نکاح کی دو محفلیں

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 08-11-2025
نکاح کی دو محفلیں
نکاح کی دو محفلیں

 



محمد رضی الاسلام ندوی

گزشتہ دنوں مجھے دو مواقع پر نکاح پڑھانے کا موقع ملا - دونوں محفلیں بالکل متضاد کیفیات کی حامل تھیں - ایک بہت کوفت میں مبتلا کرنے والی تھی اور دوسری سکون اور اطمینان دلانے والی -

(1) پہلا نکاح

میرے ایک دوست نے ، جن سے نصف صدی کا یارانہ ہے اور وہ ان دنوں ایک یونی ورسٹی میں پروفیسر ہیں ، مجھ سے خواہش کی کہ میں ان کے ایک دوست کے بیٹے کا نکاح پڑھادوں - انھوں نے بتایا کہ مقامِ نکاح قریب ہی ہے ، یہ لوگ آپ کو گاڑی سے لے جائیں گے اور نکاح کے بعد واپس پہنچا جائیں گے - میں تیار ہوگیا -

مقامِ نکاح پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ تو ایک بہت بڑا ہوٹل ہے - اس کا کرایہ ہی لاکھوں میں ہوگا - اسے اس موقع پر زبردست طریقے سے سجایا گیا تھا - اندر داخل ہوئے تو مخلوط محفل نظر آئی - عورتیں اپنے زرق برق قیمتی ملبوسات کے ساتھ جلوہ بکھیر رہی تھیں - دوشیزائیں ہوں یا ادھیڑ عمر کی عورتیں ، بناؤ سنگھار میں کوئی کسی سے کم نہ تھا - سب کی فتنہ سامانیاں عروج پر تھیں اور دعوتِ نظارہ دے رہی تھیں - مرد حضرات اور عورتیں ملے جلے گروپ بناکر خوش گپّیوں میں مصروف تھے - موسیقی نے محفل کو رومانوی رنگ دے دیا تھا - دوسری چیز یہ نمایاں نظر آئی کہ کھانے پینے کی انواع و اقسام کی چیزیں موجود تھیں - طرح طرح کے فواکہ ، میوہ جات ، مشروبات اور کھانے کی متنوّع ڈشیں - اتنی کوفت ہوئی کہ بیان سے باہر - جی میں آیا کہ بھاگ کھڑا ہوں ، لیکن دوست کا وعدہ پاؤں کی زنجیر بن گیا -

 میں نے رجسٹر تیار کیا - دولہا ، دلہن اور اس کے ولی ، گواہوں اور مہر کا اندراج کیا - تب مجھ سے کہا گیا کہ پہلے دلہن سے منظوری لے لیں - میں نے عرض کیا کہ مجھے جانے کی ضرورت نہیں - دلہن کا ولی اس کے سامنے تفصیل بتاکر منظوری لے لے - لیکن لوگ نہ مانے ، کہا کہ ہمارے یہاں قاضی کا گواہوں کے ساتھ دلہن کے پاس جانا ضروری ہوتا ہے - مرتا کیا نہ کرتا - گواہوں کو لے کر پہنچا - میرے تصوّر میں تھا کہ دلہن سُکڑی سِمٹی کسی کونے میں بیٹھی ہوگی - لیکن وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہ چند عورتوں کے درمیان خوش گپّیوں میں مصروف تھی - اس کے سامنے نکاح کی تفصیل بتاکر منظوری لی - اس نے جھٹ سے منظوری دی اور رجسٹر لے کر دستخط کردیے -

