منصور الدین فریدی ۔آواز دی وائس
افغانستان کے طالبانی وزیر خارجہ امیر خان متقی کا دورہ ہند،ایک بڑی خبر تو تھی، لیکن اس کی کوکھ سے ایک اور بڑی خبر سامنے آئی، جس نے ملک بھر میں زبردست ہلچل پیدا کی، بلکہ ملک کے سب سے بڑے اسلامی تعلیمی مرکز دارالعلوم دیوبند کو سرخیوں میں لادیا، جب افغان وزیر خارجہ اپنے لاو لشکر کے ساتھ اس تاریخی اور عظیم اسلامی درسگاہ پہنچ گئے ۔ جو خبروں کی خبر بن گئی ۔ہر کوئی دیوبندی سوچ اور فکر کو کریدنے میں جٹ گیا کہ آخر کیا ہے دیو بند؟ کیا ہے دیوبندی سوچ ؟ اور کیا ہیں دیوبندی نظریات ۔ کیا ہے طالبان سے اس سوچ کا تعلق ؟ دراصل یہ ایک طویل تاریخ ہے ،جس کے متعدد پہلو ہیں اور مختلف نظرئیے یا دعوے ہیں ۔
دارالعلوم دیو بند کا قیام
سب سے پہلے آپ کو بتا تے ہیں کہ برطانوی قبضہ کے خلاف1857 کی بغاوت کے دس سال بعد1867 دارالعلوم دیوبند کا قیام ہوا تھا، مولانا محمد قاسم نناؤتاوی اور مولانا رشید محمد گنگوہی، دیوبندی مدرسے کے قیام کے پیچھے تھے۔ ان کا مقصد نوجوان مسلمانوں کو اسلام کے ایک سخت، باقاعدہ اور خالص نظریہ سے ہم آہنگ کرنا تھا۔ دیوبندی سوچ کا مرکزی مقصد انگریزوں کے خلاف ایک تحریک کے طور پرمسلمانوں کو دوبارہ منظم کرنا تھا۔ غدر کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی و معاشی زوال کے نتیجے میں ان کے اخلاق، ثقافت، مذہب اور معاشرت پر بھی گہرے اور منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ حالات اس قدر نازک ہو گئے تھے کہ مسلمانوں کا قومی وجود خطرے میں پڑ گیا تھا۔ ایک جانب دہلی کے سقوط کے بعد مدرسہ رحیمیہ کے دروازے بند کر دیے گئے تھے۔ دوسری جانب انہیں مذہب سے دور کرنے کے لیے سازشی اور منفی سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ ایسے موقع پر لازم تھا کہ مسلمانوں کو شریعت کے بنیادی اصولوں سے باخبر رکھا جائے۔ان مقاصد کے حصول کے لیے حضرت شاہ ولی اللہ کے نظریات اور تحریک سے متاثر چند علماء نے برصغیر میں دینی مدارس قائم کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ اسی ضرورت کے پیش نظر ضلع سہارنپور کے قصبے نانوتہ کے محمد قاسم نانوتوی، فضل الرحمن عثمانی، سید محمد عابد دیوبندی اور دیگر حضرات نے قائم کیا تھا۔ مولانا قاسم نانوتوی نے 30 مئی 1866ء بمطابق 15 محرم الحرام 1283ء کو دیوبند کی ایک چھوٹی مسجد مسجد چھتہ میں مدرسۃ دیوبند کی بنیاد رکھی۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس نیک اقدام میں مولانا محمود الحسن کے والد مولوی ذوالفقار علی صاحب اور مولانا شبیر احمد عثمانی کے والد مولوی فضل الرحمن صاحب نے بھرپور تعاون کیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مدرسے کا آغاز مسجد چھتہ کے انار کے درخت کے نیچے ایک استاد اور ایک طالب علم کی محض نشست سے ہوا۔
.png)
مرحوم مولانا قاسم نانوتوی اور دارالعلوم دیو بند
کون ہیں طالبان ؟
طالبان ،افغانستان میں برطانیہ ،سابق سوویت یونین اور امریکہ کو ملک پر قابض طاقتوں کی شکل میں مار بھگانے کے لیے تاریخ کا حصہ ہیں ،جنہیں کبھی باغی ،کبھی مجاہد اور کبھی دہشت گرد کہا گیا ۔ جن کے اسلامی نظریات ضرورت سے زیادہ سخت ہونے کے سبب انہیں عالمی برادری نے ہر دور میں ’ظالم ‘مانا ۔ خاص طور پر خواتین کے معاملہ میں طالبان کی پالیسی پر دنیا آج بھی مطمین نہیں ۔