پیٹ کمنز نے اذان سن کر کیا کہا؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 08-03-2022
آسٹریلوی کرکٹرپیٹ کمنز نے اذان سن کر کیا کہا؟
آسٹریلوی کرکٹرپیٹ کمنز نے اذان سن کر کیا کہا؟

 


میلبورن:دورہ پاکستان پر موجود آسٹریلوی ٹیم کے کپتان پیٹ کمنز کا کہنا ہے کہ میرے لیے وہ لمحہ انتہائی خوبصورت تھا جب ہم پریکٹس سیشن میں مصروف تھے اور راولپنڈی سے بلند ہونے والی اذان کی آواز گراؤنڈ میں گونج رہی تھی جب کہ پس منظر میں پہاڑ تھے۔

 آسٹریلین ویب سائٹ کے لیے تحریر کیے گئے اپنے بلاگ میں پیٹ کمنز نے ’دورے کو غیرمعمولی‘ قرار دیتے ہوئے اسے اپنی اور دیگر کھلاڑیوں کی ’زندگیوں اور کیریئر کا خاص لمحہ‘ قرار دیا ہے۔

 مارک ٹیلر کی قیادت میں 1998 میں پاکستان کے دورے پر آںے والی آخری آسٹریلوی ٹیم کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا کہ ’ہم متعدد نامعلوم لمحوں کا سامنا‘ کرنے کو تیار تھے۔

پیٹ کمنز نے اپنی تحریر میں راولپنڈی کے تماشائیوں کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے ان کے درمیان کھیلنے کا انتظار نہ کرسکنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔

اپنی تحریر میں انہوں نے جمعہ کے روز میچ کے پہلے سیشن میں اڑھائی گھنٹے کے لیے نمازوکھانے کے وقفے اور اس دن کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہم یہاں رہتے ہوئے ہر وقت سیکھ رہے ہیں۔‘ پاکستان پہنچنے کے بعد مقامی روایات کو سمجھنے کے لیے عثمان خواجہ، مارنس لابوشین اور سٹیو سمتھ کے درمیان سوال و جواب کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ یہ دلچسپ رہا اور جیت ’سمتھی‘ کے نام رہی۔

پاکستانی نژاد آسٹریلین کرکٹر عثمان خوابہ کے آبائی ملک میں ہونے اور خوشی بھرے جذبات کا تذکرہ کرتے ہوئے پیٹ کمنز نے لکھا کہ انہوں نے ہمیں دورہ پاکستان کی اہمیت بتائی تو یہ واضح تھا کہ وہ ہمارے دورے کو پاکستان کرکٹ کی آئندہ نسل کے لیے ایک انسپائریشن سمجھ رہے ہیں۔

آسٹریلوی کپتان نے اپنی تحریر میں وبائی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے آسٹریلین کھلاڑیوں کے بیرون ملک خصوصا ٹیسٹ کرکٹ نہ کھیل سکنے کا ذکر کیا تو دورہ پاکستان میں نسبتا نئی کنڈیشنز میں کھیلنے کو منفرد تجربہ قرار دیا۔

دورے کے دوران سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ’ہمیں بتایاگیا تھا کہ 15 تا 20 ہزار افراد ہمیں ایئرپورٹ سے اسلام آباد میں ہوٹل تک پہنچانے کے آپریشن کا حصہ ہوں گے۔ مجھے اس پر شبہ نہ تھا۔ ہم نے اپنے 30 منٹ کے سفر کے دوران کوئی ایک کار بھی نہ دیکھی، ہر چند میٹرز کے بعد پولیس اور کمانڈوز تعینات تھے، ہمارے قافلے میں شامل سکیورٹی اس کے علاوہ تھی۔‘

میلبورن سے اسلام آباد پہنچنے کے بعد ٹارمک پر ہی ملٹری سٹائل بس میں سوار ہونے پر کھلاڑیوں کی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ’کھلاڑی کچھ پریشان سے تھے۔ وہ پانچ یا چھ انچ موٹی کھڑکیوں کو تھپتھپا رہے تھے۔

اس سے قبل ہم میں سے کسی نے ایسا تجربہ نہیں کیا تھا۔‘ پریکٹس سیشن کے لیے ہوٹل سے راولپنڈی جاتے ہوئے 10 منٹ کے سفر اور اس دوران سفر کے راستے پر ہر طرح کی سرگرمی کی بندش بھی ان کی تحریر کا حصہ رہی۔

’ہمیں اندازہ تھا کہ ہماری نقل و حرکت محدود رہے گی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران وبائی صورتحال میں کھیل کر ہم اس صورتحال کے عادی ہو چکے تھے۔‘ اس کے لیے ہم پلے سٹیشنز اور کارڈ گیمز کے ساتھ باسکٹ بول رنگ اور بڑے پروجیکٹر کے ساتھ گولف سیمولیٹر کا انتظام کر کے آئے تھے۔