"مدارس کی تعلیم: چیلنجز اور امکانات کا جائزہ"

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 22-11-2024
"مدارس کی تعلیم: چیلنجز اور امکانات کا جائزہ"

 

ڈاکٹر شبانہ رضوی 

اسلام میں ابتدا سے ہی تعلیم کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے، اور مدارس کا تصور اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے سامنے آیا۔ "مدرسہ" لفظی طور پر تعلیم و تربیت کا مقام ہے، نہ کہ صرف دینی تعلیم کا مرکز۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اماموں کے زمانے میں مدارس نہ صرف دینی بلکہ دنیوی علوم کے لیے بھی مراکز تھے، جہاں قرآن، فقہ، اخلاقیات کے ساتھ ساتھ ریاضی، طب، اور فلسفہ جیسے علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ ان مدارس کا مقصد انسان کو متوازن اور ہمہ جہت شخصیت بنانا تھا، تاکہ وہ دین اور دنیا دونوں کے معاملات میں بہترین انداز میں کامیاب ہو سکے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ان قدیم درسگاہوں سے کئی عظیم مسلمان سائنس دان اور ماہرینِ ریاضی پیدا ہوئے۔ مثلاً، الخوارزمی، جنہیں الجبرا کا بانی سمجھا جاتا ہے، ابن سینا، جو طب کے میدان میں اپنی کتاب "القانون فی الطب" کے ذریعے مشہور ہوئے، اور البیرونی، جنہوں نے فلکیات اور جیولوجی میں غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ یہ سب انہی تعلیمی اداروں کی دین تھے، جہاں علم کو کسی ایک میدان تک محدود نہیں کیا گیا بلکہ ہر شعبے میں مہارت حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔

"مدارس کے زوال کی ایک وجہ یہ تھی کہ انہیں صرف دینی تعلیم تک محدود کر دیا گیا، حالانکہ اسلام نے کبھی نہیں کہا کہ علم کا مقصد صرف دین ہو۔" قرآن مجید میں ارشاد ہے

(دین کے ذریعے دنیا میں داخل ہو۔۔ (البقرہ 2:208

 جس سے واضح ہے کہ دین اور دنیا دونوں میں توازن ضروری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتے ہوئے فرمایا

"میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔"

 یہاں شہر لفظ  وسعت اور گہرائی کے معنی میں استعمال ہواہے، یعنی تمام علوم کا ایک جگہ جمع ہو جانا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"علم حاصل کرو گہوارے سے لے کر قبر تک۔"

 اس لیے علمِ دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلنا ہی مدارس کا اصل مقصد ہونا چاہیے۔ تاکہ طلبہ متوازن اور کامیاب زندگی گزار سکے۔

مدرسہ تعلیم کی ابتدا

مدارس کا نظام تعلیم اسلامی تاریخ کا اہم حصہ رہا ہے۔سب سے پہلا اسلامی مدرسہ "صفہ" کے نام سے مدینہ منورہ میں قائم ہوا جو مسجد نبوی کے ساتھ ہی ایک چبوترے پر واقع تھا۔

ہندوستان میں مدارس کا آغاز

ہندوستان میں پہلا مدرسہ "مدرسہ نظامیہ" کے نام سے آٹھویں صدی میں قائم ہوا۔ مغلیہ دور میں تعلیم کو فروغ دینے کے لئے مزید مدارس قائم کیے گئے، جیسے مدرسہ عالیہ کلکتہ (1780ء).آج بھارت میں مدارس کی کُل تعداد سرکاری اور غیر سرکاری مدارس کو ملا کر تقریباً 2 لاکھ تک بتائی جاتی ہے۔ ان میں سے تقریباً 25,000 مدارس ایسے ہیں جو سرکاری طور پر رجسٹرڈ ہیں اور حکومتی ریکارڈ میں شامل ہیں۔

 سپریم کورٹ نے حالیہ فیصلے میں مدارس کی "فاضل" اور "کامل" ڈگریوں کو باضابطہ طور پر مسترد کر دیا ہے، یعنی یہ ڈگریاں اب کسی سرکاری یا تعلیمی ادارے کی طرف سے اعلیٰ تعلیم کے مساوی نہیں سمجھی جائیں گی۔ وجوہات

غلط ڈگری کا اجراء

کورس کی منظوری کا نہ ہونا

عالم فاضل ٹائٹل کا غلط استعمال

قانونی اور تعلیمی تضادات

سپریم کورٹ کےاس فیصلے کے بعد مدارس کو ہوش میں آ جانا چاہئے کہ وہ اپنے طلبہ کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کے مواقع فراہم کریں تاکہ وہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر مقابلے کے اہل ہو سکیں۔

