‘ہمت مرداں مدد خدا :’آکاش‘ نے چھوا ’آکاش

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-06-2021
جھنڈا اونچا رہے ہمارا
جھنڈا اونچا رہے ہمارا

 

انکت شرما۔ دہرا دون 

آکاش نیگی نے 23 مئی کو ماؤنٹ ایورسٹ پر ترنگا لہرایا۔ بیس کیمپ میں کورونا وائرس کے بڑھتے اثر کے باوجود ،اس کے قدم نہیں رکے، دہرادون کے گنیش پور سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان آکاش کو وبا کا خوف بھی روک نہ سکا جو اب ایک امریکی شہری ہے۔ آکاش امریکہ میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتا ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ کو فتح کرنے کے پیچھے اس کا مقصد ایک رفاہی تنظیم کے لئے فنڈ جمع کرنا تھا جو آٹسٹک بچوں کے لئے کام کررہے تھے۔ وہ پچھلے 7-8 سالوں سے اس فاؤنڈیشن کاایک سرگرم رضاکار ہے۔

اقوام متحدہ ، نیویارک میں کام کرنے والے آکاش کے والد ، متبر سنگھ نے آواز دی آواز سے گفتگو کی۔ انہوں نے کہا ، "آکاش کو بچپن سے ہی کوہ پیمائی کا ہمیشہ شوق تھا۔" سال 2007 میں امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ، آکاش نے امریکہ میں کام کرنا شروع کیا۔ لیکن ، کوہ پیمائی کے بارے میں ان کا شوق کم نہیں ہوا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے فخر ہے کہ انہوں نے اب تک دنیا کی چار بڑی چوٹیوں پر ترنگا لہرایا ہے۔

awazurdu

اس29 سالہ نوجوان آکاش نے اپنی ایورسٹ مہم 18 اپریل کو نیویارک سے شروع کی تھی۔ جبکہ وہ 24 اپریل کو ایورسٹ بیس کیمپ پہنچے تھے۔ اپنے خوابوں کے سفر سے قبل جو تیاری کی تھی وہ بھی بہت انوکھی تھی۔ آکاش نے امریکہ میں اپنے گھر میں ایک ہائپوکسک خیمے میں کئی ہفتوں کا عرصہ گزارا تھا۔خود کو ذہینی طور پر تیار کیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ 22 اپریل کو خراب موسم نے بیس کیمپ تک جانے والے راستہ کو بہت خراب کردیا تھا،اس سفر میں 2 دن کی تاخیر ہوئی۔ برفیلے طوفان کا سامنا کرنا پڑا ۔مگر اس نے ہمت نہیں ہاری ۔ ستائیس اپریل کو ، موسم صاف ہونے کے بعد ، آکاش نے کیمپ 1 تک پہنچنے کے لئے اپنی مہم کا دوبارہ آغاز کیا ، یہ مقام جنوبی چوٹی سے پہلے کے چار کیمپوں میں سے ایک ہے ، اسے وادی خاموش بھی کہا جاتا ہے۔

کورونا پھیلنے جیسے چیلینج بڑی رکاوٹوں کے طور پر ابھرے لیکن نیگی کے جوش کے سامنے سب ڈھیر ہوگئے۔یہی نہیں ایورسٹ کی جانب جاتے ہوئے کوہ پیماوں کا زبردست رش بھی ملا کیونکہ یہ سیزن ہے،کوہ پیمائی کا۔ مگر نیگی نہیں رکے۔ آکاش نیگی کا کہنا ہے کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ اس مشن سے قبل انہوں نے ویکسینیشن کرالی تھی۔اس کے ساتھ اس نے تیز رفتار گروگرام کو چنا تھا جس کے سبب 60 دنوں کا سفر 40 دنوں میں سمٹ گیا تھا۔اس کا مقصد صرف یہی تھا کہ کورونا کے شکنجے میں پھنسنے کے امکانات کو کم کیا جاسکے۔

awazurdu

آکاش کا کہنا ہے کہ وہ سب سے دشوار گزار کیمپ 4میں پہنچا جس کو ‘ڈیتھ زون‘ بھی کہا جاتا ہے۔آخر کا 23 مئی کو ایورسٹ کی چوٹی سر کرلی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مشن نے مجھے ٹیم ورک کی اہمیت کااحساس کرایا۔لیڈر شپ کیا ہوتی ہے اور اس کی اہمیت کیا ہوتی ہے،یہ بھی معلوم ہوا ۔22 مئی کو آخری کیمپ میں ہم 8 کوہ پیما تھے مگر 22 مئی کی رات کو جب ایورسٹ سر کرنے کا سفر شروع کیا تو میری ٹیم کے دو اور ایک کوہ پیما یہ کارنامہ انجام دے سکے۔ متبر سنگھ کہتے ہیں کہنا ہے کہ ان کا بیٹا اب ساتوں براعظم کی بلند چوٹیوں کو سر کرنے کا عزم رکھتا ہے۔وہ ابتک افریقہ کی ماونٹ کلیمن جارو ،امریکا کی ماونٹ ڈینیلی،جنوبی امریکا کی ماونٹ ایکون گیوا کے ساتھ نیپال کی ماونٹ ایورسٹ کو فتح کیا ہے۔ نیگی خاندان کا تعلق رددر پریاگ کے چوپٹا ۔جکھانی گاوں سے ہے۔ 45 سال قبل وہ لوگ دہرا دون منتقل ہوگئے تھے۔بعد ازاں امریکا چلے گئے تھے۔

awazurdu