جب اسکول میں استاد کے تعصب کا نشانہ بنے کلام ۔۔۔ تو رامیشورم مندر کے مہنت بنے مہربان

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 04-12-2025
جب اسکول میں استاد کے تعصب کا نشانہ بنے کلام ۔۔۔ تو رامیشورم مندر کے مہنت بنے مہربان
جب اسکول میں استاد کے تعصب کا نشانہ بنے کلام ۔۔۔ تو رامیشورم مندر کے مہنت بنے مہربان

 



منصور الدین فریدی/ نئی ریلی

 یہ ایک تعصب پرست استاد اور دو ہندواور مسلم دوستوں  کی زندگی کی سچی کہانی ہے ،جو Wings of Fire اے پی جے عبدالکلام کی خود نوشت کا حصہ ہے ۔ جس میں ان کی ابتدائی زندگی اور ہندوستان کی خلائی تحقیق اور میزائل پروگراموں میں ان کے مشن کا ذکر ہے۔یہ ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہے جو سادہ گھرانے سے اٹھ کر ہندوستان کے خلائی اور میزائل پروگراموں میں اہم کردار بنا اور بعد میں ملک کےصدر بھی بنے

اس کتاب میں کلام صاحب لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ ‘رامیشورم کامشہور شیولنگ مندر ہمارے گھر سے چند منٹ کے فاصلے پر تھا۔ ہمارا محلہ زیادہ تر مسلمانوں کا تھا مگر کچھ ہندو گھرانے بھی وہیں رہتے تھے۔ دونوں برادریاں مل جل کر رہتی تھیں۔رامیشورم مندر کے مہنت پکشی لکشمن شاستری میرے والد کے قریبی دوست تھے۔ میرے بچپن کی زندہ یادوں میں سے ایک یہی ہے کہ دونوں بزرگ اپنی اپنی مذہبی پوشاک میں بیٹھ کر روحانی باتیں کرتے تھے’'۔۔۔

یہ باتیں تو اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ کلام صاحب کا خاندان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا نمونہ تھا اور مل جل کر رہنے کا قائل تھا ۔ کوئی بھید بھاو نہیں تھا ۔اس کے بعد کلام صاحب  اصل واقعہ کو بیان کرتے ہیں کہ۔۔۔

‘‘ ایک دن جب میں پانچویں جماعت میں تھا ایک نئے استاد نے ہماری کلاس سنبھالی۔ میں مسلمان ہونے کی علامت کے طور پر ٹوپی پہنتا تھا اور ہمیشہ اگلی قطار میں رامنادھ شاستری کے ساتھ بیٹھتا تھا جو مقدس دھاگہ پہنتا تھا۔ نئے استاد کو ایک ہندو پجاری کے بیٹے کا ایک مسلمان لڑکے کے ساتھ بیٹھنا برداشت نہ ہوا۔ انہوں نے مجھے آخری بینچ پر جانے کا حکم دیا۔ مجھے بہت افسوس ہوا اور رامنادھ شاستری بھی بہت غمگین ہوا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے جب میں پیچھے جا کر بیٹھا۔ یہ منظر ہمیشہ کے لئے میری یاد میں نقش ہو گیا۔ ہم نے گھر جا کر اپنے والدین کو واقعہ بتایا۔

لکشمن شاستری نے استاد کو بلایا اور ہمارے سامنے تنبیہ کی کہ بچوں کے ذہنوں میں سماجی اونچ نیچ اور فرقہ وارانہ نفرت زہر کی طرح نہ گھولے۔ انہوں نے استاد سے کہا کہ یا تو اپنے رویے پر معافی مانگے یا پھر اسکول اور جزیرہ چھوڑ دے۔ استاد نے نہ صرف معافی مانگی بلکہ لکشمن شاستری کی مضبوط باتوں نے اسے بدل کر رکھ دیا ’’۔۔۔

کتاب میں کلام صاحب کے بچپن کے متعدد واقعات کا ذکر کیا گیا ہے سب سے اہم بات یہ ہے کہ کلام صاحب کی زندگی میں مذہب یا ذات بات کی کبھی کوئی اہمیت نہیں رہی تھی یہی وجہ ہے کہ ان کی دوستی اسکول میں مہنت کے بیٹےکے ساتھ تھی

کلام صاحب کا بچپن ہو جوانی یا بزرگی ہر دور میں وہ انسان دوست رہے، مذہب کبھی بھی ان کی زندگی میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں بنا،اہم بات یہ ہے کہ اس کتاب میں ایک بات بار بار نمایاں ہوتی ہے کہ کلام ہمیشہ مثبت سوچ رکھتے تھے۔ وہ مختلف اداروں میں بلند عہدوں پر فائز رہے مگر پھر بھی انہوں نے کہیں بھی سرکاری محکموں کی سستی یا بدعنوانی کا ذکر نہیں کیا۔ ان کی کامیابی کا راز شاید یہ تھا کہ وہ اپنے اردگرد کی منفی باتوں کو نظر انداز کر دیتے تھے۔یہ کتاب ہندوستان میں ان کی مقبولیت کی وجہ بھی بتاتی ہے۔ کلام سادہ مزاج تھے۔ وہ سب کے لئے یکساں سوچ رکھنے والے روشن خیال اور انسان دوست شخصیت تھے۔