نیرج کی کامیابی: جانئیے! پاکستان میں کیوں ہورہی ہے ہندوستان کی تعریف؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
کیوں بن گیا ایک زمین اور ایک آسمان
کیوں بن گیا ایک زمین اور ایک آسمان

 

 

آواز دی وائس : منصور الدین فریدی

ٹوکیو اولمپکس میں جیولن تھرو میں نیرج چوپڑا نے تاریخ رقم کردی۔ مگر پاکستا ن کے ارشد ندیم کو پا نچواں مقام حاصل ہوا ۔ہندوستان میں جشن ہے ،بات معمولی نہیں آزادی کے بعد ملک نے پہلی مرتبہ ایتھلیٹکس میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔ مگر پاکستان میں اب یہ بحث ہے کہ ارشد ندیم کیوں ہارے ؟

 پاکستان میں ہندوستانی ایتھلیٹس کو دی گئی سہولیات کی تعریف ہورہی ہے۔ ان کی تربیت کے انتظامات اور اخراجات کا ذکر ہورہا ہے۔

 پاکستان میں میڈیا بتا رہا ہے کہ ایک ہی خطہ کے دو ایتھلیٹس میں اتنا فرق کیوں نظر آیا؟

 پاکستان میں ارشد ندیم کی شکست کے جو اسباب تلاش کئے جارہے ہیں ان میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ ہندوستان میں نیرج چوپڑا کو حکومت نے بہت بہتر سہولیات مہیا کی تھیں۔ ان کی تیاری پر بڑی رقم خرچ کی گئی تھی اور تربیت کے لئے بھی بہترین کوچ کی خدمات لی گئی تھیں۔

 ٹوکیو اولمپکس جیولین تھرو کے فائنل میں ہندوستان کے نیرج چوپڑا نے87 اعشاریہ 58 کی تھرو کرکے گولڈ میڈل جیتا جبکہ ارشد ندیم کی تھرو84 اعشاریہ 62 میٹرز رہی۔

 پاکستان میں ارشد ندیم کی ہار کو اسی انداز میں لیا جارہا ہے جیسے ہندوستان میں ویمن ہاکی کی برونز میڈل کی ٹکر میں شکست کو لیا گیا تھا۔یعنی ہار کے باوجود دل جیت لئے۔

نیرج چوپڑا کو کیا حاصل تھا

 پاکستانی اخبارات کے مطابق انڈین حکام نے ان کیلئے جرمن کوچ کی خدمات حاصل کی تھیں، ساتھ ساتھ ان کے ساتھ ان کی جسمانی تربیت کے لئے بائیو مکینکس کے ماہر کی بھی خدمات نیرج چوپڑا کو دستیاب تھیں۔

 اولمپکس سے ایک سال قبل جیولین تھروور پر 1 کروڑ 61 لاکھ روپے خرچ کئے گئے جو پاکستانی کرنسی میں ساڑھے3 کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔

 اولمپکس سے قبل نیرج چوپڑا نے سوئیڈین میں ٹریننگ کی جبکہ 5 انٹرنیشنل ٹورنامنٹس میں بھی حصہ لیا، جس سے ان کے کھیل میں مزید نکھار پیدا ہوا۔

 اولمپکس سے قبل نیرج چوپرا نے اپنا زیادہ تر وقت یورپ میں گزارا، جہاں وہ ٹریننگ کرتے رہے۔

 ارشد ندیم کس سے محروم رہے

 پاکستانی اخبارا ت کے مطابق نیرج چوپڑا کے برعکس پاکستان کے ارشد ندیم اولمپکس سے قبل صرف ایک ایونٹ کھیل سکے، انہیں گزشتہ برس چین ٹریننگ کیلئے بھیجا گیا تھا لیکن کووڈ کی وجہ سے انہیں واپس آنا پڑا۔

 اس سال انہیں مختصر مدت کےلئے ترکی ضرور بھیجا گیا، جہاں انہوں نے 2 ہفتے قازقستان کے کوچ کی زیر نگرانی ٹریننگ کی

وہ زیادہ تر وقت پنجاب اسٹیڈیم میں اپنے کوچ فیاض بخاری کی زیر نگرانی ہی ٹریننگ کرتے رہے۔

اخبارات کا کہنا ہے کہ پی ایس بی نے ٹریننگ کے لئے وینیو کی سہولت فراہم کی تھی 

جبکہ ایران میں ٹورنامنٹ کیلئے ٹکٹ دیا تھا، زیادہ تر وسائل ایتھلیٹکس فیڈریشن آف پاکستان نے استعمال کئے۔ پی ایس بی سے فنڈز تو اتنے نہیں ملے لیکن وعدے ضرور بڑے بڑے ملے۔

 کاش وعدے پورے کئے جاتے

 پاکستان کے مشہور اردو اخبار روزنامہ ’جنگ‘ نے لکھا کہ کہ ’’۔۔ کاش کہ وہ وعدے پورے ہوجاتے تو آج پاکستان بھی جیولین تھرو مقابلوں میں ہندوستان کے ساتھ پوڈیم پر ہوتا۔ دونوں ایتھلیٹس ہم عمر سہی، دونوں کا تعلق پڑوسی ملکوں سے سہی، لیکن دونوں کو ملنے والی سہولیات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔یہی فرق ٹوکیو اولمپکس کے جیولین تھرو کے فائنل میں نظر آیا۔‘‘

یہ فرق کیوں؟

 یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ جب دونوں ایتھلیٹس کا تعلق ساؤتھ ایشیا سے اور دونو ں کی عمریں بھی تقریبا برابر ہیں تو پھر اتنا فرق کیوں؟

 یہ فرق ٹریننگ اور سہولیات کا ہے، جو نیرج چوپڑا کو تو مہیا تھیں لیکن ارشد ندیم کو نہیں۔ ہندوستان نے نیرج پر کروڑوں خرچ کیا، پاکستان میں ارشد کو جو کچھ ملا، اس کے بارے میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’اونٹ کے منہ میں زیرہ‘

 دراصل جیولن تھرو کے فائنل کی کشش میں اضافہ کرنے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ طویل عرصے کے بعد کھیلوں کے میدان میں ہندوستان اور پاکستان آمنے سامنے آرہے تھے۔ اس لئے جیت اور ہار میں کہیں نہ کہیں روایتی ٹکراو کا پہلو بھی تھا حالانکہ نیرج چوپڑا کی کار کردگی نے پہلے ہی اشارہ دیدیا تھا کہ اس کی پہنچ کو کوئی چھو نہیں پائے گا اور ایسا ہی ہوا۔