اب، آئیے مدارس کے موجودہ نصاب پر غور کریں اور دیکھیں کہ ان میں کن علوم کی تعلیم دی جاتی ہے اور مزید بہتری کی گنجائش کہاں ہے۔

مدرسہ تعلیمی نظام

مدارس میں تعلیمی نظام عام اسکولوں سے مختلف ہوتا ہے۔ عام اسکولوں میں تعلیم کو پرائمری، سیکنڈری، اور سینئر سیکنڈری سطح پر تقسیم کیا جاتا ہے، جب کہ مدرسہ بورڈ کے تحت مدارس کو تحتانیہ، فوقانیہ اور عالیہ سطح پر تقسیم کیا جاتا ہے۔

تحتانیہ: پرائمری سطح

فوقانیہ: جونیئر ہائی اسکول سطح

عالیہ: اس سے آگے کی تعلیم۔

عالیہ سطح پر منشی، مولوی، عالم، کامل، فاضل کی ڈگریاں دی جاتی ہیں۔ ان میں منشی اور مولوی کی ڈگریاں دسویں اور بارہویں کے مساوی سمجھی جاتی ہیں، جب کہ کامل اور فاضل گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کے برابر ہوتے تھے۔

مدارس میں پڑھائے جانے والے مضامین

منشی (دسویں): تھیالوجی، عربی ادب، فارسی ادب، اردو ادب، عمومی انگریزی، عمومی ہندی وغیرہ

عالم (بارہویں): تھیالوجی، گھریلو سائنس، فلسفہ، عمومی مطالعہ، سائنس، عربی ادب، فارسی ادب، اردو ادب، عمومی انگریزی

کامل (گریجویٹ): حدیث کا مطالعہ، فقہ اسلامی (سنی/شیعہ)، عربی اور فارسی ادب، جدید عربی اور فارسی ادب کی تاریخ، اور ترجمہ نگاری جیسے موضوعات۔

اس نصاب میں فرق ہو سکتا ہے، لیکن یہ عام طور پر مدارس کی تعلیم کا ایک عمومی خاکہ ہے۔ ہر مدرسہ اپنے نصاب کو اپنی ضرورت اور علاقے کے مطابق ترتیب دیتا ہے۔

ہندوستان کے چند معروف مدارس، جیسے دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء لکھنؤ اور جامعہ سلفیہ، ایک جامع اور وسیع نصاب کی بنیاد پر اسلامی علوم کے علاوہ دیگر عصری علوم بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ مدارس اپنے خاص نصاب کی وجہ سے معروف ہیں، اور ان میں روایتی دینی علوم کے ساتھ جدید تعلیم کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

 جدید مضامین جو آج کل مدارس میں شامل ہیں  ))

اردو: اردو ادب، شاعری اور ادبی طریقے۔

انگلش: انگریزی گرامر، ترجمہ اور فہم۔

ریاضی: بنیادی اور اعلیٰ ریاضی، جس میں الجبرا اور جیومیٹری شامل ہیں۔

سائنس: بنیادی سائنسی مضامین، بشمول طبیعیات، کیمیا اور حیاتیات۔

سماجی علوم: جغرافیہ، تاریخ، شہریت اور سیاسیات۔

کمپیوٹر سائنس: کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کا بنیادی علم۔

عام معلومات: حالاتِ حاضرہ اور عالمی مسائل کا مطالعہ۔

دارالعلوم ایک مثالی تعلیمی ادارہ بن کر ابھرا ہے، جو اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم کی طرف بھی قدم بڑھا رہا ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف دینی تعلیم فراہم کر رہا ہے بلکہ انگریزی اور گجراتی میڈیم اسکول بھی چلا رہا ہے، جس سے طلباء کو دنیاوی تعلیم کا بہترین موقع مل رہا ہے۔ اس کے علاوہ، دارالعلوم میں ٹیلرنگ، کمپیوٹر، اور دیگر تکنیکی مہارتوں کی تربیت دی جا رہی ہے، تاکہ طلباء کو روزگار کے بہتر مواقع مل سکیں اور وہ خود کفیل بن سکیں۔ اس جدید اور متوازن نصاب کی بدولت، دارالعلوم طلباء کی شخصیت سازی اور تعلیمی معیار میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔

مدرسہ بورڈ کے نصاب کی کمیاں

اگرچہ مدارس اسلامی علوم میں گہری مہارت فراہم کرتے ہیں، تاہم موجودہ دور کی ضروریات کے پیش نظر ان کے نصاب میں چند اہم خامیاں دیکھی جا سکتی ہیں

