ارون ملانی ۔پونے
دریائے گوداوری کی لہروں پر پریکٹس کرتے ہوئے، سید محمد ظاہر علی پٹیل آبی کھیلوں کے مقابلے میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ وہ گیارہویں جماعت سے اس کھیل میں حصہ لے رہا ہے اور مختلف مقابلوں میں تمغے جیتا ہے۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ اگر حکومت بہتر انفراسٹرکچر کی سہولیات فراہم کرے تو وہ ایشین گیمز میں یقیناً تمغے جیتیں گے۔مہاراشٹر کے ضلع نپھڈ کے اہیرگاؤں سے تعلق رکھنے والے سید محمد ظاہر علی پٹیل، آبی کھیلوں (روئنگ) کے ابھرتے ہوئے ستارے ہیں۔ ایک متوسط کسان گھرانے سے تعلق رکھنے والے سید محمد نے اپنی محنت، جنون اور استقامت سے ملکی سطح پر اپنی شناخت بنائی ہے۔ گیارہویں جماعت سے کھیل کا آغاز کرنے والے سید محمد نے پریکٹس کے لیے دریائے گوداوری کی لہروں کو اپنا میدانِ مشق بنایا، اور آج وہ ریاست، قومی و آل انڈیا سطح پر کئی تمغے اپنے نام کر چکے ہیں۔
کامیابی کا سفر
سید محمد نے اب تک
4 آل انڈیا چیمپئن شپس
6 نیشنل چیمپئن شپس
1 کھیلو انڈیا مقابلہ
6 ریاستی سطح کے مقابلے
میں شرکت کی ہے۔ ان میں، چنڈی گڑھ میں منعقدہ 2021-22 کی آل انڈیا چیمپئن شپ میں 500 میٹر کیٹیگری میں سونے کا تمغہ اور 2023-24 میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ ان کی ٹیم نیشنل چیمپئن شپ میں چوتھے مقام پر رہی، مگر انہوں نے ہار نہیں مانی اور مزید مقابلوں میں حصہ لینے کا عزم کیا۔
مشکل حالات میں استقامت
کاشتکاری کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے سید محمد صبح کھیتوں میں کام کرتے، پھر پریکٹس کے لیے جاتے۔ ان کا دن صبح 5 بجے شروع ہوتا، صبح و شام کل ملا کر تقریباً 6 گھنٹے سخت پریکٹس کرتے ہیں۔ وہ سنگل، ڈبل، فور اور مکسڈ اسکُل کیٹیگریز میں حصہ لیتے ہیں، اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر 2022-23 میں انہیں بہترین اتھلیٹ کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔
وسائل کی کمی، خواب بڑے
سید محمد نے واضح کیا ہے کہ اگر ریاست انہیں بہتر انفراسٹرکچر، خاص طور پر جدید "نیلو کشتیوں" جیسی سہولیات فراہم کرے، تو وہ نہ صرف قومی بلکہ ایشین گیمز میں بھی تمغے جیت سکتے ہیں۔ فی الحال مہاراشٹر کے کھلاڑی پرانی کشتیاں استعمال کرتے ہیں، جبکہ دیگر ریاستوں کے کھلاڑی جدید اور ہلکی پھلکی نیلو بوٹس سے لیس ہوتے ہیں۔
سید محمد پٹیل نہ صرف مہاراشٹر بلکہ پورے بھارت کے نوجوانوں کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال ہیں۔ ان کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ محدود وسائل کے باوجود بھی اگر جذبہ، لگن اور محنت ہو، تو کامیابی یقینی ہے۔ حکومت اور کھیلوں کے اداروں کو چاہیے کہ ایسے باصلاحیت کھلاڑیوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کر سکیں۔