 اب نکاح پڑھانے اسٹیج پر پہنچے - موسیقی روک دی گئی - میں نے مائک کا مطالبہ کیا ، جو مل گیا - خطبۂ مسنونہ پڑھا اور اپنے الفاظ میں اس کی کچھ تشریح کی - الفاظ میرے منھ میں اٹک رہے تھے ، یہ سوچ کر کہ جو محفل نکاح کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی سراسر مخالفت کررہی ہو اس کے سامنے اسلامی تعلیمات بیان کرنے سے کیا فائدہ - غرض خطبہ دے کر دولہا سے نکاح قبول کرواکر میں اسٹیج سے اتر آیا - فوراً ایک صاحب میرے پاس آئے اور نوٹوں کی ایک گڈّی مجھے پیش کی - میرا اندازہ ہے ، 10 ہزار سے زائد روپے ہوں گے - میں نے کہا : نکاح پڑھانے کی میری کوئی فیس نہیں - کہنے لگے : یہ ہماری طرف سے نذرانہ ہے ، قبول کرلیجیے - ایک طرف ان کا اصرار تھا ، دوسری طرف میرا انکار ، بالآخر انکار اصرار پر غالب آگیا -

 نکاح والوں نے میری خوب خاطر تواضع کی ، ایک جگہ بٹھاکر کھانا کھلایا ، پھر شکریہ ادا کرتے ہوئے اعزاز کے ساتھ رخصت کیا اور میرے مستقر تک گاڑی سے پہنچادیا - راستے میں سوچتا رہا کہ شادی کی مُسرفانہ اور غیر شرعی رسمیں مسلمانوں میں کتنی زیادہ گہرائی تک راسخ ہوچکی ہیں کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ ان سے پیچھا نہیں چھڑا پارہے ہیں - مجھے یہ خیال بھی آیا کہ جو لوگ شادی پر لاکھوں روپے اڑا دیتے ہیں ، ان سے چند ہزار روپے نکاح پڑھانے کا نذرانہ قبول کرلینے میں کیا حرج ہے - لیکن میں نے فوراً اس خیال کو جھٹک دیا -

(2) دوسرا نکاح

 جماعت اسلامی ہند حلقہ دہلی کے امیر جناب سلیم اللہ خان نے سوال کیا : وکاس نگر کے امیر مقامی جناب عمر دراز صاحب کے یہاں ایک نکاح ہے ، وہ آپ سے نکاح پڑھوانے کے خواہش مند ہیں - کیا آپ وہاں جاسکتے ہیں؟ میں نے جواب دیا : جی ہاں

ظہر کی نماز میں بیس آدمی رہے ہوں گے - نماز کے بعد اعلان کردیا گیا کہ رک جائیں ، ابھی ایک نکاح پڑھایا جائے گا - نماز کے بعد میں نے آسان اور مسنون نکاح کے موضوع پر تقریر کی ، قرآن اور حدیث کی روشنی میں نکاح کو آسان اور کم خرچ بنانے کی تلقین کی ، یہ بتایا کہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں کتنی آسانی سے نکاح ہوجایا کرتے تھے - آخر میں کہا کہ موجودہ دور میں جتنی سماجی برائیاں عام ہیں ان کی وجہ یہی ہے کہ نکاح کو مشکل اور گراں بنادیا گیا ہے - اگر ان برائیوں سے چھٹکارا پانا ہے تو نکاح کو آسان بنانا ہوگا - میری تقریر کے بعد ایک مقامی عالم نے نکاح پڑھایا اور تین ہزار دو سو روپے فیس وصول کی - دولہا سادہ کپڑوں میں تھا - نکاح کے بعد چھوہارے تقسیم کردیے گئے -

 واپسی میں میں سوچ رہا تھا کہ قرآن مجید میں مسلمانوں کے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کا ایک وصف بتایا گیا ہے کہ انھوں نے وہ بیڑیاں کاٹ دیں جن میں لوگ جکڑے ہوئے تھے اور وہ بوجھ اتار دیے جو لوگوں نے اپنے اوپر لاد لیے تھے - (الاعراف :157) مسلمان کتنے نادان ہیں کہ انھوں نے اپنی مرضی سے خوشی خوشی خود کو بیڑیوں میں جکڑ لیا ہے اور اپنے اوپر بہت سے بوجھ لاد لیے ہیں