نہرو کی ڈانٹ پھٹکار کے بعد تعمیر ہوا تھا جناح کا مقبرہ

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-11-2025
 نہرو کی ڈانٹ پھٹکار کے بعد تعمیر ہوا تھا جناح کا مقبرہ
نہرو کی ڈانٹ پھٹکار کے بعد تعمیر ہوا تھا جناح کا مقبرہ

 



منصور الدین فریدی/ نئی دہلی

 پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی موت سے مقبرے تک کی کہانی کسی ٹریجڈی سے کم نہیں رہی ہے،آج کراچی میں مزار قائد نامی سفید عمارت میں جناح کا مقبرہ ہے،لیکن اس عالیشان عمارت کی تعمیر کے پیچھے ایک درد ہے ،ذلت ہے شرمندگی ہے اور عبرت ہے ۔ بلکہ ایک ایسا تاریخی واقعہ پوشیدہ ہے، جس کا تعلق 1960 میں ہندوستان کے اُس وقت کے وزیرِاعظم جواہر لعل نہرو کے دورۂ پاکستان سے جڑا ہے۔جو کہیں نہ کہیں جناح کے مقبرے کی تعمیر کا راستہ ہموار کرگیا کیونکہ ان کے انتقال کے بارہ سال گزرنے کے باوجود قبر کچے علاقہ میں ایک شامیانہ کے نیچے تھی۔

دراصل  اُس زمانے میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) طے پا رہا تھا۔ نہرو معاہدے پر دستخط کے لیے کراچی گئے، جہاں قیام کے دوران انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ بانیٔ پاکستان،محمد علی جناح کی آخری آرام گاہ پر حاضری دینا  چاہتے ہیں ۔ بس یہیں سے شروع ہوتا ہے اس کہانی کا اغاز ۔جو ابتک تاریخ کے صفحات میں گم چکی تھی 

محمد علی جناح اور جواہر لعل نہرو ایک ساتھ 


جناح کا پرانا اور نیا مقبرہ


 پچھلے دنوں ایک پاکستانی دانشور کامل ایچ میاں کا ویڈیو وائرل ہوا ہے جس میں انہیں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ نہرو کی لتاڑ کے سبب ایوب خان نے راتوں رات قائد اعظم کہلانے والے محمد علی جنا ح کی قبر پر عظیم الشان مغبرے کی تعمیر شروع کرنے کا حکم دیا تھا۔ویڈیو کے مطابق دراصل 1960میں موجودہ عظیم الشان عمارت کی جگہ ایک خیمہ نصب تھا، کچی سڑک تھی، اور اطراف کا علاقہ قائد آباد کہلاتا تھا،جو غریب آبادی پر مشتمل تھا۔روایت کے مطابق، نہرو مزار پر گئے، چند لمحے خاموشی سے کھڑے رہے،۔ خراج عقیدت پیش کیا اور پھر خاموشی سے واپس اگئے۔

ویڈیو میں کامل میاں مزید کہتے ہیں کہ لیکن اگلے روز جب وہ صدر ایوب خان سے ملاقات کیلئے گئے تو انہوں نے افسوس کے لہجے میں کہا کہ میں جناح کے مزار پر گیا۔ وہ شخص جو اپنے سوٹ پر گرد کا ایک ذرّہ برداشت نہیں کرتا تھا اُسے آپ نے ایسی حالت میں چھوڑ رکھا ہے؟ میں نے یہ توقع نہیں کی تھی کہ آپ لوگ اپنے بانی کے ساتھ ایسا سلوک کریں گے- نہرو کے یہ جملے ایوب خان کیلئےباعثِ شرمندگی بن گئے۔ فوراً کابینہ کا اجلاس بلایا گیا، ایوب خان نے حکم دیا کہ مزار کو قائد کے شایانِ شان انداز میں تعمیر کیا جائے۔اسی فیصلے کے نتیجے میں مزارِ قائد کی تعمیر کے منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھایا گیا۔

