اسلام میں فیملی پلاننگ ممنوع نہیں بلکہ مطلوب ہے

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 30-07-2023
اسلام میں فیملی پلاننگ ممنوع نہیں بلکہ مطلوب ہے
اسلام میں فیملی پلاننگ ممنوع نہیں بلکہ مطلوب ہے

 

سلیم جاوید 

عوائے مضمون یہ ہے کہ اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے فیملی پلاننگ کا ”کانسپٹ“ دیا ہے اور اس کی ترغیب بھی دی ہے۔ مناسب ہے کہ پہلے دواصطلاحات بارے کلیئر ہو جائیں۔ فیملی یا خاندان کسے کہتے ہیں؟ فیملی مرد اورعورت کے اس جوڑےسے شروع ہوتی ہے جو میاں بیوی ہوں۔ یہ پہلا اور بنیادی یونٹ ہے۔ فیملی پلاننگ کسے کہتے ہیں؟ میاں بیوی جب اپنی فیملی کے مستقبل بارے کوئی سوچ وبچار کرتے ہیں تو اس کو ”فیملی پلاننگ“ کہتے ہیں۔ گھرداری اور روزی روٹی سے لے کر بچے پیدا کرنے اور پالنے تک کی ساری منصوبہ بندی اس میں شامل ہے مگر اہم ترین آیئٹم ”اولاد“ بارے ہوتا ہے۔ اولاد سے متعلق دوچیزوں کی پلاننگ کرنا ہوتی ہے۔ بچوں کی تعداد بارے اور بچوں کی پرورش بارے۔

آج کل چونکہ ”اولاد کی تعداد“ کا موضوع ہی چل رہا ہے لہذا زیرنظر مضمون میں بھی ”فیملی پلاننگ“ کا مطلب صرف ”اولاد کے لئے منصوبہ بندی“ لیا جائے۔ چنانچہ، ایک ”جوڑا“ جب یہ منصوبہ بنائے گا کہ ہم کتنے بچے پیدا کریں گے؟ ( یا بالکل بچے پیدا نہیں کریں گے ) تواس مخصوص خاندانی مں صوبہ بندی کو ہی ہم ”فیملی پلاننگ“ کا نام دیں گے۔

قارئین کرام! شریعت اسلام، اصلاً دو چیزوں کا نام ہے۔ قرآن اور حدیث ( یا ”کتاب و سنت“ ) ۔ ایک نکتہ ہمیشہ یاد رکھیں۔ ”دین“ کا کوئی حکم کسی منطقی علت (مادی وجہ) کے بغیرنہیں ہوسکتا اور ”مذہب“ کا کوئی حکم، منطق سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً، ”سود“ ایک معاشی مسئلہ ہے جو کہ دینی ایشو ہے تواسکی منطقی علت بتائی جا سکتی ہے۔ ”طواف کرنا“ ایک مذہبی مسئلہ ہے تواسکی منطقی علت آپ نہیں بتا سکتے۔

چونکہ آج کل آبادی کا مسئلہ، ایک سماجی، معاشی اور سیاسی ایشو بن چکا ہے پس یہ دین اسلام کا ایشو ہے ( نہ کہ مذہبی مسئلہ ) ۔ چنانچہ اس بارے کوئی ”منطقی علت“، دنیا کے سامنے پیش کرنا، مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ بچے کتنے پیدا کریں؟ تھوڑے؟ زیادہ؟ یا بالکل نہیں؟ اس بارے قرآن میں کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ چنانچہ، کوئی جوڑا اگر بالکل بھی بچے نہیں پیدا کرنا چاہتا توبھی اس نے کسی قرآنی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی۔ ( اس کی تفصیل آگے بیان ہوگی ) ۔

حدیث میں بچوں کی پلاننگ بارے ہدایات موجود ہیں اور یوں، اسلام پہلا مذہب ہے جس نے اس ایشو کوایڈریس کیا ہے۔ ( البتہ قرآنی امرنہ ہونے کی بنا پردرجہ بندی میں یہ ”سیکنڈری“ ایشو ہے ) ۔

