اردو شاعری میں رام اور رام کتھاؤں کی روایت

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 02-01-2024
اردو شاعری میں رام اور رام کتھاؤں کی روایت
اردو شاعری میں رام اور رام کتھاؤں کی روایت

 

محمد قاسم انصاری

اردو میں رام چندر جی سے محبت و عقیدت کے اظہار کی روایت کوئی نئی نہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی ایک نظم میں شری رام چندر جی کو ’امام ہند‘ قرار دیا ہے۔ اقبال کی اس لاثانی نظم کے بعض اشعار کا حوالہ کثرت سے دیا جاتا رہا ہے۔ ان اشعار کی مقبولیت صرف علمی و ادبی حلقوں تک محدود نہیں بلکہ مختلف سیاسی و سماجی حلقوں میں بھی یہ اشعار زبان زد ہیں۔ اقبال کی نظر میں رام چندر جی ہندوستان جیسی قدیم و مقدس سرزمین کے امام ہیں۔ وہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کی زندگی اور ان کی شخصیت میں مثالیت کے وہ رنگ جلوہ گر ہیں جو انھیں کسی اور میں نظر نہیں آتے۔ ان کی صداقت، ایمانداری اور شجاعت ملک کی عوام اور انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے۔ اس لیے ہندوستان کے تمام فرقوں و مذاہب کے لیے وہ محترم ہیں۔ رام چندر جی پر لکھی گئی اقبال کی یہ شاہکار نظم ان تمام پہلوؤں کی بھرپور عکاسی کرتی ہے

لبریز ہے شرابِ حقیقت سے جامِ ہند

سب فلسفی ہیں خطہ مغرب کے رام ہند

یہ ہندیوں کے فکر فلک رس کا ہے اثر

رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بام ہند

اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں ملک سرشت

مشہور جن کے دم سے ہے دنیا میں نام ہند

ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز

اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند

اعجاز اس چراغ ہدایت کا ہے یہی

روشن تر از سحر ہے زمانے میں شام ہند

تلوار کا دھنی تھا شجاعت میں فرد تھا

پاکیزگی میں جوش محبت میں فرد تھا

اقبال سے قبل اردو ادب بالخصوص اردو شاعری میں ان کی عظمت کا ذکر کثر ت سے ملتا ہے لیکن اقبال نے رام جی سے عقیدت و محبت کے اظہار کے لیے جس ڈکشن، لفظیات، جذبے کا سہارا لیا ہے اس کی نظیر اردو شاعری میں کم ملتی ہے۔ اپنی اس اچھوتی نظم میں انھوں نے امامِ ہند اور چراغ ہدایت کے ان تمام مثالی اوصاف کو اجاگر کردیا ہے جن پر اہل ہندناز کرتے ہیں۔

اقبال اپنے عہد کے بڑے فلسفی، معتبر دانشور اور عظیم شاعر ہیں۔ ان کی نظر صرف فکر اسلامی تک محدود نہیں بلکہ ان کی نظر دنیا کے ہر ڈسکورس پر رہی۔ اپنے عہد کے ہر علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی، سماجی اور تہذیبی کو انھوں نے بخوبی سمجھا۔ اسلام اور دنیا کے دیگر مذاہب و فلسفہ کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ اس لیے اقبال جیسے عظیم شاعر کی قلم سے رام چندر جی کی عظمت پر نظم کا تخلیق کیا جانا محض اتفاق نہیں ہوسکتا۔

بہت غور و فکر کے بعد انھوں نے رام چندر جی کے لیے ’امامِ ہند اور چراغِ ہدایت‘ جیسے الفاظ کا استعمال کیا۔ اقبال کی یہ نظم اہل علم اور اہلِ نظر دونوں سے سنجیدگی اور غور و فکر کی متقاضی ہے۔