جدید علوم کی کمی

 تحقیقی اور تنقیدی سوچ کا فقدان

معاشرتی علوم کی کمی

معاشی تعلیم اور فنی مہارتوں کا فقدان

جدید تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی

نصاب کی اپڈیٹ نہ ہونا

پورے بھارت کے مدارس کو ایک ہی بورڈ کنٹرول نہیں کرتا اور نہ ہی ان سب کا نصاب ایک جیسا ہوتا ہے۔ بھارت میں مدارس مختلف بورڈز کے تحت کام کرتے ہیں، اور ان کا نصاب اور تدریسی طریقہ کار بھی مختلف ہوتا ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مدارس کے لیے ایک مرکزی یا قومی سطح کا کوئی سرکاری بورڈ نہیں ہے جو پورے ملک کے مدارس کو کنٹرول کرے۔

یکساں نصاب کی عدم موجودگی

بھارت میں مدارس کا نصاب مختلف بورڈز اور تنظیمات کے تحت تیار ہوتا ہے، اور اس کی کوئی قومی سطح پر یکسانیت نہیں ہے۔ کچھ ادارے کوشش کر رہے ہیں کہ مدارس کے نصاب میں عصری مضامین شامل کیے جائیں، لیکن مدارس کی خود مختاری اور مسلکی بنیادوں پر مختلف ہونے کی وجہ سے نصاب میں ایک جیسی ہم آہنگی پیدا کرنا مشکل ہے۔

نصاب میں فرق

مدارس کے نصاب میں فرق ان کے مسلک، علاقائی خصوصیات اور مخصوص بورڈز کی پالیسیوں کے تحت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر

دیوبندی مدارس عام طور پر حنفی فقہ اور حدیث کی تعلیم کو اہمیت دیتے ہیں۔

بریلوی مدارس میں اسلامی عقائد اور دیگر موضوعات کو بریلوی فکر کے مطابق پڑھایا جاتا ہے۔

شیعہ مدارس کا نصاب جعفری فقہ اور اہل بیت کی تعلیمات پر مبنی ہوتا ہے۔

جدید مضامین کی تعلیم بعض بڑے مدارس میں شامل کی گئی ہے، لیکن تمام مدارس میں نہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ بھارت کے تمام مدارس کا نصاب ایک جیسا نہیں ہے، اور مختلف مدارس اپنے اپنے مسلک اور علاقائی تقاضوں کے تحت مختلف بورڈز سے منسلک ہیں، جو ان کے نصاب کو تیار کرتے ہیں۔

مدارس کی تعلیم میں اصلاح کے لئے ایک قانونی ڈھانچہ اور الحاق کا نظام

مدارس کی تعلیم کو جدید تعلیمی نظام کے ساتھ ضم کرنے کے لیے ایک قانونی فریم ورک اور الحاقی ڈھانچہ تیار کیا جا سکتا ہے، جس سے طلبہ کو بہتر تعلیم اور تربیت فراہم ہو سکے۔ اس کے لئے چند اہم تجاویز درج ذیل ہیں

الحاق اور منظوری کا نظام

مرکزی الحاق: مدارس کو ایک مرکزی باڈی کے ذریعے الحاق دیا جائے جو تعلیمی معیار کو یقینی بنائے۔ یہ نظام ریاستی تعلیمی بورڈز یا قومی تعلیمی اداروں کے تحت ہو سکتا ہے۔

 معیاری نصاب: مدارس کو قومی تعلیمی بورڈز (جیسے سی بی ایس سی  یا ریاستی بورڈز) سے منسلک کرنے سے ان کا نصاب جدید مضامین اور اسلامی تعلیمات کے درمیان توازن پیدا کرے گا۔

منظوری: مدارس کو منظور شدہ اداروں کے طور پر قائم کرنا تاکہ ان کا نصاب اور سہولتیں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہوں۔

قانونی ڈھانچہ اور نگران ادارہ

نگرانی کا ادارہ: ایک ایسی اتھارٹی قائم کی جائے جو مدارس کے تعلیمی معیار کو برقرار رکھے۔

قانونی حیثیت: مدارس کو ایک قانونی حیثیت دی جائے تاکہ انہیں حکومتی امداد مل سکے۔

جواب دہی کا فریم ورک: مدارس کو ایک جوابدہ فریم ورک کے ذریعے مانیٹر کیا جائے جس میں باقاعدہ معائنہ شامل ہو۔