دنیا میں سب سے پہلے فیملی پلاننگ کا ورژن پیغمبرِ اسلام نے پیش کیا تھا یہ نصیحت کرکے کہ ایسی عورت سے شادی کرو جو بچے زیادہ پیدا کرے۔ جب میاں بیوی یہ پلان بناتے ہیں کہ ہم نے بہت زیادہ بچے پیدا کرنے ہیں تو یہ تدبیر بھی ”خاندانی منصوبہ بندی“ ہی کہلائی جائے گی۔ (اس وقت دنیا کے بعض ممالک میں یہی فیملی پلاننگ چل رہی کیونکہ آبادی ضرورت سے کم ہوچکی ہے ) ۔

پیغبر اسلام نے ”زیادہ بچے“ پیدا کرنے کوکٰیوں کہا تھا؟ اس دینی حکم کی علت یعنی منطق بتائی جائے؟ کوئی دینی حکم بھی ”لایعنی“ نہیں ہوسکتا اور بغیرعلت کے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ ( صرف مذہبی احکام ہی بغیر دلیل کے مانے جائیں گے ) ۔

گفتگو آگے بڑھانے سے پہلے، ایک مسلمان کا بنیادی عقیدہ ذکر کردیتا ہوں۔

اگر کوئی جوڑا، زیادہ بچے پیدا کرنے کا پلان بناتا ہے تواسکے لئے چاہے جو ترکیب بھی آزما لے ( ”ٹسٹ ٹیوب“ سے لے کر ”سروگیٹ مدر“ وغیرہ تک ) مگراللہ کی مرضی کے بغیر کوئی روح دنیا میں نہیں آسکتی۔ یہ ہے عقیدہ۔

اگر کوئی جوڑا، کم بچے پیدا کرنے کا پلان بناتا ہے تو اس کے لئے چاہے جو ترکیب بھی آزما لے ( ”عزل/ کنڈوم“ سے لے کر ”رحم کے آپریشن“ وغیرہ تک ) مگر اللہ کی مرضی ہو تو کسی روح کو دنیا میں آنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ یہ ہے عقیدہ۔

جب بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ ماں باپ چاہے جتنی بھی پلاننگ کرلیں مگر بچے اتنے ہی پیدا ہوں گے جو خدا چاہے گا تو پھر رسولِ خدا نے ایسا کیوں فرمایا تھا کہ زیادہ بچے پیدا کرو؟ خدا کی مرضی بنا بھلا زیادہ بچے کیسے پیدا کیے جاسکتے ہیں؟ کیا یہ خدا کے فیصلے میں مداخلت نہیں؟

یہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ فیملی کے لئے پلاننگ کرنا آپ کی شرعی ذمہ داری ہے۔ اسی رسول نے ہی ہمیں سکھایا کہ ”اے ابوذر! حسن تدبیر سے بڑھ کرکوئی عقل مندی نہیں“۔ شریعت ہی نے بتایا کہ اونٹ کا پاؤں باندھ دو اس کے بعد اس کی حفاظت بارے خدا پرتوکل کرو۔ انسان کو دیگر بہائم سے امتیازعقل کی بنا پرحاصل ہے۔ ( عقل اور توکل بارے ہم یہاں مزید گفتگو نہیں کریں گے ) ۔

ہم اپنے موضوع پررہتے ہیں۔

بچے زیادہ پیدا کرنے ہیں یا کم پیدا کرنے ہیں۔ یہ فیملی پلاننگ ہی ہے۔ رسول نے مگرزیادہ بچے پیدا کرنے کا کہا تھا۔ اس بارے ہماری گذارش یہ ہے کہ جس ”علت“ کی بنیاد پر رسول خدا نے ”زیادہ بچے“ پیدا کرنے کو کہا تھا، اسی ”علت“ کی بنیاد پرآج ”کم بچے“ پیدا کرنے مطلوب ہیں۔

دینی احکام کی ”علت“ کو سمجھنا، فقہہ حنفی کی سپشلٹی ہے۔ نماز اول وقت پرپڑھنے کا حکم ہے مگرفقہہ حنفی، ظاہری الفاظ نہیں دیکھتا بلکہ حکم کی روح اورعلت کی بنیاد پراس حکم کی تشریح کرتا ہے ( اور درست تشریح کرتا ہے ) ۔