دراصل رام کا کردار ایک مثالی کردار تصور کیا جاتا ہے۔ وہ حسن عمل اور حسن اخلاق دونوں کا پیکر ہیں۔ وہ ہر روپ اور ہر رشتے میں ایک مثالی حیثیت رکھتے ہیں۔ بحیثیت ایک فرمانبردار فرزند، شوہر، بڑے بھائی۔ زندگی کے ہر شعبے میں ان کا یہ کردار مثالیت کے رنگ بھرا ہے۔ وہ مریادا پرشوتم کہے جاتے ہیں۔ علامہ اقبال ان کے اس متحرک کردار سے بے حد متاثر ہوتے ہیں اور پھر انھیں ایک مثالی ہیرو قرار دیتے ہیں۔ رام جی کو امام ہند قرار دینے میں ان کی نظر یقینا کئی پہلوؤں پر رہی ہوگی۔ پہلا یہ کہ قرآنِ کریم میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ”اللہ نے مختلف قوموں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے انھیں میں سے نبیوں کو بھیجا“ قرآن کریم میں جگہ جگہ اس امر کا ذکر ملتا ہے۔ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ ہندوستان جیسے عظیم ملک میں کوئی نبی نہ بھیجا گیا ہو۔

دوسرا پہلو یہ کہ اقبال کی نظر تاریخِ ہند پر بھی رہی ہوگی۔ مغلیہ عہد میں رام چرتر مانس کے تراجم سنسکرت سے فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں ملتے ہیں۔ تلسی داس نے رام چرتر مانس کی تخلیق سولہویں صدی میں کی۔ یہ زمانہ اکبر کا تھا۔ اکبر نے دین الٰہی کی تحریک چلائی تھی جس کا بڑا مقصد ہندوستان کے مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا تھا۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے اکبر نے مختلف مذاہب کی مقدس کتابوں اور ان کے مذہبی گرنتھوں کے تراجم کا سہارا لیا۔

اکبر نے ’دارالترجمہ‘ کے نام سے باقاعدہ ایک ادارہ کی داغ بیل ڈالی۔ اس ادارے کے تحت بالمیکی، رامائن اور تلسی رامائن کے تراجم کےے گئے۔ ملا عبدالقادر بدایونی نے اپنی کتاب ’منتخب التواریخ‘ میں ایسے کئی تراجم کی نشاندہی کی ہے۔ جہانگیر کے زمانے میں ’رامائن سچی‘ اور ’رامائن ایک قافیہ‘ کے نام سے ترجمے ہوئے جنھیں خاصی شہرت ملی۔

رام پر اس بحث کے ساتھ رام کے معنیٰ پر بھی غور کیا جائے کیونکہ ’رام جی‘ سے متعلق یہ پہلو خاصا دلچسپ اور اہم ہے۔ رام سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی چمتکاری، منوہر اور پاپیوں کا ناش کرنے والا درج کےے گئے ہیں۔ ہندو عقیدے کے مطابق رام چندر جی وشنو کے دسویں اوتار ہیں۔ بعض کے نزدیک ساتویں اوتار ہیں۔ اوتار کے کم و بیش معنیٰ اردو میں پیغمبر کے ہی ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ جدید ہندی اردو لغت میں رام کے معنی ’تین کا ہندسہ‘ ہے جو علم عروض کا ایک وزن ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رام فارسی زبان کا بھی لفظ ہے۔ فارسی اور سنسکرت کے لسانی اور تاریخی رشتے جگ ظاہر ہیں ۔ فارسی میں ’رام کردن‘ کے معنیٰ ’کسی کو اپنا مطیع یا فرمانبردار بنانا‘ ہے۔

فارسی اور سنسکرت سے قطع نظر رام کی روایت پارسیوں کے یہاں بھی ملتی ہے۔ پارسیوں نے اپنے ماہ اور ایام کے اسما رام کے نام پر رکھے ہیں۔ ان کے کلینڈر کے مطابق اکیسویں دن کا نام رام ہے۔ اقبال کی نظر یقینا ان پہلوؤں پر رہی ہوگی۔ گرچہ اقبال شری کرشن سے بھی متاثر ہیں اور انھوں نے ان سے بھی اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے لیکن رام چندر جی پر لکھی گئی ان کی اس نظم کو جو شہرت ملی وہ کسی اور کو نہیں۔

