میرا گاوں میرا دیس۔۔۔ نذراسلام نظمی کا شہر چھوڑ کر گاؤں میں دنیا بسانے کا خواب

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 07-02-2024
  میرا گاوں میرا دیس۔۔۔ نذرا سلام  نظمی کا شہر چھوڑ کر گاؤں میں دنیا بسانے کا خواب
میرا گاوں میرا دیس۔۔۔ نذرا سلام نظمی کا شہر چھوڑ کر گاؤں میں دنیا بسانے کا خواب

 

محفوظ عالم ۔ پٹنہ 

نذراسلام نظمی ۔۔ ایک ایسا نام جو دولت اور شہرت کمانے کے لیے گاؤں سے شہر نہیں گیا بلکہ ایک نئی دنیا بسانے کے لیے شہر سے گاؤں آگیا۔ جی ہاں! آپ نے ابتک دیہی ہندوستان سے شہروں کا رخ کرنے والوں کا سیلاب دیکھا ہے ،اس کے لیے حکومتوں کو پریشان دیکھا ہے لیکن ایسی بہت کم مثالیں ملتی ہیں جب کوئی نوجوان شہر کی چمک دمک اور امکانات کی دلدل کو خیر باد کہہ کر اپنے گاؤں میں بسا ہو۔اس کا ایک خواب ہو کہ گاؤں کے بچوں کو مناسب تعلیم کا انتظام کیا جائے،گاؤں میں ہی ایک دنیا بسائی جائے تاکہ لوگ آہستہ آہستہ ہی سہی لیکن شہروں کو آخری منزل ماننا ختم کردیں ۔ نذر اسلام نظمی نے جو بیڑا اٹھایا ہے ،اسے جاننا اور سمجھنا ہر کسی کے لیے ضروری ہے ۔دراصل بہار کے ویشالی ضلع میں چین پور گاؤں کے رہنے والے نذر اسلام نظمی کولکتہ کے محمد جان ہائی اسکول کے طالب علم رہے ،اس کے بعد مولانا آزاد کالج سے گریجویشن کیا۔ جامعہ ہمدرد یونیورسٹی میں تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ یہی نہیں نذر اسلام نظمی نے ادبی صحافت بھی کی ۔کولکتہ سے ادبی رسالہ‘رابطہ’ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات انجام دیں۔ جس کے مظہر امام نمبر، اعزاز افضل نمبر، علی میاں نمبر وغیرہ بہت مقبول ہوئے تھے۔

سوپر30 اور رحمانی 30 کے کونسیپٹ پر بنا دیا اسکول

نذر اسلام نظمی نے گاؤں میں تعلیمی بیداری لانے کی مہم شروع کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے بچوں کے لئے ایک اسکول قائم کیا جس کا نام کیڈس گارڈین اسکول ہے۔ سوپر 30 اور رحمانی 30 سے متاثر ہو کر اپنے اسکول میں 30 بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ کلاس نرسری سے دوسری تک کی اسکول میں پڑھائی ہوتی ہے۔ اس کام میں ان کی اہلیہ کا بھی ساتھ حاصل ہے۔ نذر اسلام نظمی کا کہنا ہے کہ یہ ابھی ایک شروعات ہے جس میں کچھ بچوں سے پیسہ لیا جاتا ہے اور کچھ کو مفت تعلیم دینے کا انتظام کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تعلیم، بھائی چارہ و خیر سگالی ایسی چیزیں ہیں جس کے سبب کوئی سماج مہذب بنتا ہے اور ترقی کرتا ہے، گاؤں کے جو لوگ باہر جا کر ملازمت کر رہے ہیں ان کو اپنی مٹی اور یہاں کے رہنے اور پیچھے چھوٹ جانے والے لوگوں کو فراموش نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنی سطح پر گاؤں کی ترقی کے لئے بھی کام کرنا چاہئے۔