اس سے پہلے کہ ہم حدیثِ نبی کی ”علت“ کی تشریح کریں، کلام الہی کی ایک ایسی آیت بارے گفتگو کرنا ضروری ہوگیا ہے جس کو مولوی حضرات نے فیملی پلاننگ سے نتھی کردیا ہے۔ وہ آیت ہے ”لا تقتلوا اولادکم خشیة املاق“۔ ( اسی قسم کی دو آیات ہیں ) ۔

مذکورہ آیات کا ”فیملی پلاننگ“ سے کوئی تعلق نہیں۔ پلاننگ تو کسی وقوعہ سے پہلے کی جاتی ہے نہ کہ بعد میں۔ ( جنگ ہونے سے پہلے ہی جنگ کی پلاننگ کی جاتی ہے۔ فتح یا شکست ہونے کے بعد تو فقط نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے ) ۔ جب کسی کی اولاد پیدا ہوگئی اوراسکے بعد وہ اس کو قتل کرتا ہے تو یہ کوئی فیملی پلاننگ نہیں کی جارہی بلکہ یہ ایک الگ گھناؤنا جرم کیا جارہا ہے۔ انسانوں کے قتل کو اگر آبادی کنٹرول کا عنوان دیا جائے توپھر ”ورلڈ وار“ کو ”ورلڈ فیملی پلاننگ ایونٹ“ کہنا چاہیے۔

فیملی پلاننگ، ایک انتظامی معاملہ ہے مگرمولوی صاحبان اس کو کفر یا حرام ثابت کرنے کے لئے قرآن کی آیت ”لا تقتلوا اولادکم خشیة املاق“ سے استدلال کرتے ہیں حالانکہ اس آیت کا مروجہ فیملی پلاننگ سے کوئی ربط ہی نہیں۔ (دھکے سے ثابت کرنا الگ بات ہے ) ۔

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ فقر وفاقہ کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل مت کرو۔ ( ایسی دو آیات ہیں۔ ایک میں لفظ ”خشیہ“ ہے اور ایک میں نہیں ہے۔ جس میں نہیں ہے، وہ اس فیملی کے لئے ہے جو ہیں ہی غریب۔ جس میں یہ لفظ ہے تووہ اس فیملی کے لئے ہے جن کو غریب ہوجانے کا مستقبل میں خوف ہے۔ دونوں صورتوں میں تسلی دی گئی ہے کہ اصل رازق، اللہ ہی ہے ) ۔

یہ ان قرآنی آیات میں سے ہے جن میں امر اور نصیحت یکجا ہوتے ہیں۔ ( لاتقربو الزنا۔ لاتقربو الخمر۔ یا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ لا تسألوا الناس شیئا) ۔ بہرحال، اسے حکم سمجھیں، نصیحت سمجھیں یا دونوں مگریہ آیت فیملی پلاننگ سے متعلق نہیں ہے۔

ہرزبان کا بامعنی جملہ تین چیزوں کے ذکر سے مکمل ہواکرتا ہے۔ فاعل، فعل اور مفعول۔ اس کے بعد ضمنی تفصیل ( جیسا صفاتی نام وغیرہ ) جملہ میں ڈالے جاتے ہیں جن کا ہونا بنیادی شرط نہیں ہے۔

قرآن کی ہر آیت ایک مکمل جملہ ہے۔ مذکورہ بالا آیات میں بھی فاعل، فعل اور مفعول موجود ہے۔ مگر یہ کہ ”فاعل“ یہاں محذوف ہے جبکہ فعل یعنی ”قتل“ اور سبجیکٹ یعنی ”اولاد“ واضح ہے۔ باقی بات ضمنی ہے یعنی ”وجہ قتل“۔ اور وہ ہے ”فاعل کا فقر وفاقہ“۔