مدرسہ ایجوکیشن میں حکومت کی شمولیت 

مدرسہ ایجوکیشن میں حکومت کی شمولیت کے فائدے اور نقصانات دونوں بیان کئے جاتے ہیں ۔ یہ شمولیت ریگولیشن، نگرانی، فنڈنگ، اور نصاب کے انضمام کے لیے ہو سکتی ہے۔

فائدے 

تعلیمی معیار میں بہتری

حکومت کی شمولیت سے مدرسوں کے نصاب کو معیاری بنایا جا سکتا ہے اور اسے جدید تعلیمی معیار کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔ مدرسوں کو سی بی ایس ای یا کسی دوسرے بورڈ سے منسلک کیا جا سکتا ہے، جس سے ان کی تعلیمی کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔

فنڈنگ اور انفراسٹرکچر کی ترقی

حکومت کی مالی معاونت سے مدرسوں کی انفراسٹرکچر جیسے کہ لائبریریاں، کمپیوٹر لیبز، اور سائنس لیبز کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے مدرسوں کو بہتر سہولیات اور وسائل ملیں گے جو طلبہ کی مجموعی ترقی میں معاون ثابت ہوں گے۔

اساتذہ کی تربیت اور پروفیشنل ڈویلپمنٹ

حکومت کی شمولیت اساتذہ کو باقاعدہ تربیت اور پروفیشنل ڈویلپمنٹ پروگرامز فراہم کرنے میں مددگار ہو سکتی ہے۔ اس سے اساتذہ کو جدید تدریسی طریقے، تدریسی تربیت، اور مضمون کی مہارتیں سکھائی جا سکتی ہیں۔

سماجی شمولیت اور مساوی مواقع

حکومت کی معاونت سے مدرسوں میں پسماندہ کمیونٹی کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کی جا سکتی ہے۔ یہ سماجی شمولیت اور مساوات کو فروغ دے گا اور امتیازی سلوک کو کم کرے گا۔

.احتساب اور شفافیت

حکومت کا مانیٹرنگ سسٹم مدرسوں میں احتساب کو یقینی بنا سکتا ہے۔ باقاعدہ معائنہ، آڈٹ، اور تشخیص کے ذریعے مدرسوں کے تعلیمی معیار کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں مدارس کو خدشہ ہے کہ سرکاری شمولیت مدرسوں کی خودمختاری اور آزادی کو محدود کر سکتی ہے۔ مدرسے اپنے نصاب اور تدریسی طریقوں میں لچک کھو سکتے ہیں، جس سے ان کی اسلامی شناخت اور روایتی اقدار کو برقرار رکھنے میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔مگر ان سب کو دور کرنے کے لیے  حکومت کے ساتھ بات چیت یا مشاورت کے دروازے کھلے ہیں

تبدیلی کے خلاف مزاحمت

مدرسوں میں روایتی سوچ اور تبدیلی کے خلاف مزاحمت پائی جا تی ہے، جو حکومت کے اصلاحات کو چیلنج کر تی ہے۔ اگر مدرسہ انتظامیہ اور مقامی کمیونٹیز کو لگتا ہے کہ حکومت کی مداخلت ان کی روایتی روایات کو نقصان پہنچا رہی ہے، تو ان کا مخالف ردعمل ہو سکتا ہے۔

حکومت پر انحصار میں اضافہ

حکومت کی مالی معاونت پر مدرسوں کا انحصار بڑھ سکتا ہے۔ اگر حکومت اپنے فنڈنگ کے وعدوں کو پورا نہیں کرتی، تو مدرسے کو مالی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ ان کی مجموعی کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے۔

مدارس کی تعلیمی تاریخ اور موجودہ نظام میں کئی اہم پہلو ہیں جن پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ مدارس نے اسلامی تعلیمات کے حوالے سے ایک اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن موجودہ دور میں انہیں عصری تعلیم کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ضروری ہے۔ جدید سائنسی، ٹیکنالوجیکل اور معاشی مضامین کا اضافہ مدارس کی تعلیم کو مزید متوازن اور مفید بنا سکتا ہے۔ اس کے لیے ایک مرکزی یا قومی سطح پر معیاری نصاب اور جدید تربیتی نظام کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ مدارس کے طلبہ نہ صرف دین کے علوم میں ماہر ہوں بلکہ دنیوی علوم میں بھی جدید معیار پر پورا اتر سکیں۔ حکومت کی شمولیت، معیاری نصاب اور اصلاحی اقدامات سے مدارس کی تعلیم میں بہتری آ سکتی ہے، جس سے نوجوانوں کو عالمی سطح پر مقابلے کے قابل اور معاشرتی ضروریات کے مطابق تیار کیا جا سکتا ہے۔