چارٹر آف مکہ: دنیا کے مسلمانوں کے لیےایک مثالی روڈ میپ

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-10-2025
چارٹر آف مکہ: دنیا کے مسلمانوں کے لیےایک مثالی روڈ میپ
چارٹر آف مکہ: دنیا کے مسلمانوں کے لیےایک مثالی روڈ میپ

 



منصور الدین فریدی : آواز دی وائس 

 ۔۔۔ جامع شہریت، قومی تنوع کے لیے اسلامی انصاف کے اصولوں کی بہترین جھلک ہے۔ اس میں آئین اور قومی شعور کے اُس نظام کا احترام لازم ہے جو اتفاقِ رائے یا اکثریت کی بنیاد پر قائم ہو۔

۔۔۔ مہذب مکالمہ ہی وہ بہترین ذریعہ ہے جو دوسروں کے ساتھ مفاہمت پیدا کرتا ہے، باہمی اشتراک کو اجاگر کرتا ہے، بقائے باہمی کی رکاوٹوں کو دور کرتا ہے اور مشترکہ مسائل پر قابو پانے میں مدد دیتا ہے۔

۔۔۔ اعلیٰ اخلاقی اقدار کا قیام اور بلند سماجی رویّوں کا فروغ، نیز اسلامی اور انسانی مشترکہ تصورات کی روشنی میں اخلاقی، ماحولیاتی اور خاندانی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تعاون، ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

 یہ نکات دراصل میثاقِ مکۃ المکرمہ (مکہ چارٹر) کا حصہ ہیں، جس کا اجرا کعبۃ اللہ کے زیرِ سایہ 2019ء میں رابطۂ عالمِ اسلامی کی سرپرستی میں منعقدہ ایک تاریخی کانفرنس میں کیا گیا۔ اس کانفرنس میں اسلامی دنیا کے مختلف مسالک و مشارب سے تعلق رکھنے والے 27 مکاتبِ فکر کے 1200 سے زائد جلیل القدر علمائے کرام اور مفتیانِ عظام شریک ہوئے، جبکہ دنیا بھر سے تقریباً 139 ممالک کے 4500 سے زائد مسلم دانشور بھی اس اجتماع میں شامل تھے۔ان 27 مکاتبِ فکر میں اہلِ سنت، اہلِ تشیع اور دیگر مختلف دینی و فکری گروہ شامل تھے۔ یہ سب شخصیات بنفسِ نفیس شریک ہوئیں، جبکہ صرف ایک فیصد سے بھی کم حضرات نے ذاتی وجوہات کی بنا پر شرکت نہ کرسکنے کی صورت میں اپنے نمائندے روانہ کیے۔ اس اجتماع کی سرپرستی خادمِ حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کی۔

اس عظیم الشان اجتماع کے نتیجے میں ایک ایسی دستاویز وجود میں آئی جس نے اسلامی اور انسانی بقائے باہمی کی اقدار کو مزید مضبوط کیا اور دنیا بھر میں مذاہب، ثقافتوں، نسلوں اور دینی تنوع کے درمیان ہم آہنگی و رواداری کے پیغام کو فروغ دیا۔یہ میثاق اسلامی تاریخ میں اپنی نوعیت کی پہلی جامع عالمی دستاویز قرار پایا، جو کہ میثاقِ مدینہ منورہ کے بعد ایک منفرد اور بے مثال حیثیت رکھتا ہے۔ میثاقِ مکۃ المکرمہ میں پہلی مرتبہ عصرِ حاضر کے نہایت اہم اور نازک مسائل پر امتِ مسلمہ کے علمائے کرام اور مفتیانِ عظام کا اجماع سامنے آیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ خواب حقیقت میں ڈھل گیا جو صدیوں تک محض ایک آرزو رہا تھا۔بعض جید علما اور مفتیانِ کرام نے اس دستاویز کو امتِ مسلمہ کے لیے دوسری آئینی دستاویز بھی قرار دیا ہے، جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے لیے امن، ہم آہنگی اور مشترکہ اقدار کی ضامن ہے