اردو میں ’رامائن‘ اور رام کتھاؤں کی ایک طویل روایت ملتی ہے۔ ان رام کتھاؤں کو گھر گھر تک پہنچانے اور انھیں قبول عام بخشنے میں اردو ادیبوں، شاعروں اور اداروں کا بہت نمایاں کردار رہا ہے۔ اس حوالے سے سرِ فہرست نام منشی نول کشور اور ان کے پریس ’مطبع نول کشور‘ کا ہے۔ اس پریس سے رامائن کے مختلف ایڈیشن شائع ہوئے۔ 1860 میں رام چرتر مانس کا پہلا ایڈیشن یہیں سے شائع ہوا اور پھر متعدد ایڈیشن شائع ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ بالمیکی رامائن کا قدیم ترین ترجمہ 1894 میں نول کشور پریس سے ہی شائع ہوا۔ اس کے مترجم گیانی پرمیشر دیال مختار تھے۔

اس نثری ترجمہ کا منظوم ترجمہ دوارکا پرشاد افق لکھنوی نے اردو میں ’مکمل رامائن بالمیکی‘ کے نام سے کیا اور یہ ترجمہ 1921 میں شائع ہوا۔ اسی طرح شنکر دل فرحت کا ترجمہ ’ادبھت رامائن‘ کے نام سے خاصا مشہور ہوا۔ 1870 میں اس کی اشاعت ہوئی، اردو میں رامائن کے متعدد تراجم ہوئے۔ یہ ترجمے نظم اور نثر دونوں میں ملتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ان کے مترجمین صرف ہندو ادیب و شاعر تھے بلکہ مسلم ادیبوں اور شاعروں نے بھی رامائن کے ترجمے کیے۔

 ان کے  تراجم میں ’تلسی کرت رامائن‘ انتہائی خصوصیت کی حامل ہے۔ گرچہ یہ ناگری رسم الخط میں ہے اور اس کی زبان ہندی ہے لیکن اس رامائن کو حرف بہ حرف اردو میں منتقل کیا گیا۔ا س کے مترجم منشی سوامی دیال تھے۔ دوارکا پرشاد افق نے بالمیکی رامائن ترجمہ نظم اور نثر دونوں میں کیا غرض یہ کہ تراجم کا یہ سلسلہ مختلف ادوار میں جاری رہا۔ معروف اردو ادیب و قلمکار علی جواد زیدی نے اردو میں ان تراجم کی تعداد تقریباً 300 بتائی ہے۔ ان میں سے کئی تراجم کو خاصی شہرت ملی۔ علی جواد زیدی نے منشی جگناتھ خوشتر کی رامائن کو مقبول ترین ترجمہ قرار دیا ہے۔ خوشترکی اس رامائن کا ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے

پدر کے سامنے آئے شتاباں

ز بس حالِ پدر دیکھا پریشاں

زمیں پر اس طرح تھا شاہ کا حال

ہما غلطاں ہے گویا بے پر و بال

کہا تب رام نے با اشکباری

کہ ہے کس واسطے یہ سوگواری

جو ہو تقصیر میری، وہ عطا ہو

بجا لاؤں جو صاحب کی رضا ہو

اسی طرح شنکر دیال فرحت کی رامائن کا ایک سین ملاحظہ کیجیے جواد بھت رامائن سے ماخوذ ہے۔ یہ سین اس وقت کا ہے جب سیتاجی بنواس کی خبر سنتی میں تو ان کا کیا حال ہوتا ہے

جنابِ جانکی نے جب سنا حال

تو جوشِ گریہ سے آنکھیں ہوئیں لال

نہ تھا ضبط شکیبائی کا یارا

ہوئی شوہر کی فرقت ناگوارا

دوارکا پرشاد افق کا منظوم ترجمہ کچھ اس طرح ہے۔ سُپ نکھ کے جب دونوں بھائی مارے جاتے ہیں تو وہ راون کے دربار میں کس طرح فریاد کرتی ہے؟ ملاحظہ کیجیے