1960 میں جواہر لعل نہرو کراچی میں پاکستانی صدر ایوب خان کے ساتھ


کراچی کی سڑکوں پر نہرو کے استقبال کا منظر


ویڈیو میں کامل میاں مزید کہتے ہیں کہ کراچی کے کمشنر ہاشم رضا  نے  محمد علی جناہ کا مقبرہ تعمیر کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا -۔ وہ اُس وقت سندھ کے کمشنر تھے ،مزار کے اصل خیال کے پیچھے ان کا ہی دماغ تھا۔ وہ بار بار حکومت کو کہتے رہے کہ "قائد کا مزار ایسی جگہ ہونا چاہیے جہاں سے پورا کراچی اُسے دیکھ سکاو، جیسے جناح پوری قوم پر نگاہ رکھ رہے ہوں۔لیکن بات کسی نے نہیں دنی۔ پھر جب نہرو کے تبصرے نے ایوب خان کو جھنجھوڑا، تب ہاشم رضا کی بات سنی گئی۔

 دراصل 1949 میں  جناح کے مقبرے کے لیے قائداعظم میموریل فنڈ  قائم کیا گیا تھا، جس کا کنٹرول  جناح کی بہن فاطمہ جناح کے ہاتھوں میں تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ  مقبرے کا ڈیزائن  ممبئی کے آرکی ٹیکٹ   یحیی مرچنٹ نے  تیار کیا تھا جو جناح کے دوست تھے ۔صدر ایوب خان نے 31 جولائی 1960 کو اس یادگار کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہی وقت تھا جب نہرو نے  پاکستان میں ہی صدر ایوب خان  کو ڈانٹ لگائی تھی کہ جناح کو مرنے کے بعد کس حال میں چھوڑ رکھا ہے ۔ اس کا افتتاح ایک اور صدر  یحییٰ خان نے 18 جنوری 1971 کو کیا تھا۔لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ مزار کے اطراف کے باغات 24 دسمبر 2000 تک مکمل نہیں ہوئے تھے۔

 ویڈیومیں کامل میاں کہتے ہیں کہ اگر نہرو نے ذلیل نہ کیا ہوتا تو یقینا جناح کی قبرآج بھی اسی حال میں پڑی ہوتی ۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ اگر نہرو 1960 میں کراچی کا دورہ نہ کیا ہوتا ، یا انہوں نے وہ تبصرہ نہ کیا ہوتا، تو شاید آج پاکستا ن مزار قائد کا وجود نہیں ہوتا۔سب ایسا ہی پڑا ہوتا ۔

دیکھئے ۔ آواز دی وائس کی خاص پیشکش 

 وائرل ویڈیو میں کامل میاں مزید  کہتے ہیں کہ جناح کی موت کے وقت  کراچی  کے میونسپل کمشنر سید ہاشم رضا  تھے ،جنہوں نے جناح کی آخری آرام گاہ کی تلاش میں محنت  کی تھی ۔مگر  تدفین کے بعد ان کی کسی نے نہیں سنی ۔یاد رہے کہ محمد علی جناح کو کراچی میں پرانی نمائش پر جس جگہ سپرد خاک کیا گیا وہ جگہ 144 ایکڑ رقبہ کا ایک ہموار قطعہ اراضی تھا،ایک رپورٹ کے مطابق اس رقبے پر ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ مہاجرین نے جھونپڑیاں ڈال رکھی تھیں۔ اس وقت کے صدرلیاقت علی خان نے  سید ہاشم رضا سے اس مسئلہ کو حل کرنے کو کہا ،جنہوں نے  لوگوں سے اپیل کی کہ یہ جگہ محمد علی جناح کی آخری آرام گاہ کے لیے خالی کر دی جائے ۔جس کے بعد  جناح  کو موجودہ جگہ پر سپرد خاک کیا گیا۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ ستمبر 1948ء سے فروری 1960ء تک جناح  کا مزار شامیانے تلے رہا۔