یہاں ”فاعل“ کون ہے؟ ہرتفسیر میں یہی لکھا ہے کہ یہاں والدین کو خطاب ہے کیونکہ اولاد کا لفظ اس پہ دلالت کرتا ہے۔ ہم بھی یہی عام فہم بات تسلیم کرلیتے ہیں۔ (ورنہ مولویوں کی طرح سادہ بات کوجلیبی بنانا ہمیں بھی آتا ہے۔ قرآن میں جب قول نبی لوط نقل کیا گیا کہ ”میری بیٹیاں“ استعمال کرلو اس سے بعض مولوی صاحبان نے ”قوم کی بیٹیاں“ مراد لیا ہے نہ کہ حضرت لوط کی سگی بیٹیاں۔ یہاں بھی مخذوف فاعل کو لے کر آپ کے دماغ کا دہی بنایا جاسکتا ہے اوریوں ”اہل علم“ سے داد سمیٹی جا سکتی ہے مگر چھوڑیئے ) ۔

اس آیت میں ”فعل“ کیا ہے؟ وہ ہے ”قتل کرنا“۔ ( اس سے قتل عمد مراد ہے ) ۔ یاد رکھئے کہ قتل ایک زندہ انسان کا کیا جاتا ہے نہ کسی کرسی میز یا غیرجاندار چیز کا۔

اس آیت میں ”سبجیکٹ“ کیا ہے؟ وہ ہے ”اولاد“۔ یہ ”ولد“ سے نکلا لفظ ہے یعنی وہ مخلوق جو مادر رحم سے باہرنکل آئے۔ ( خدا نہ تو خود ”ولد“ ہوا ہے اورنہ کسی کو ”ولد“ کیا ہے ) ۔ ایک بچہ جب تک رحم مادر سے تولد ہوکر باہر نہیں آیا، وہ اولاد نہیں کہلائی جاسکتی۔ ( ”وجہ قتل“ کی بات بعد میں کریں گے ) ۔

بس آپ مذکورہ آیت کے دو بنیادی لفظ ( فعل اور مفعول ) یاد کرلیں جس پرہمارا سارا مقدمہ بنے گا۔

ایک ہے ”تقتلو“۔ دوسرا ہے ”اولاد“۔

آج تک دنیا میں فیملی پلاننگ کے جو بھی طریقے آزمائے گئے ہیں، ان کو تین مراحل پر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

مروجہ فیملی پلاننگ کا پہلا مرحلہ

سمجھدار مرد وعورت، جنسی ملاپ سے پہلے ہی احتیاطی تدابیر کرلیتے ہیں۔ اگر یہ تدابیر، میڈیکلی مسئلہ نہیں تو یہ گویا ”سپرمز“ کا زیاں کرنا ہوا۔ ( جیسا کہ جنسی عمل کے علاوہ بھی کروڑوں سپرمز احتلام وغیرہ کے ساتھ ضائع ہوجایا کرتے ہیں ) ۔ ہرایک سپرم کوانسانی شکل میں بارآور کرانا نہ تو شرعی تقاضا ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔

اب اس پہلے مرحلے کو قرآن کی مذکورہ آیت کے تناظر میں دیکھئے۔

کسی نے اپنا سپرم ضائع کر دیا۔ یہ مادہ یعنی سپرم، نہ تو انسان ہے کہ اس کا ضائع کرنا ”قتل“ کہلائے اور نہ ہی یہ ”اولاد“ ہے۔ پس اس مرحلے پر مذکورہ آیت کی دونوں بنیادی ٹرمز لاگو نہیں ہوتیں۔ نہ ”تقتلو“ اور نہ ہی ”اولادکم“۔ اس مرحلے پراس آیت کا اطلاق نہیں ہوتا۔

روجہ فیملی پلاننگ کا دوسرامرحلہ

بعض لوگوں کو ذرا دیر سے عقل آتی ہے اور جب حمل ٹھہرجاتا ہے پھر وہ ”اسقاط حمل“ کراتے ہیں۔ اسقاط حمل اوراسقاط بچہ میں فرق ہے۔ حمل کے بعد چار ماہ تک گوشت کا لوتھڑا ( جنین) رہتا ہے اس کے بعد روح داخل کی جاتی ہے تو اسے بچہ کہا جاتا ہے۔ (جدید ریسرچ کہتی ہے کہ تین ہفتہ تک ہی جنین رہتا ہے اور اس کے بعد آکسیجن لینا شروع کردیتا ہے ) ۔