روئی، واویلا مچائی، سردھنا نالے کیے

پیشِ راون جا کے لنکا میں ہوئی محو فغاں

شاہ راون نے سنی جب سُپ نکھا کی سرگذشت

بہر خونریزی کمر بستہ ہوا مثل کماں

ارد وکے معروف ادیب و شاعر پروفیسر مظفر حنفی نے رامائن کے تراجم پر مبنی ایک جامع فہرست تیار کی ہے جس سے اردو میں رامائن کی روایت پر خاصی روشنی پڑتی ہے۔ یہ فہرست کچھ اس طرح ہے

       رامائن نظم اردو: شنکر دیال فرحت ۔ 1866

         ادبھت رامائن: شنکر دیال فرحت ۔ 1870

         تلسی کرت رامائن بہار: بانکے بہاری لال بہار۔ 1886

         تلسی کرت رامائن فرحت: شنکر دیال فرحت، ۔ 1886

         رامائن مہر: سورج رامائن مہر۔ 1914

         تلسی کرت رامائن خوشتر: جگن ناتھ خوشتر۔ 1924

       رامائن ایک قافیہ منظومۂ افق: دوارکا پرشاد افق لکھنوی

         پشپک رامائن (بطرز نوٹنکی): ہری نرائن شرما ساحر

      منظوم رامائن: نفیس خلیلی

     رامائن تلسی کرت اصل مع منظوم ترجمہ: سورج پرشاد تصور

      مسدس رامائن: بنواری لال شعلہ

    رام کہانی: نفیس خلیلی

      رام گیتا: شیو پرساد راحل

      رام لیلا:منشی رام سہائے تمنا

      رامائن: مہدی نظمی

مذکورہ فہرست پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر مظفر حنفی لکھتے ہیں

یہاں میں واضح کردینا چاہتا ہو ں کہ مذکورہ بالا تصنیفات و تراجم میں بعض ترجمے اصل کے مطابق ہیں اور بعض میں مترجم نے حسب ضرورت تلخیص کرلی ہے۔ ان منظوم تراجم میں بطور خاص منشی شنکر دیال فرحت کی رامائن ’رامائن منظوم‘ جگناتھ خوشتر کی ’رامائن خوشتر‘ بانکے بہاری لال‘ کی ’رامائن‘ بہار‘ سورج نرائن مہر کی ’رامائن مہر‘ دوارکا پرشاد افق کی ’رامائن ایک قافیہ‘ اور نفیس خلیلی کی ’رامائن منظوم‘ شعری محاسن اور ادبی شان کے اعتبار سے ممتاز حیثیت رکھتی ہیں۔“ (نقد ریزے: مظفر حنفی، ص 194)

کم و بیش ہر عہد کے اردو ادیبوں و شاعروں نے رامائن کے واقعات کو اپنی شاعری میں جگہ دینے کی کوشش کی ہے۔ زمانۂ قدیم سے لے کر دورِ جدید تک رامائن کے واقعات شعرا و ادبا کے لیے ایک خاص توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ ان واقعات کی ادبی و مذہبی حیثیتیں مسلم ہیں۔ رامائن ایک طویل قصہ ہے۔ اس قصہ کی طوالت کے علاوہ اس کے کسی ایک پہلو کو لے کر بھی نظمیں لکھی گئیں۔ ان میں ظفر علی خاں و دیگر شعرا کا نام خصوصیت کے ساتھ لیا جاسکتا ہے۔ ظفر علی خاں نے اس مقصد کو ”ایک رشی کے داغِ جگر کی کہانی راجہ دشرتھ کی زبانی‘ کے عنوان سے قلمبند کیا ہے جس کا یہ شعر بے حد مقبول ہے۔

