محمد معراج عالم / نئی دہلی
رضا لائبریری کا ذکر کیا، جسے وہ “کتابوں کا تاج محل” ہے، کیونکہ اس کی عمارت نواب حامد علی خان نے 1905ء میں فرانسیسی طرزِ تعمیر پر بنوائی تھی۔ اس میں آٹھ گنبد ہیں اور ہر گنبد پر چار مذہبی نقوش موجود ہیں، جن میں ایک مسجد بھی شامل ہے،جو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہیں۔
رامپور کی “رضا لائبریری” کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پُشکر مشرا نے ان خیالات کا اظہار کیا ،وہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ایک نشست میں خطاب کررہے تھے ،جو مرکزِ برائے عربی و افریقی مطالعہ میں رضا لائبریری، اس کی اہمیت، نادر مخطوطات اور قدیم کتب کے موضوع پر منعقد کی گئی تھی ۔
انہوں نے بتایا کہ رضا لائبریری کی بنیاد 1774 میں رکھی گئی تھی، جو وقت کے ساتھ ترقی کرتے ہوئے ایک عظیم علمی مرکز کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ یہاں بیس سے زائد زبانوں میں کتابیں اور مخطوطات محفوظ ہیں، جن میں تاریخ، موسیقی، طبِ یونانی، اسلامی فکر، فلسفہ اور ادب جیسے موضوعات شامل ہیں۔ 1975 میں حکومتِ ہند نے اسے قومی ورثہ قرار دیا، اور تب سے یہ ہندوستانی تہذیبی تنوع کی علامت ہے۔ ہر سال 7 اکتوبر کو اس کا یومِ تاسیس منایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر مشرا کے مطابق رضا لائبریری میں 5400 سے زیادہ عربی مخطوطات موجود ہیں، جبکہ فارسی، اردو، پشتو، تیلگو اور دیگر زبانوں کے مخطوطات بھی بڑی تعداد میں محفوظ ہیں۔ ان میں ایک نادر نسخۂ قرآن بھی شامل ہے، جو حضرت علی بن ابی طالبؓ کے دستِ خط سے منسوب ہے۔ اسی طرح منگول تاریخ کا ایک منفرد مخطوطہ بھی موجود ہے، جو دنیا میں صرف عراق کے ایک نسخے سے مشابہ ہے۔ فارسی میں سنسکرت سے ترجمہ شدہ “رامایانہ” بھی یہاں کا ایک قیمتی ذخیرہ ہے۔
انہوں نے “پنچ تنتر” کے فارسی ترجمے کا ذکر کیا، اور بتایا کہ رضا لائبریری میں نہایت نفیس خوشخطی اور اسلامی کیلیگرافی کے نمونے بھی محفوظ ہیں۔ مزید یہ کہ لائبریری میں عربی خطاطی کی تعلیم کے لیے ایک نیا کورس بھی شروع کیا جائے گا۔
ڈاکٹر مشرا نے مزید کہا کہ رضا لائبریری محض کتابوں کا ذخیرہ نہیں بلکہ ایک فکری، ثقافتی اور تہذیبی ادارہ ہے جو بھارت کے مذہبی، لسانی اور فکری تنوع کی نمائندگی کرتا ہے۔ دنیا میں تنازعات زبان، مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر جنم لیتے ہیں، اور رضا لائبریری اس کے برعکس ایک ایسا ماڈل پیش کرتی ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ مشترکہ علمی ورثہ انسانوں کو کس طرح متحد کر سکتا ہے۔

رام پور کی رضا لائبریری میں نادر نسخے
انہوں نے ایک نئے “مرکزِ ترجمہ” کے قیام کا اعلان بھی کیا، جہاں عربی، فارسی، اردو، ہندی اور سنسکرت زبانوں کے مابین تراجم کیے جائیں گے، اور اسکالرز کو وظائف فراہم کیے جائیں گے۔ مزید یہ کہ رضا لائبریری، جے این یو کے ساتھ دستخط کرے گی، جس کے نتیجے میں علمی و ثقافتی تبادلے کو فروغ ملے گا۔ ڈاکٹر مشرا نے کہا کہ جلد مخطوطات کے موضوع پر مہانہ ورکشاپس اور کانفرنسوں کا سلسلہ بھی دوبارہ شروع کیا جائے گا۔
ڈاکٹر مشرا نے جے این یو کی یادوں سے کیا اور کہا کہ یہ ادارہ ہر اُس شخص کے دل میں زندہ رہتا ہے جس نے یہاں سے علم حاصل کیا
اس سے قبل پروفیسر اشفاق احمد نے ڈاکٹر پُشکر مشرا کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ممتاز مفکر اور ماہرِ علمِ سماجیات ہیں۔ انہوں نے “آشرم” بھی قائم کیا، جو مذاہب کے درمیان پرامن بقائے باہمی کو فروغ دیتا ہے، اور علمی و عملی میدان میں ان کا کردار نہایت نمایاں ہے۔
پروفیسر رضوان الرحمن نے اپنے استقبالیہ خطاب میں مہمانِ خصوصی ڈاکٹر مشرا کا خیرمقدم کیا اور ان کے جے این یو سے تعلق پر خوشی کا اظہار کیا، جہاں سے انہوں نے مرکزِ برائے سماجیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ رضا لائبریری عربی و فارسی مخطوطات کے حوالے سے دنیا کے بڑے علمی مراکز میں سے ایک ہے، اور یہ نشست محققین اور ریسرچ اسکالرز کے لیے ایک نسنہرا موقع ہے کہ وہ اس کے قیمتی ذخائر سے واقف ہوں، جو مستقبل میں تحقیقی افق کو وسعت دے گا۔
جے این یو کے پروگرام میں پشکر مشرا اور دیگر
اجلاس کی صدارت اسکول آف لینگوئج، لٹریچر اینڈ کلچر اسٹڈیز کی ڈین پروفیسر شوبھا شنکر نے کی، جبکہ اس کو اورگنائز سابق صدرِ مرکز پروفیسر رضوان الرحمن نے کیا۔ اس نشست میں مرکز کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات نے بھرپور تعداد میں شرکت کی۔ پروفیسر شوبھا شنکر نے اپنے صدارتی خطاب میں رضا لائبریری کے کثیر لسانی و ثقافتی ورثے کو ہندوستانی ہم آہنگی کی شاندار مثال قرار دیا، اور امید ظاہر کی کہ جے این یو اور رضا لائبریری کے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ رضا لائبریری ادب، زبان اور فکر کے طلبہ کے لیے ایک عظیم سرمایہ ہے۔