ایک پیغام تھا ۔۔۔۔

 سیکرٹری جنرل رابطہ عالم اسلامی چیئر مین سپریم اتھارٹی میثاق مکہ مکرمہ محمد بن عبد الكريم العيسى کے مطابق اس دستاویز کے مندرجات کے ذریعے عالم اسلام کے علمائے کرام ومفتیان عظام نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اس دنیا کی دیگر اقوام اور مشترکات کے ساتھ اس عالم کا فعال حصہ ہیں۔ وہ بھی دیگر اقوام کی طرح امن، ہم آہنگی، خوشی، اور انسانیت کی جامع اور منصفانہ فلاح و بہبود کے حصول، شفقت، بھائی چارے اور انسانی تعاون کے لئے پل کا کردار ادا کرنے، نفرت کے تمام طریقوں، امتیازی سلوک اور تہذیبی تصادم کو مسترد کرنے کے لئے سب کے ساتھ مثبت رابطے کے خواہاں ہیں۔اس اجتماع کے شرکاء کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ مذہبی سیاست کے جارحانہ نعروں کے حاملین نہ تھے جنہوں نے مذہب کی آفاقیت کو سیاسی اہداف تک محدود کر رکھا ہے۔ اور اس دستاویز کے مدوّن علمائے کرام جس میں سب شامل تھے ، ان کا مقصد صرف اسلام کی حقیقت کو واضح کرنا اور یہ آشکارا کرنا تھا کہ یہ دنیا کے لئےرحمت ہے۔

ایک قابل تقلید آئینی معاہدہ

 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال قبل مدینہ منورہ میں ایک تاریخی معاہدہ یعنی میثاقِ مدینہ قائم کیا،جو دین، نسل اور تہذیب کے اعتبار سے مختلف اور جداگانہ عناصر کے درمیان بقائے باہمی اور امن کے قیام کے لیےایک قابل تقلید آئینی دستاویز ثابت ہوا۔آج رسول اکرم کے وارث، امتِ مسلمہ کے جلیل القدرعلمائے کرام،اسی سنتِ نبوی پر عمل کرتے ہوئے،عالمِ اسلام کے قبلہ سے رہنمائی لیتے ہوئے، پندرہویں صدی ہجری بمطابق اکیسویں صدی عیسوی میں دنیا کے لیے میثاقِ مکۃ المکرمہ جاری کر رہے ہیں۔اس کانفرنس کے حوالے سے العیسی نے فرمایا کہ امتِ مسلمہ نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ مہذب رویے کے ساتھ اس دنیا کا فعال حصہ ہے۔ امت کے تمام اجزاء انسانی بھلائی، اعلی اقدار کے فروغ، محبت اور انسانی ہم آہنگی کے پل تعمیر کرنے کے لیے متحد ہیں،ظلم، تہذیبی تصادم اور نفرت کے منفی پہلوؤں سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہیں۔

awazurdu

مکہ چارٹر کانفرنس کا ایک منظر

 اس تاریخی کانفرنس کے شرکاء  نے مندرجہ ذیل ذریں اصولوں پر مشتمل اس تاریخی دستاویز کےمندرجات کو منظور کرتے ہوئے ان کو اپنانے پر زور دیا تھا۔

 انسان، اپنی مختلف نسلی، ثقافتی یا سماجی تقسیمات کے باوجود، ایک ہی اصل سے جڑا ہوا اور انسانیت میں یکساں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں دنیا میں پھیلا دیے۔ اور اللہ سے ڈرو جس کے واسطے تم ایک دوسرے سے اپنے حقوق مانگتے ہو، اور رشتہ داروں کے حقوق کی پامالی سے بچو۔ یقین رکھو کہ اللہ تمہاری نگرانی کر رہا ہے۔ سورۃ النساء (1)

اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو عزت بخشی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ہے اور انہیں خشکی اور سمندر میں سواریاں عطا کی ہیں، اور انہیں پاکیزہ رزق دیا ہے، اور ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی ہے۔ سورۃ الإسراء (70) 

 ۔ نسل پرستی کے عبارات اور نعرے مسترد اور وہمی افضلیت کے پیدا کردہ مکروہ برتری کے دعووں کی مذمت ۔ اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والا زیادہ متقی ہے۔  اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔۔۔ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ سب سے زیادہ متقی ہو۔ سورہ حجرات (13) ایسے ہی ان میں بہتر نفع دینے والا ہے۔ نبی اکرم ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ لوگوں میں بہترین انہیں زیادہ نفع دینے والا ہے۔معجم طبرانی ہے

 ۔ اقوام میں ان کے اعتقادات، تہذیب، طبیعت اور اندازِ فکر میں اختلاف تقدیر ال ہے اللہ کی حکمت بالغہ سے ہیایسے ہوا اور اس تکوینی سنت کو تسلیم کرنا اور عقل و حکمت کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھنا جو انسانوں کے مابین یک جہتی اور امن کا ذریعہ بن جائے، باہم دشمنی اور تصادم سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔ اور اگر تمہارا رب چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی طریقے کا پیرو بنادیتا اور وہ ہمیشہ مختلف راستوں پر ہی رہیں گے۔ البتہ جن پر تمہارا رب رحم فرمائے گا ان کی بات اور ہے اور اسی امتحان کے لئے اس نے ان کو پیدا کیا۔ سورۃ ہود (118) اور ہر ہدایت یافتہ کو اسےبیان کرنے ضرورت ہے۔

 ۔ انسانی معاشروں میں دینی اور تہذیبی تنوع، تنازعہ اور تصادم کا ہر گز جواز نہیں ، بلکہ یہ مثبت تہذیبی شراکت داری اور مؤثر رابطہ کی دعوت دیتا ہے کہ ہم اس تنوع سے مصلحت عامہ کے لئے مکالمہ، مفاہمت اور تعاون کے پل تعمیر کریں اور انسانیت کی خدمت اور خوشی کے لئے مقابلے کے فضاء کی حوصلہ افزائی کریں اور جامع مشترکات تلاش کر کے اسے جامع شہری ریاست کی تعمیر میں استعمال کریں جس کی بنیاد اقدار، انصاف، جائز آزادی، باہمی احترام اور سب کے لئے بھلائی کی چاہت پر ہو۔

۔۔۔ تمام آسمانی مذاہب کی بنیاد ایک ہی ہے اور وہ بنیاد الله تعالى وحده لا شریک لہ پر ایمان ہے۔ اس کے قوانین اور مناہج متعدد ہیں۔ مذہب کو اس کے کسی بھی ملحقہ ادارے کی غلط سیاسی روش سے منسلک کرنا درست نہیں۔

 مہذب مکالمہ دوسروں کے ساتھ مفاہمت قائم کرنے، مشترکات کو سمجھنے، بقائے باہمی کی رکاوٹوں کو دور کرنے اور متعلقہ مسائل پر قابو پانے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔ یہ دوسروں کے وجود کو تسلیم کرنے اور ان کے تمام جائز حقوق کے احترام کے لیے بھی نہایت مفید ہے۔

اسی طرح، مختلف طبقات کے درمیان انصاف اور تفاہم قائم رکھنے کے لیے بھی مہذب مکالمہ انتہائی کارآمد ہے، کیونکہ یہ ہر فرد یا گروہ کی خصوصیات اور ان کے حقوق کے احترام پر مبنی ہوتا ہے۔