نقش تہذیب ہندو اب بھی نمایاں ہے اگر

تو وہ سیتا سے ہے، لکشمن سے ہے، اور رام سے ہے

اسی طرح درگاسہائے سرور جہان آبادی کی ’سیتاجی کا اصرار‘ پنڈت دتاتریہ کیفی کی ’بن باس کی صبح‘ تلوک چند محروم کی سیتا ہرن اور شاد عارفی کی دسہرا استان اور پنڈت برج نارائن چکبست کی ’رامائن کا ایک سین‘ خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان میں چکبست کی رامائن کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کی نظم ’رامائن کا ایک سین‘ کو بے پناہ شہرت حاصل ہوئی اور اس نظم کو ایک شاہکار تصور کیا جاتا ہے۔ اس نظم میں مراثی انیس و دبیر کی جھلک نمایاں ہے لیکن چکبست نے اپنے تخلیقی ذہن کے بھی بہترین نمونے پیش کےے ہیں۔ بطورِ مثال ان کی اس نظم کے چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں جس سے آپ چکبست کی انفرادیت اور مذکورہ خوبیوں کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ چکبست کے ان اشعار میں اس منظر کو پیش کیا گیا ہے جب رام چندر جی کو بنواس ہوتا ہے۔ بنواس میں جانے سے پہلے رام چندر جی کی اپنی ماں سے جو بات چیت ہوئی چکبست نے اسے بہت موثر، دلکش اور جذباتی انداز میں قلمبند کیا ہے اور اس میں ایک ادبی روح پھونک دی ہے۔ ملاحظہ کیجیے اس نظم کے چند اشعار

رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام

راہِ وفا کی منزل اوّل ہوئی تمام

منظور تھا جو ماں کی زیارت کا انتظام

دامن سے اشک پونچھ کے دل سے کیا کلام

اظہارِ بے کسی سے ستم ہوگا اور بھی

دل کو سنبھالتا ہوا آخر وہ نونہال

خاموش ماں کے پاس گیا صورتِ خیال

دیکھا تو ایک در میں ہے بیٹھی وہ خستہ حال

سکتہ سا ہوگیا ہے یہ ہے شدتِ ملال

تن میں لہو کا نام نہیں، زرد رنگ ہے

گویا بشر نہیں، کوئی تصویرِ سنگ ہے

ان ابتدائی اشعار کے بعد اب ذرا اس نظم کے آخری اشعار ملاحظہ کیجیے

تاثیر کا طلسم تھا معصوم کا خطاب

خود ماں کے دل کو چوٹ لگی سن کے یہ جواب

غم کی گھٹا سے ہٹ گئی تاریکیِ عتاب

چھاتی بھر آئی ضبط کی باقی رہی نہ تاب

سرکا کے پاؤں گود میں سر کو اٹھا لیا

دونوں کے دل بھر آئے ہوا اور ہی سماں

گنگ و جمن کی طرح آنسو ہوئے رواں

ہر آنکھ کو نصیب یہ اشکِ وفا کہاں

ان آنسوؤں کا مول اگر ہے تو نقد جاں

ہوتی ہے ان کی قدر فقط دل کے راج میں

ایسا گہر نہ تھا کوئی دشرتھ کے تاج میں

رامائن کی شعری روایت میں چکبست کے مذکورہ اشعار کا متبادل نایاب نہیں تو کمیاب ضروری ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی ایک نظم یا تخلیق کسی بھی ادیب و شاعر کی شہرت کی ضامن ہوسکتی ہے۔ ماہرین یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر وہ کچھ نہ کرتے تو صرف اسی ایک شعر، نظم یا تخلیق سے ان کی ادبی شان میں فرق نہ آتا اور وہ ممتاز ہوتے۔ غالب سے لے کر عہد جدید تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس حقیقت کا اطلاق چکبست پر بھی ہوتا ہے۔ چکبست کچھ نہ کرتے تب بھی وہ اپنی اس ایک نظم سے اردو دنیا میں مقبول ہوتے کیونکہ اس نظم میں وہ تمام کمالات اور ادبی جواہر موجود ہیں جو ایک لازوال ادبی و شعری تخلیق کے لیے درکار ہوتے ہیں۔