awazurduچین پور ویشالی میں نذراسلام نظمی کے اسکول کے بچے 


awazurduیوم جمہوریہ کے موقع پر پر اسکول کے بچوں کی دعوت


  awazurdu

   شہر میں رہ کر گاؤں کا خواب  ۔۔۔ ایک مثال 


    ترقی یافتہ قوموں نے تعلیم کو بنایا اپنا ہتھیار

نذر اسلام نظمی سماج کے سبھی طبقہ کے لئے کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دلت، پچھڑے اور اقلیتی سماج تعلیم میں کافی کمزور ہے اس تعلق سے مزید طاقت کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مختلف اقلیتی تنظیموں کا اصرار ہوتا ہیکہ وہ صدر اور سکریٹری بن کر ہمارے ساتھ کام کریں لیکن میں کسی تنظیم میں شامل نہیں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ سبھی کے ساتھ مل کر ہم کام کرنا چاہتے ہیں۔ نذر اسلام نظمی نے بلخصوص اقلیتی سماج کے متعلق کہا کی اقلیتوں کے لئے ابھی سب سے زیادہ اور اہم کام یہ ہیکہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم سے جوڑے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں سب سے کم آبادی یہودیوں کی ہے لیکن انہوں نے تعلیم پر توجہ دی تو آج تعلیم کے معاملے میں وہ سب سے آگے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کی رہنمائی بغیر تعلیم کے ممکن نہیں ہے۔ سماج کا مقدر تبھی بدل سکتا ہے جب وہ تعلیم کو ہی اپنا سب کچھ بنائے۔ اس سمت میں سب سے پہلے تو یہ غور و فکر کرنا ہوگا کہ بچیں اسکول جائیں اور انہیں معیاری تعلیم حاصل کرنے کا موقع دستیاب ہو، اس سلسلے میں سماج کو پہل کرنا چاہئے۔ انکا کہنا ہے کہ ہم لوگ اپنے ضلع میں اور خاص طور سے اپنے گاؤں میں اس کی کوشش کر رہے ہیں۔ نذر اسلام نظمی کے مطابق گاؤں میں سہولتیں بڑھ گئی ہے، اب سڑکیں اچھی ہے، کہیں بھی اور کبھی بھی آسانی سے لوگ آ جا سکتے ہیں، بجلی کا بھی مسئلہ نہیں ہے، ایسے میں گاؤں کو تجارت سے بھی جوڑنا چاہئے اور تعلیم سے بھی۔

بچوں کے لئے معیاری ابتدائی تعلیم

انکا کہنا ہے کہ وہ اسکول اس اعتبار سے یونیک ہے کہ نرسری سے کلاس 2 تک پڑھائی ہوتی ہے اور ہر کلاس میں 6 بچہ ہوتے ہیں اور ان پانچ کلاسیز میں کل 30 بچیں ہیں جو پڑھائی کر رہے ہیں۔ سوپر 30 اور رحمانی 30 کے طریقے کار کو نافذ کیاگیا ہے، حالانکہ رحمانی 30 میں آئی آئی ٹی اور بڑے کمپٹیشن کی تیاری کرائی جاتی ہے لیکن اسی ترز عمل کو اختیار کرتے ہوئے ہم لوگوں نے بچوں کو ابتدائی تعلیم دینے کا منفردہ انتظام کیا ہے۔ بچوں کو سی بی ایس سی کے نساب کے مطابق پڑھایا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کی فیل حال 30 بچوں کا تصور لیکر چل رہے ہیں، اس کے علاوہ ہمارے آس پاس کے گاؤں کے بچوں میں تعلیمی بیدار کے لئے ہم لوگ کام کر رہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ 2018 سے ہم یہ کام کر رہے ہیں اور امید ہے کہ اسکول سے اور اپنی تعلیم کی اس مہم سے بڑی تعداد میں گاؤں کے لوگوں کو فائدہ پہنچانے میں کامیاب ہونگے۔ انہوں نے بتایا کی سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے لئے ہم لوگوں نے الگ سے عابد حسین ٹیوٹوریل کے نام سے ایک کوچنگ قائم کیا ہے جہاں شام میں بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ ان کے مطابق ابتدائی تعلیم کسی بچہ کو صحیح طریقہ سے حاصل ہو جائے تو آگے کا راستہ اس کے لئے کافی آسان ہو جاتا ہے۔ اسلئے ہم لوگ بچوں کی پڑھائی پر سنجیدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کی کوچنگ میں طلباء کو جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی اور نوودیا ودیالیہ میں داخلہ کی تیاری بھی کرائی جاتی ہے۔

