اس کے سر پر غرور سوار نہیں کیا۔
کیا نہیں کیا
سلام بایش نے قربانی یہیں ختم نہ ہوئی۔ ایک سال بعد بایش نے تلک کے گھر والوں کو قائل کیا کہ وہ اکیڈمی کے قریب منتقل ہو جائیں۔ جب خاندان کے پاس کرکٹ کا سامان خریدنے کے وسائل نہ تھے تو بایش نے خود سامان دیا، مگر ایک شرط کے ساتھ—تلک کو مخصوص اہداف پورے کرنے ہوں گے، تاکہ اُسے یہ سمجھ آئے کہ انعام صرف کارکردگی کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
پہلا انتخاب اور مسلسل کامیابیاں
جلد ہی تلک کا انتخاب حیدرآباد انڈر-14 ٹیم کے لیے ہوا۔ اگرچہ پہلے سال وہ کامیاب نہ ہو سکا لیکن اگلے سال نہ صرف ٹیم کی قیادت کی بلکہ ساوتھ زون ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رنز اسکور کیے۔پھر انڈر-16 مرحلے میں اس نے 900 سے زائد رنز بنا کر سب کو حیران کر دیا اور بی سی سی آئی نمن ایوارڈ جیتا۔ محض 17 سال کی عمر میں وہ وِنو مانکڈ انڈر-19 ٹورنامنٹ کا سب سے بڑا اسکورر بن گیا۔ تب سے وہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
کوچ کے لیے فخر کا لمحہ
38 سالہ سلام بایش کہتے ہیں کہ کو جس بچے کو میں نے پہلی بار لِنگم پلی کے لیگالا کرکٹ اکیڈمی میں دیکھا تھا۔ اب ملک اس کو تلک ورما کے نام سے جانتا ہے،مجھے بہت خوشی ہے ،سکون ہے ۔ میچ سے پہلے تلک نے مجھے فون کیا تھا۔ میں نے اسے صرف یہی کہا تھا کہ آخر تک کریز پر ڈٹے رہنا۔ مجھے خوشی ہے کہ اس نے ایسا ہی کیا اور آج وہ ایک ہیرو بن کر اُبھرا ہے۔ مجھے اس کے مزاج پر کوئی حیرت نہیں کیونکہ کم عمری میں بھی وہ نیٹ پریکٹس کے دوران کئی کئی گھنٹے بیٹنگ کرتا رہتا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف فتح کے بعد اس نے دبئی سے ویڈیو کال کی۔ گراؤنڈ سے ہی اس نے کال کی ۔ میرے گھر کے سبھی افراد سے بات کی۔ اُس کے والد نَگراجو اور والدہ گایتری نیپال کے مذہبی سفر پر گئے ہوئے ہیں۔ پہلے لوگ اُسے ’بایش کا لڑکا‘ کہتے تھے، آج مجھے خوشی ہے کہ اب لوگ مجھے ’تلک کا کوچ‘ کہہ کر جانتے ہیں۔
کوچ کی اپنی جدوجہد
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس شخص نے ہندوستانی کرکٹ کے اس ابھرتے ستارے کو دریافت کیا، اس کی اپنی زندگی بھی جدوجہد سے بھری رہی۔ درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے بایش خود وکٹ کیپر-بیٹر تھے اور مقامی لیگز میں کھیلا کرتے تھے۔وہ بتاتے ہیں کہ میں نے بوسٹن اسکول اور پھر سٹی کالج اولڈ بوائز کے لیے معقول کرکٹ کھیلا، لیکن جلد ہی یہ احساس ہوا کہ آگے بڑھنا مشکل ہے۔ تبھی میں نے 2006 میں کوچنگ شروع کر دی۔مگر کوچنگ شروع کرنا بھی آسان نہ تھا۔ وہ فنڈز کے لیے جگہ جگہ بھٹکے، پھر ایک اچھے دوست پرتھوی ریڈی نے ان کی مدد کی اور یوں وہ 40 لڑکوں کے ایک بیچ کے ساتھ کوچنگ شروع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ آج ان کی اکیڈمی میں 350 کھلاڑی تربیت حاصل کرتے ہیں،جن میں سے ایک تلک ورما ہے۔
محنت اور لگن کی جیت
جب تلک ورما نے میدان میں کھڑے ہو کر ملک کے لیے ایشیا کپ جیتا، تو وہی نظم و ضبط دنیا کے سامنے نمودار ہوا جس نے اس کے بچپن میں اس کی تربیت کی تھی۔ اس کی کامیابی ایک طاقتور ثبوت ہے کہ کسی عظیم کھلاڑی کے پیچھے اکثر ایک اور بھی عظیم شخصیت ہوتی ہے،ایک ایسا کوچ جو روزانہ اپنی بائیک پر 80 کلومیٹر کا سفر کرنے کے لیے تیار ہو، تاکہ ایک ننھے لڑکے کا خواب کسی دھول بھرے میدان میں رکا نہ رہ جائے۔
تلک کی فتح صرف اس کی مہارت یا محنت کی داستان نہیں، بلکہ کوچ سلام بایش کی بے مثال قربانی، لگن اور حوصلے کی بھی کہانی ہے۔ یہ ہندوستانیت کی کہانی ہے ،جسے ہم گنگا جمنی تہذیب کے نام سے بھی جانتے ہیں ،جس میں کوئی کسی کا مدہب نہیں دیکھتا ہے ،کوئی علاقائیت نہیں تلاش کرتا ہے اور ذات پات کی بو پانے کی کوشش نہیں کرتا ہے کیونکہ سب رشتوں پر بھاری ہوتا ہے ہندوستانیت کا رشتہ ۔ جس کی نئی مثال بنے ہیں اب تلک ورما اور سلام بایش