مہذب مکالمے میں ضروری ہے کہ ان تعصبات سے گریز کیا جائے جو تاریخ میں نفرت، تعصب یا سازش کے ذریعے پھیلائے گئے۔ اس یقین کے ساتھ کہ ہر فرد اپنی حرکتوں کا ذمہ دار ہے اور کوئی بھی دوسروں کے گناہوں کا ذمہ دار نہیں ہے۔ اسی طرح، کسی کے ذاتی موقف یا خیال کو عمومی نظریے سے دیکھنے اور اسے پورے معاشرہ، مذہب یا قوم کی نمائندگی سمجھنے سے بھی بچنا ضروری ہے، چاہے وہ موقف تاریخ کے کسی بھی زمانے میں کسی مذہب، فکر، سیاست یا قومیت کے نام پر اختیار کیا گیا ہو۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے۔وہ ایک امت تھی جو گذر گئی جو کچھ انہوں نے کمایا وہ ان کا ہے اور جو کچھ تم نے کمایا وہ تمہارا ہے اور تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا عمل کرتے تھے۔ سورۂ بقرہ (141) ۔۔۔

اور اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔۔۔فرعون بولا ۔ اچھا پھر ان قوموں کا کیا معاملہ ہوا جو پہلے گزر چکی ہیں؟ موسی نے کہاکہ ان کا علم میرے رب کے پاس ایک کتاب میں محفوظ ہے میرے ربّ کو نہ غلطی لگتی ہے نہ وہ بھولتا ہے۔ سورۃ طہ (52) ۔

۔ مذاہب اور فلسفے اپنے پیروکاروں کی غلطیوں اور ناعاقبت اندیشیوں کی ذمہ دار نہیں، بلکہ یہ غلطیاں انہی چند مخصوص افراد کی سوچ کی عکاسی کرتی ہیں جو اس کے مرتکب ہیں۔ شرائع اپنی اصل میں صرف اللہ کی عبادت اور اس کی مخلوق کو نفع کے ذریعے اس کے تقرب کے حصول ان کی کرامت کا تحفظ، اقدار کے فروغ اور ان کے مثبت خاندانی اور اجتماعی تعلقات کے تحفظ کی دعوت دیتی ہیں۔ نبی اکرم علی علم کا ارشاد گرامی ہے۔۔۔ مجھے اخلاق حسنہ کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہے، مسند احمد

۔ انسانیت اور اس کی تعمیر کو تباہی و بربادی سے بچانے، باہمی مدد اور فلاح انسانیت کیلئے ایک ایسے مؤثر عالمی اتحاد کی ضرورت ہے جس کی بنیاد بے فائدہ نظریات اور کھوکھلے نعروں کی بجائے ٹھوس انسانی اقدار پر ہو، کیونکہ ثقافتی عدم توازن کا نتیجہ دہشت گردی اور غارت گردی کے سوا کچھ نہیں۔

۔ نفرت کی ترغیب اور تشدد و دہشت گردی اور تہذیبی ٹکراؤ کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کے خلاف قانون سازی، مذہبی اور نسلی تنازعات کے اسباب کے خاتمے کے لئے ضروری ہے۔

۔ انسانی تہذیب کی افزائش میں مسلمانوں کا شاندار حصہ ہے اور آج بھی جس طرح گلوبلائزیشن کی نقصانات کی وجہ سے انسانیت جس اخلاقی، سماجی اور ماحولیاتی اقدار کے بحرانوں سے گذررہی ہے، مسلمان اس میں مثبت حصہ ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔۔۔ دہشت گردی، ناانصافی اور جبر کا مقابلہ ، قوموں کی صلاحیتوں کا استحصال اورانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھانا، سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اس میں کسی طرح کا امتیازی سلوک اور جانبداری روا نہیں۔ عدل وانصاف پر مبنی اقدار تفریق کو قبول نہیں کرتیں۔ ظلم کا خاتمہ، مسائل کے عادلانہ حل، عدل وانصاف کی فراوانی اور اس کی مدد کے لئے عالمی رائے عامہ ہموار کرنا ایک ایسی اجتماعی اخلاقی ذمہ داری ہے جس میں ہچکچاہٹ اور پس و پیش کرند لیت و لعل سے کام لینا درست نہیں۔