awazurduبچوں میں  قومی پرچم اور ترانے  کے تئیں احترام اور جذبہ پیش کرنے کی پہل


awazurduیوم جمہوریہ کے موقع پر ومی جذبے سے سرشار بچے


awazurduویشالی کے چین پور میں کڈ گارڈن اسکول کا ایک منظر


گاؤں سے ہجرت کیوں کرتے ہیں لوگ

نذر اسلام نظمی کا کہنا ہے کہ عام طور پر لوگ گاؤں کو دو وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں، ایک تو روزگار اور دوسرا بچوں کی تعلیم، اگر گاؤں میں تعلیم کا صحیح طور سے انتظام کیا جائے تو بچوں کو اور گاؤں والوں کو آسانی ہوگی، انہیں معیاری تعلیم اپنے گھر میں ہی حاصل ہو جائے گی۔ وہ تعلیم حاصل کریں گے تو روزگار کے مواقع بھی مستقبل میں بنائے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کی میں نے یہ سونچا کہ جو ہمارا گاؤں ہے اور ہم نے جو تعلیم حاصل کی ہے اس کا کچھ فائدہ اور کچھ حصہ ہمارے سماج کو ملنا چاہئے، اسلئے ہم نے یہاں پر ایک اسکول کھولا اور اسکول میں کمر شیل پہلو کے ساتھ ساتھ چیریٹیبل اسکیم بھی رکھا تاکہ بچوں کو فائدہ ہو سکے۔ نذر اسلام نظمی کا کہنا ہے کہ میں نے دیکھا کی لوگ آخر گاؤں چھوڑ کر باہر کیوں جاتے ہیں، میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ایک تو گاؤں اور دیہی علاقوں میں بچوں کی پڑھائی اور اس میں بھی معیاری تعلیم کا سوال بنا رہتا ہے۔ صاحب حیثیت جو لوگ ہیں وہ بچوں کی پڑھائی کے لئے شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ خواتین جن کے خاوند گاؤں سے باہر کام کرتے ہیں وہ عام طور پر وہاں رہنا نہیں چاہتی ہیں وہ سماجی بندشوں سے آزاد ہو کر شہروں میں رہ رہی ہیں۔ میرا ماننا یہ ہیکہ گاؤں میں بھی مواقع بنائے جا سکتے ہیں، سڑکیں اور بجلی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، اب ایک سوال رہ جاتا ہے تعلیم کا، اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے لوگوں کو کچھ قربانی دینی پڑے گی اور وہ قربانی یہ ہے کہ وہ تعلیم کو عام کرنے کے لئے اپنی سطح سے کوشش کریں اور لوگوں میں تعلیم حاصل کرنے اور کرانے کا ماحول بنایا جائے اور پیدا کیا جائے۔ انہوں نے کہا کی اگر ایسا ممکن ہو گیا تو دیہی علاقوں کی صورت حال کو کافی حد تک بدلا جا سکے گا۔

بلا تفریق مذہب و ملت کام کرنے کی ضرورت

نذر اسلام نظمی کا کہنا ہے کہ اقلیتی سماج بلخصوص مسلمانوں کا ایک نیچر بن گیا ہے شکایت کرنے کا، اگر ان کا کوئی کام نہیں ہوا تو وہ شکایت کرتے ہیں، میرا کہنا یہ ہیکہ انہیں ابھی سب کچھ چھوڑ کر تعلیم اور صرف تعلیم کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں جو ترقی یافتہ قومیں ہیں ان کی ترقی کا راز ہی یہی ہیکہ انہوں نے تعلیم پر توجہ دی ہے اور اس کے لئے بیحد سنجیدہ رہے ہیں، حالات سے ہمیشہ باخبر رہے اور اس کے حصول کی انہوں نے پوری کوشش کی۔ میرا صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ دلت اور کمزور طبقات سے بھی یہی کہنا ہے کہ وہ تعلیم کو ہی اپنا سب کچھ مانے تاکہ ان کی سماجی حالت بدل سکے۔ بجائے اس کے کہ شکایت کریں اس بات کی کوشش ایمانداری سے ہونی چاہئے کہ آپ خود کیا کر رہے ہیں اور اپنی حالت کو اور اپنے سماج کی حالت کو بدلنے کے لئے آپ کی کیا کارکردگی ہے اور آپ اس کو لیکر کتنا سنجیدہ ہیں۔ یہ ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔ ہم نے بچوں کے لئے اسکول قائم کیا ہے لیکن دیہی علاقوں میں لوگوں کو یہ بتانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے مسئلہ کو خود حل کرنے کے لئے جدوجہد کریں۔ سماج میں اتحاد و بھائی چارے کو قائم کریں اور سماجی سطح پر اس بات کی کوشش مسلسل کی جائے تاکہ ہم اس نشانہ کو حاصل کر سکے۔ جہاں ہر بچہ تعلیم یافتہ ہو اور بلا تفریق مذہب و ملت ہر سماج ترقی کرتا نظر آئے۔