یاد رہے کہ نجیب اللہ کو سر عام پھانسی دینے کے بعد طالبان نے افغانستان پر 1996 سے 2001 تک حکمرانی کی، جس کا خاتمہ اس وقت ہوا جب القاعدہ نے ۱۱ ستمبر کا حملہ انجام دیا اور امریکہ نے اسامہ بن لادن کو حوالے نہ کرنے کے بعد افغانستان پر فوجی چڑھا ئی کی ۔ جس نے طالبان کو اقتدار سے پہاڑوں پر پہنچا دیا تھا ۔ عالمی برادری نے اس دور کو افغان عوام کے لیے بد ترین مانا تھا ،لیکن دو دہائی کے بعد 2021 میں امریکہ کی قیادت میں ناٹو ممالک نے راتوں رات کابک خالی کیا اور دوبارہ اقتدار طالبان کے حوالے کرکے اپنی راہ لے لی تھی ۔ یعنی افغانستان میں برطانیہ ،سوویت یونین کے بعد امریکہ کو بھی فرار ہونا پڑا جس کے بعد سے طالبان کی ایک حکومت نمودار ہوئی جو اب چار سال پورے کرچکی ہے جبکہ دنیا میں سفارت کاری کی نئی تصویر پیش کررہی ہے ۔
.webp)
.webp)
افغانستان اوردارالعلوم دیوبند کے درمیان تعلق کیا ہے؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ طالبان کے مذہبی عقائد کی ابتدا اور اس نظریہ کی جڑیں دیوبندی سوچ میں پیوستہ ہیں۔لیکن یہ آزادی سے قبل تک تھا، آزادی یا تقسیم ملک کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا میں مولانا عبد الحق نے دارالعلوم دیوبند کے اصولوں کے مطابق دارالعلوم حقانیہ کی بنیاد رکھی، جنہوں نے 1947 سے قبل دیوبند میں تعلیم حاصل کی تھی ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ان کے بیٹے، سمیع الحق، کو بابائے طالبان کہا جاتا ہے۔جبکہ دارالعلوم حقانیا نے طالبان کے کمانڈرز اور رہنماؤں کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان آج بھی ہندوستان میں دارالعلوم دیو بند کی جانب احترام سے دیکھ رہے ہیں
فرق کہاں پیدا ہوا
پچھلے سال ہی دارالعلوم دیوبند کے روح رواں مولانا ارشد مدنی نے کہا تھا کہ طالبان خود کو دیوبندی کہتے ہیں لیکن طالبان میں سے 99 فیصد نے کبھی دیوبند کا دورہ تک نہیں کیا۔ ان کا کسی کا غلام نہ بننے کا تصور ایک دیوبندی عالم سے آیا تھا جو پاکستان اور افغانستان گیا تھا۔ اس کے علاوہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں۔
مولانا ارشد مدنی کی بات سے بہت سے دانشور اورعلماء اتفاق کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ وہ بالکل درست ہیں، طالبان کی سوچ اصل دیوبندی تحریک سے بیسویں صدی کے آخری دور میں منحرف ہوگئی تھی ۔تھنک ٹینک ویویکانندہ انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کی سومیا اوستھی،جوکہ سکیورٹی اکسپرٹ ہیں ،اپنے ایک انٹر ویو میں وضاحت کرچکی ہیں کہ ہندوستانی دیوبندی فکر قدیم اور اعلی ہے، جبکہ پاکستان اور افغانستان میں موجود دیوبندی سوچ نئی ہے، طالبان ہندوستان کے دیوبندی نظرئیے کے اصل اصولوں سے ہٹ کر چل رہا ہے۔ کچھ کا دعوی ہے کہ اس میں وہابی اثرات شامل ہیں۔
مولانا عبدالحق اور دارالعلوم حقانیہ
ایسا کیوں ہوا ؟
مسلم دانشوروں کا ایک طبقہ مانتا ہے کہ دراصل ایران میں 1979 کی ایرانی انقلاب کے بعد سعودی عرب اس بات سے فکر مند تھا کہ مسلم دنیا پر شیعہ طاقت ایران کا اثر بڑھ جائے گا۔ اس لیے سعودی عرب نے پاکستان کو فنڈ مہیا کیا ، تاکہ وہ اپنی افغانی سرحد پر یہ مدارس چلائیں، جس کے سبب آہستہ آہستہ وہابی ثقافت دیوبندی اسلام میں داخل ہونے لگی۔ وقت کے ساتھ، دیوبندی اسلام کی مختلف شاخیں ان ممالک کی مختلف سیاسی حالات سے متاثر ہوئیں جہاں وہ فروغ پاتی رہیں۔لیکن اصل دیوبندی شاخ، جو ہندوستان کے دیو بند میں 150 سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی پرامن طورہے۔