اگرکوئی میڈیکلی مسئلہ نہیں تو جنین کو ضائع کرنا بھی کوئی جرم نہیں۔ (ہاں اخلاقی کمزوری ضرور ہے۔ جیسا کہ ایک فقیر کو جھڑک کرخالی ہاتھ لوٹانا ایک اخلاقی جرم ہے مگر قانونا ”آپ خیرات دینے کے پابند نہیں ہیں۔

اب اس دوسرے مرحلے کو قرآن کی مذکورہ آیت کے تناظر میں دیکھئے۔

کسی نے اپنا جنین ضائع کردیا۔ یہ گوشت کا لوتھڑا یعنی جنین، نہ تو انسان ہے کہ اس کا ضائع کرنا ”قتل“ کہلائے اور نہ ہی یہ ”اولاد“ ہے۔ پس اس مرحلے پر بھی مذکورہ آیت کی دونوں بنیادی ٹرمز لاگو نہیں ہوتیں۔ نہ ”تقتلو“ اور نہ ہی ”اولادکم“۔ اس مرحلے پربھی اس آیت کا اطلاق نہیں ہوتا۔

مروجہ فیملی پلاننگ کا تیسرامرحلہ

ماں کے پیٹ میں چار ماہ ( یا کم وبیش ) بعد بچہ زندہ ہوجاتا ہے۔ بعض لوگ ایسے کم عقل ہوتے ہیں کہ اب اس بچے کو گرا دینا چاہتے ہیں۔ ( یعنی ماردینا چاہتے ہیں ) ۔ یہ بچہ، اگرچہ ابھی رحم مادر سے تولد نہیں ہوا مگرزندہ انسان کے حکم میں ہے۔ اس کو مارنے والا بیوقوف چاہے اپنے تئیں فیملی پلاننگ ہی کررہا ہے، مگر اب ایک قابل مواخذہ جرم بھی کررہا ہے۔ اس کے باوجود، مذکورہ آیت یہاں بھی لاگو نہیں ہوتی۔

اس تیسرے مرحلے کو قرآن کی مذکورہ آیت کے تناظر میں دیکھئے۔

کسی نے اپنا چھ ماہا زندہ بچہ ناحق گرا دیا تو اس نے ایک انسان کا قتل کیا ہے۔ مگر چونکہ ابھی یہ بچہ پیدا نہیں ہوا تو اس بچہ کو عربی لغت کے ہنگام، ”اولاد“ کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ (باقی جو نام بھی دیں ) ۔ چنانچہ اس مرحلے پرمذکورہ آیت کی ایک بنیادی ٹرم یعنی ”تقتلو“ تو لاگو ہوگئی مگر دوسری ٹرم ”اولادکم“ لاگو نہیں ہوتی، پس یہاں بھی اس آیت کو ثبوت نہیں بنائیں گے۔

فیملی پلاننگ کے تینوں مراحل ختم ہوگئے۔ بچہ پیدا ہونے کے بعد اس کو بھوک کے ڈر سے قتل کرو تو یہ وہ جرم ہے جس بارے مذکورہ آیت نازل ہوئی مگر ظاہر کے اس مرحلے پر اس کو فیملی پلاننگ نہیں کہتے۔

یاد رکھئے کہ جس زمانے میں یہ آیت نازل ہوئی، اس زمانے میں بھوک ( یا کسی اور وجہ) سے اگر بچے کم پیدا کرنے کا کسی کو خیال بھی ہو تو اس کی صرف دو ہی صورتیں مروج تھیں۔ یا توعزل کرے یا پھر بچہ پیدا ہونے کے بعد اس کو قتل کردے۔ عورت کے رحم کے اندر سے سپرم یا حمل گرادینے کی محفوظ ٹکنالوجی بہرحال، زمانہ جدید کی ٹکنیک ہے لہذا تاریخی اعتبار سے بھی اس آیت کا فیملی پلاننگ کے دوسرے یا تیسرے مرحلے سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ ( پہلے مرحلے کے جواز کے ویسے ہی سب قائل ہیں ) ۔