۔ جس ماحول میں ہم سانس لے رہے ہیں وہ خالق کی طرف سے انسان کے لئے عظیم تحفہ ہے۔ اس نے زمین و آسمان میں موجود ہر چیز کو انسان کے لئے مسخر فرمایا ۔ قدرتی وسائل کا غلط استعمال، ان کا ضیاع اور آلودگی، حدود سے تجاوز اور آئندہ کی نسلوں کی حق تلفی ہے۔

۔ تہذیبوں کے تصادم کو موضوع سخن بنانا، ٹکراؤ کی طرف بلانا یا کسی کو دوسرے کی طاقت سے ڈرانا، کسی جنگل و بیابان کا مظہر تو سکتا ہے، انسانی آبادی اور معاشرہ کا نہیں۔ اور نسل پرستی سے پیدا ہونے والی برتری ثقافتی یلغار، اور حق کو اپنے تک محدود سمجھنے کی خوبصورت ترین شکل بھی فکری کم ظرفی اور طریقہ کار کی گمراہی کی علامت ہے ۔ یا پھر احساس کمتری کا اعتراف کہ ان کی تہذیب چونکہ انتہائی کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے، لہذا اس کو رواج دینے کیلئے سوائے قوت کے استعمال اور تصادم کے کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں۔

۔ تنازعات اور تصادم نفرت کی افزائش، قوموں کے درمیان دشمنیاں پیدا کرتی ہیں، خصوصاً مذہبی اور نسلی تنوع کے ریاستوں میں یہ پرامن بقائے باہمی اور قومی یگانگت کے راستہ میں رکاوٹ اور تشدد و دہشت گردی کیلئے خام مال فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

۔ اسلامو فوبیا اسلام کی حقیقت، اس کی ثقافتی تخلیق اور بلند ترین مقاصد سے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔ دین اسلام کو درست اور کماحقہ سمجھنے کیلئے جہاں اس کی بنیادی تعلیمات کے بارے غور فکر اور اس کے بارے پہلے سے تراشے گئے غلط خیالات سے جان چھڑانا لازمی ہے نہ کہ ان غلطیوں اور نا عاقبت اندیشیوں سے چمٹے رہنا جن کا ارتکاب خود کو اسلام کی طرف غلط طور پر منسوب کرنے والے خال خال افراد کی طرف سے کیا جاتا ہے۔

شخصی آزادی کو انسانی اقدار کو پائمال کرنے اور سماجی نظام کو تباہ کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ کیونکہ آزادی ایک امر ہے جبکہ لاقانونیت اور انار کی بالکل شخصی آزادیوں کو عوامی اخلاقی اقدار، دوسروں کی آزادی، دستور، ریاست، عوامی شعور اور معاشرتی تسکین کی حدود پر رکنا ہو گا۔

۔ اعلی اخلاقی اقدار کا قیام اور بلند سماجی طرز عمل کا فروغ، اسی طرح اسلامی اور انسانی مشترکہ تصورات کے مطابق اخلاقی ماحولیاتی اور خاندانی چیلنجوں کو حل کرنے میں تعاون، سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

۔ ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت ناقابل قبول ہے، خصوصاً معاشی اور دیگر عزائم کے لئے سیاسی تسلط کے طریقوں سے یا فرقہ وارانہ خیالات کی ترویج یا مقامی محل وقوع ، حالات اور خاص رسم ورواج پر فتوے نافذ کرنے کی کوشش کے لئے، مداخلت کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں، چاہے یہ کام جتنی بھی نیک نیتی سے کر لیا جائے۔ البتہ کسی باغی کی سرکوبی، یا مفسد سے نمٹنے کیلئے باقاعدہ رسمی درخواست دی جائے، سوائے کسی زیادتی کرنے والے باغی یا مفسد سے نمٹنے، تعمیر و ترقی، رفاہی عمل، یا کسی اور مصلحت کے لئے اس طرح کے فتاوی یا شخصی آزادیوں میں مداخلت کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

