خورشید ملک : کولکتہ
میں نے اس ڈیبیٹ کو دو تین بار غور سے دیکھا اور سنا ہے، اور اب اس پر اپنا تاثر پیش کر رہا ہوں۔ جاوید اختر اور مفتی شمائل ندوی کے درمیان "کیا خدا موجود ہے؟" پر ہوئی یہ بحث دہلی میں سوربھ دیویدی کی نگرانی میں دو گھنٹے سے زیادہ چلی۔ دونوں نے عقلی دلائل دیئے مگر مفتی صاحب اور جاوید صاحب دونوں کے دلائل میں کچھ نہ کچھ کمزوریاں نظر آئیں جو عام فہم زبان میں سمجھنے کے قابل ہیں۔ یہ بحث متوازن تھی مگر کوئی فریق مکمل طور پر غالب نہ آیا۔
مفتی صاحب کے دلائل کی مضبوطی اور کمزوری
مفتی صاحب نے کائنات کو "ممکن الوجود" یعنی ایسی چیز قرار دیا جو خود سے وجود نہ رکھتی، اس لئے اسے ایک "ضروری وجود" یعنی خدا کی ضرورت ہے۔ انہوں نے گلابی گیند اور جزیرے کی مثالیں دیں کہ جیسے یہ چیزیں خود سے نہیں بن سکتیں، ویسے ہی کائنات بھی کسی خالق کے بغیر ناممکن ہے۔ یہ دلائل شروع میں مضبوط لگتے ہیں کیونکہ عقل پر مبنی ہیں اور سائنس یا مذہب کی طرف نہیں جاتے۔ انہوں نے جاوید صاحب کے جذبات پر مبنی دلائل کو بھی منطقی غلطیوں سے جوڑا۔مگر جب غور کیا جائے تو ان دلائل میں کئی خامیاں سامنے آتی ہیں۔ سب سے بڑی یہ کہ وہ پہلے سے فرض کر لیتے ہیں کہ کائنات ممکن الوجود ہے، اور اس بنیاد پر خدا کی ضرورت ثابت کرتے ہیں۔ یہ ایک گول چکر ہے، جیسے نتیجہ کو پہلے سے مان لیا جائے۔ دوسرا، وہ کہتے ہیں کہ وجوہات کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا، اس لئے خدا پہلے سبب ہے، مگر یہ نہیں بتاتے کہ خدا خود کیوں سبب سے آزاد ہے۔ یہ خاص استثنیٰ کی غلطی ہے، یعنی سب کو قانون کی ضرورت مگر خود کو نہیں۔ تیسری، روزمرہ چیزیں جیسے گیند کو کائنات سے جوڑنا غلط تشبیہ ہے، کیونکہ کائنات کی مقدار اور نوعیت مختلف ہے، یہ خود سے قائم رہ سکتی ہے جیسے کوانٹم سائنس بتاتی ہے۔
جاوید اختر صاحب کے دلائل کی کمزوری :
جاوید صاحب نے مذاہب کی تاریخ، ایمان بمقابلہ عقیدہ، اور فطرت میں برائی کی مثالوں سے حملہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مذہب ایمان کا تقاضا کرتا ہے جو بغیر ثبوت کے احمقانہ ہے، اور انسانی تاریخ میں خدا کے تصورات کی تبدیلی اس کی نفی ہے۔ ان کی شاعرانہ زبان اور روزمرہ مثالیں جیسے شراب کی لت یا ڈرائیونگ کے قواعد بحث کو دلچسپ بناتی تھیں۔تاہم ان کے دلائل میں بھی کمزوریاں تھیں۔ سب سے بڑی یہ کہ وہ عقلی دلائل کے بجائے جذبات اور تاریخ پر زیادہ زور دیتے رہے، جیسے غزہ کی تباہی کو خدا کی نفی کا ثبوت بنایا مگر یہ نہ بتایا کہ انسانی آزادی اور برائی کا وجود عقلی طور پر کیسے خدا کی نفی کرتا ہے۔ یہ مسئلہ سے ہٹ کر ذاتی حملے کی طرح لگتا ہے۔ دوسرا، ایمان کو "احمقانہ" کہنا زبانی جادو ہے مگر عقلی طور پر ناقص، کیونکہ مفتی صاحب کی طرح وہ بھی وجوہات کے سلسلے جیسے بنیادی سوال کا براہ راست جواب نہ دے سکے۔ تیسری، سائنسی ترقی کو خدا کی نفی سے جوڑنا سادہ سازی ہے، کیونکہ سائنس "کیسے" بتاتی ہے نہ کہ "کیوں
"غزہ کی مثال میں دونوں کی کمزوری
جاوید صاحب نے غزہ کی تباہی کا ذکر کیا کہ اگر خدا ہے تو اتنا ظلم کیوں؟ مفتی صاحب نے جواب دیا کہ برائی انسانی آزادی کا نتیجہ ہے، نہ کہ خدا کی نفی۔ مگر دونوں کمزور پڑے: مفتی صاحب نے نہیں بتایا کہ عادل خدا کیوں ہزاروں بچوں کی موت پر خاموش ہے، جبکہ جاوید صاحب نے اسے عقلی نفی کی بجائے جذبات کا ہتھیار بنایا۔ یہاں دونوں کا عقلی تسلسل ٹوٹا۔
بحث کا فائدہ اور نتیجہ
اس ڈیبیٹ سے عقلی سطح پر گفتگو کو فروغ ملا، لاکھوں لوگوں نے دیکھا اور سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی۔ مگر کوئی حتمی حل نکلا نہ کوئی فریق مطمئن ہوا۔ نہ مفتی صاحبatheist نقطہ نظر کو ختم کر سکے، نہ جاوید صاحب عقلی دلائل توڑ سکے۔ اس ڈیبیٹ کا نتیجہ وہی نکلا جس کا اندازہ تھا اور جسے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ نہ کسی کی جیت اور نہ ہار۔ دونوں میں سے کوئی بھی فریق مطمئن نہیں ہوا۔ ہاں مفتی صاحب کے یوٹیوب چینل پر اب تک شاید سترہ لاکھ ویوز آ چکے ہیں اور آتے رہیں گے۔ اس مارکیٹنگ میں مفتی صاحب کامیاب ہوئے۔ یوٹیوب چینل سے اچھی خاصی رقم مفتی صاحب کو ملے گی۔ اس رقم کی مقدار تقریباً آٹھ سے تیس لاکھ روپے تک ہو سکتی ہے، کیونکہ ہر ہزار ویوز پر تقریباً چار سے پانچ سو روپے ملتے ہیں اور اسپانسرشپ اور اشتہارات الگ شامل ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون میں نے پورے ڈیبیٹ کو خود دیکھ کر اور سن کر اپنے ذاتی تاثرات کی بنیاد پر لکھا ہے۔ اگر کسی اور نے اس ڈیبیٹ سے مختلف نتیجہ اخذ کیا ہے تو یہ ان کی اپنی سوچ ہے، مجھے اس سے کوئی اختلاف نہیں۔ ہر شخص کا اپنا نقطہ نظر ہوتا ہے۔
مضمون نگار وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت پبلیکیشنز ڈویژن میں جوائنٹ ڈائریکٹر ہیں