awazurduیاد ماضی ۔۔۔ سابق وزیر اعظم آئی کے گجرال  کے ساتھ نذراسلام نظمی راجدھانی کے ایک فنکشن میں  


awazurduمولانا ابو الحسن ندوی  پر ’رابطہ’ کے خصوصی شمارے کا اجرا کرتے ہوئے سید شاہد مہدی ،جامعہ ہمدرد کے وائس چانسلر سید حامد اور پروفیسر اختر الواسع


گاؤں کے قدرتی مناظر

نذر اسلام نظمی کا کہنا ہے کہ لوگ گاؤں کے قدرتی مناظر کو چھوڑ کر مصنوعی دنیا کا حصہ بن جاتے ہیں، انسان کو روٹی کی مجبوریاں ہیں اس بات سے انکار نہیں ہے لیکن وہ وسائل یہاں بھی بنائے جا سکتے ہیں اس بات کی کوشش ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کی میرا تعلق ادبی صحافت سے رہا ہے، شیر و شاعری کا بھی شوق ہے لیکن میں نے گاؤں کو ہی اپنا مشن بنایا ہے، قوم کے بچوں میں تعلیمی بیداری آ جائے، اس تعلق سے مختلف تنظیموں کے ساتھ مل کر ہم کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کی گاؤں ترقی کرے گا تبھی ملک ترقی کرے گا۔ حکومت کو جو کرنا ہے وہ حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن جو سماج کو کرنا ہے اور سماج میں وہ طاقت ہے کہ وہ اپنے حالات اور اپنے مسئلہ کو خود حل کر سکتی ہے تو اسے وہ کرنا چاہئے۔

  صنعتی انقلاب کے بعد گاؤں کے لوگ شہروں کا رخ کرنے لگے، نتیجہ کے طور پر گاؤں اجڑ تے گیے اور شہر بستے گیے لیکن ان میں کئی لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے بڑے شہروں میں اپنی تعلیم مکمل کی اور اپنے تجربات اور علمی صلاحیت سے گاؤں کے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے گاؤں کو ہی اپنا مسکن بنایا۔ انہی میں سے ایک نذر اسلام نظمی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کی اصل خوشبو دیہی علاقوں میں محسوس کی جاتی ہے۔ گاؤں میں ہی بھارت بستا ہے اور اس ملک کی وہ عظیم وراثت جسے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور خیر سگالی کہا جاتا ہے وہ یہیں پروان چڑھتی ہے۔ یہی وجہ ہیکہ گاؤں کے لوگوں میں بھید بھاؤ کی جگہ رواداری اور بھائی چارے کی وہ قدیم روایت آج بھی زندہ ہے اور ترقی کر رہی ہے۔نذر اسلام نظمی کا مشن بھی ملک کی ترقی کے لیے ،،گاؤں کے کمزور  طبقے کے لیے ہے،ان بچوں کے لیے ہے جو گاؤں میں رہ کر بنیادی تعلیم سے ہی محروم رہ جاتے ہیں ۔ یقینا یہ سفر ابھی شروع ہوا ہے ،جس میں جدوجہد ہے،محنت ہے لیکن سب سے اہم جذبہ ہے جسے ہندوستان کرتا ہے سلام ۔

awazurduویشالی ضلع انتظامیہ کے پروگرام میں نذر اسلام نظمی


awazurdu

نذراسلام نظمی کی زندگی کا سفر ۔۔۔ تعلیم سے تعلیم تک