۔ عالمی سطح پر کامیاب ترقی کے تجربات، کرپشن کی تمام اقسام کی روک تھام، احتساب کے اصول پر مکمل شفافیت کے ساتھ عمل در آمد اور طرز صرف میں تبدیلی کے لئے جد و جہد، جو ترقی کے پروگراموں میں رکاوٹ اور صلاحیتوں اور ثروات کے ضیاع کا سبب ہیں، ایک مثالی نمونہ ہیں۔

۔ مسلم معاشرہ کی حفاظت بمع ان کے نصاب، اساتذہ اور متعلقہ لوازمات کے تعلیمی و تربیتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اور مؤثر پلیٹ فارمز خاص طور پر جمعہ کے خطبہ جات، سول سائٹی کے اداروں کی ذمہ داری ہے۔ وہ ان کے مذہبی جذبات کو شعور بخشیں۔ ان کا ہاتھ پکڑ کر راہ اعتدال اور معتدل تصورات کی طرف لائیں اور بڑھتے ہوئے سازشی نظریات اور مذہبی و ثقافتی تصادم، امت میں مایوسی کے بیج بونے اور دوسروں کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے سے روکا جائے۔

۔ انسانیت کے ناطے تمام مذہبی، نسلی اور ثقافتی اجزاء کے درمیان پُر امن بقائے باہمی کا حصول، اس کا تقاضا کرتا ہے کہ تمام عالمی رہنما اور بین الا قوامی ادارے باہم تعاون کریں اور سیاسی، اقتصادی یا انسانی امداد کے وقت مذہبی، نسلی یا دیگر کسی بنیاد پر ان میں فرق نہ کیا جائے۔

۔ جامع شہریت قومی تنوع کے لئے اسلامی انصاف کے اصولوں کا مظہر ہے۔ اس میں آئین اور قومی شعور کے متفقہ یا اکثریت والے نظام کا احترام کیا جانا چاہئے۔ اس میں جس طرح ریاست پر ذمہ داریاں ہیں اسی طرح شہریوں پر بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست کے ساتھ وفاداری، اس کے امن اور معاشرتی سلامتی اور مقدسات کے تقدس کا خیال رکھیں۔ یہ متبادل حقوق اورمنصفانہ حقوق کے اصول کے تناظر میں ہو اور اس میں دینی اور نسلی اقلیات شامل ہوں۔

۔۔۔ عبادت خانوں پر حملہ ایک مجرمانہ عمل ہے۔ اس کی روک تھام کے لئے قانون سازی اور مضبوط سیاسی اور سیکورٹی ضمانت مطلوب ہے۔اسی طرح انتہا پسند نظریات کو ہوا دینے والے اعمال کو روکنا ضروری ہے۔

۔۔۔ بھوک، غربت، بیماری، جہالت، نسلی امتیاز اور ماحولیاتی تباہی کے خلاف اقدام اور پروگراموں کا فروغ، تمام ذمہ داران کی پیجہتی پر منحصر ہے۔ چاہے وہ حکومتی ہوں یا قومی، نجی یا انسانی ہمدردی کے عمل، انسانی عظمت اور اس کے  حقوق کی حفاظت سے متعلقہ کارکنان ہوں۔

۔۔۔ حدود اللہ کے دائرے میں رہتے ہوئے خواتین کو بااختیار بنانا، اس کے حقوق میں سے ہے۔ مذہبی، علمی، سیاسی، سماجی یا دیگر امور میں اس کے کردار کو محدود کرنا، اس کی توہین کرنا، یا اس کی شان میں کمی کرنا، یا اس کے لئے رکاوٹ بننا درست نہیں ہے۔ خصوصاً کسی مستحق منصب کے حصول میں اسے امتیازی سلوک کا نشانہ نہ بنایا جائے، جیسا کہ تنخواہ اور مواقع میں مساوات یہ سب اس کے ماحول کے مطابق اور سب کے درمیان کار کردگی اور منصفانہ برابری کے معیار کے مطابق ہو۔ اور اس انصاف کے حصول میں رکاوٹ خواتین پر خصوصاً اور معاشرے پر عموماً ایک جرم ہے۔