اردو میں رام اور رامائن کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا یہ سلسلہ عہد حاضر میں بھی جاری ہے۔

اردو میں رام اور رام کتھاؤں کی روایت دو صورتوں میں ملتی ہے۔ پہلی مذہبی اور دوسری ادبی، مذہبی صورت سے مراد وہ رام کتھا جو ہمیں مذہبی گرنتھوں، کتابوں اور لوگوں کے عقائدکے حوالے سے ملتی ہے۔ ان میں فقط ہندو علماءہی نہیں بلکہ مسلم علما و دانشور بھی شامل ہیں جو نہ صرف رام کے احترام کی تلقین کرتے ہیں بلکہ وہ خود ان کے مثالی کردار سے متاثر نظر آتے ہیں۔ دوسرے وہ ادیب و شاعر جنھوں نے شری رام کو اپنے شعر و ادب میں نمایاں جگہ دی۔ یہاں بھی صرف ہندو ادیب و شاعر نہیں بلکہ مسلم ادیبوں و شاعروں نے رام کو اپنے سینے سے لگایا اور انھیں اپنے شعر و ادب میں نمایاں جگہ دی ہے۔

اردو کی مختلف نثری و شعری اصناف میں اس کی لاتعداد مثالیں بکھری پڑی ہیں جو اردو زبان کے سیکولر مزاج کی بھرپور ترجمانی کرتی ہیں۔ اردو زبان اپنی ابتدا سے ہی سیکولر مزاج واقع ہوئی ہے اور اس کی یہ خوبی اظہر من الشمس ہے۔ اس لیے اس زبان کو ایک مخصوص فرقہ یا طبقے کی زبان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس زبان نے ملک میں بسنے والی مختلف قوموں کے عقائد، رسم و رواج، طرز معاشرت، ان کے تہواروں اور ان کے فکر و فلسفہ کو بحسن و خوبی پیش کیا ہے۔

زبان کی اس خوبی کی بنا پر ہی اردو کو گنگا جمنی تہذیب کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ میں اس زبان کے کردار سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے۔ ہندی ادب تلسی رامائن اور بالمیکی رامائن پر بجا طور پر فخر کرسکتا ہے لیکن اردو ادب اس فخرسے عاری اور خالی ہو ایسا ہرگز نہیں، اردو کے لاتعداد ادیبوں و شاعروں نے ہر عہد میں رام اور رام کتھاؤں کے موضوع کو نہایت عقیدت و احترام سے شامل کیا ہے۔

ان کے مثالی اوصاف و کردار سے اپنے ادبی شہ پاروں کو مزین کیا ہے۔ زمانۂ قدیم سے لے کر تاحال رام جی اردو زبان و ادب میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں جس سے ہر فرد انسانیت، سچائی، ایمانداری، وفاداری اور نیکی کی راہ پر چلنے کا درس لے سکتا ہے۔ اس لیے رام کو محض ایک فرقہ یا طبقے تک محدود نہیں کیا جاسکتا کیونکہ کسی بھی زبان کا اعلیٰ ادب انفرادی نہیں ہوتا۔ اس کے اندر ان عناصر کی تلاش کی جاسکتی ہے جنھیں قومی کہا جاتا ہے۔

ہندوستان کے قومیت کے تصور میں رام ہیں اور وہ بھی ’چراغِ ہدایت‘ کی شکل میں۔ ان کے مذکورہ اوصاف سے کسی کو انکار نہیں۔ رام اور رام کتھائیں نفرت کا نہیں، بلکہ آپسی میل محبت کا درس دیتی ہیں۔ محبت، سچائی اور ایمانداری کی راہ پر گامزن رہنے کی تلقین کرتی ہیں، وہ لوگ جو زمین پر فساد، جھگڑے، انسانیت پر ظلم اور نفرت پھیلاتے ہیں ایسے لوگوں کے خلاف لڑنے کا درس یہ رام کتھائیں بھی دیتی ہیں۔ اس لیے رام کے اس آفاقی پیغام کو ایک فرقہ یا طبقے تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