۔۔۔ بچے کی صحت، تربیتی اور تعلیمی دیکھ بھال، خاندان کے ساتھ متعلقہ ممالک، اداروں اور قومی اور نجی کارپوریشنز کی اہم ذمہ داری ہے۔ خصوصاً اس کی پر محنت، جو اس کے ذہن کو وسعت اور اس کی صلاحیتوں میں اضافہ کرے۔ اس کی تخلیقی صلاحیتوں اور رابطہ میں مہارت اور انحراف سے اس کی حفاظت کرے۔

۔۔۔ مسلمان نوجوانوں کی شناخت کی اسکے پانچوں بنیادی ستونوں دین، وطن، کلچر، تاریخ اور زبان کے ساتھ مضبوط بنانا اور دانستہ یا نادانستہ طور پر ان چیزوں کو ضائع ہونے سے بچانا۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ نوجوانوں کو تہذیبی تصادم پر ابھارنے والے نظریات، مخالفین کے خلاف منفی جذبات، فکری انتہا پسندی، تشدد اور دہشت گردی سے بچایا جائے۔ اور نوجوانوں کو دوسروں کے ساتھ شعوری طور پر رابطہ کی مہارت جو اسلام کے وسیع افق اور اس کے دلوں کو جوڑنے کے آداب پر مبنی ہو کو مضبوط کرنا،

خاص طور پر رواداری اور پر امن بقائے باہمی اقدار کے ساتھ جو دوسرے کے وجود کو قبول کرے اور اس کی عزت اور حقوق کی رعایت رکھے اور جس سرزمین پر رہتا ہے ،انسانی خاندان کے تصورات کے ساتھ جن کے اصولوں کو اسلام نے قائم کیا ہے، تعاون اور فوائد کے تبادل کے ساتھ اس کے نظام کا خیال رکھے۔

۔ اس دستاویز کے ذرائع (اسلامی اقدام پر) ایک عالمی فورم کے قیام کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں جو نوجوانوں سے متعلق ہو۔ اس کے رابطہ پروگراموں کے ذیل میں اسلام کے اندر اور خارج میں نوجوانوں کے درمیان تعمیری مکالمہ ہو۔ اس میں نوجوانوں کا مباحثہ اور علمی وتربیتی ذوق کے ساتھ ان کے تمام اشکالات وضاحت اور مکمل صراحت کے ساتھ ہوں ۔ ان کی عمر اور جذبات کو سمجھتے ہوئے ایک متوازی خطاب کے ساتھ نوجوانوں کے ساتھ مکالمہ اور تبادلہ خیال ہے ہو۔

۔ تمام نظری تجاویز اقدامات اور پروگرامز اور ان کی رسمی علامات اور اس کے بے کار اخراجات سے تجاوز کر کے ٹھوس مثبت اثرات کے ذریعے جس میں سنجیدگی، ساکھ اور نظام کی قوت نمایاں ہو ، اسے اپنا یا جائے۔ خاص طور پر بین الا قوامی امن وسلامتی کے حوالے سے  اور اجتماعی قتل عام، نسل کشی، جبری ہجرت، انسانی اسمگلنگ اور غیر قانونی استقاط حمل کے طریقوں کی مذمت کی جائے۔امت مسلمہ ، اس کے دینی اور اس کے متعلقہ جملہ امور کے بارے میں صرف اس کے راسخ علماء ہی اجتماعی صورت میں۔ اس جیسے اجتماع میں۔ کسی فیصلے کے مجاز ہیں ۔ مفادِ عامہ کے لئے دینی اور انسانی امور میں، نسل پرستی، کسی مذہبی، نسلی یا رنگ کے امتیاز کے بغیر سب کی شرکت ضروری ہے۔