ہم مگر تاریخی روایات کی بجائے، لغوی اور منطقی پہلو سے ہی قانونی تشریح کریں گے کیونکہ قانونی بحث کا یہی انداز ہوا کرتا ہے۔ خاکسار کو احساس ہے کہ بحث کسی حد تک بوجھل ہوگئی ہے مگر کیا کریں؟ ایک قانونی نکتہ حل کرنا ہے۔ اس کو جتنا بھی سادہ بنائیں مگرایک حد تک جزئیات پر بات کرنا ہی پڑتی ہے۔

ایک مسلمان نے ”مشرک عورت“ سے جنسی تعلق بنا لیا مگر ”شادی کیے بغیر“۔ تویہاں، آرٹیکل کی پہلی شق لاگو ہوئی مگر دوسری نہیں ہوئی۔ (یعنی مشرک عورت تو موجود ہے مگر شادی ہی ثابت نہیں ہوئی ) ۔

ایک مسلمان نے ایسی عورت سے شادی کی جو نہ مسلمان ہے نہ مشرک بلکہ جدید معنوں میں ملحد عورت ہے۔ تو یہاں، آرٹیکل کی دوسری شق لاگو ہوئی مگر پہلی نہیں ہوئی ( کہ شادی تو ہوگئی مگر عورت مشرک نہیں بلکہ کچھ اور ہے ) ۔

دونوں صورتوں میں اب آپ یا تو نئی قانون سازی کریں گے یا پھر آئین کے کسی اور آرٹیکل کا حوالہ دیں گے تو مقدمہ کی دفع لگے گی ورنہ مگر مذکورہ آرٹیکل میں بیان کی گئی اگر ایک بنیادی ٹرم بھی موجود نہیں تو اس شق کے مطابق کیس درج نہیں ہو سکتا۔

بعینہ اسی طرح، فیملی پلاننگ کے فعل میں ”تقتلو“ اور ”اولادکم“ والی ٹرمز اگر انوالو نہیں تو مذکورہ آیت کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔

ستم ظریفی کی حد دیکھئے کہ اتنی آسان وضاحت کے بعد بھی فرمانے لگے ”آپ نے اپنا کیس ثابت کرنے کے لئے آیت کی تاویل کی ہے“۔

عرض کیا ”چلئے یونہی سہی۔ مگر سورہ حجرات کی آیت لاترفعو اصواتکم، کیا زیربحث آیت سے زیادہ واضح اورصاف نہیں ہے؟ اور اس کی تاویل کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے؟ “۔

بہرحال، اب تک کی بحث کا خلاصہ تین باتیں ہیں

1۔ کسی بچے کے مادررحم سے باہر آنے سے پہلے پہلے اس کو روکنے کی جو ترکیب کی جائے ( چاہے کوئی وجہ بھی ہو) اس کو فیملی پلاننگ کہا جاتا ہے۔ مگر بچہ جبتک باہر نہ آجائے، اس کو اولاد نہیں کہا جاسکتا۔

2۔ قرآن کی مذکورہ آیات چونکہ اولاد کے قتل سے تعلق رکھتی ہیں تو فیملی پلاننگ پروگرام سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

3۔ اپنی اولاد کو کسی بھی وجہ سے مارنا غلط ہے۔ یہ ایک الگ جرم ہے۔ اس کی ایک الگ ہسٹری بھی ہے۔ آج بھی کسی نہ کسی صورت یہ جرم ہو رہا ہے۔ ہمارا موضوع اس وقت دوسرا ہے ورنہ اس بارے تفصیل عرض کرتا۔ قرآن کی مذکورہ آیات، اسی بھیانک جرم بارے ہیں۔

چنانچہ، فیملی پلاننگ بارے کوئی شرعی قانون سازی کرنا ہو تو قرآن کی بجائے کوئی دوسرا ریفرنس ڈھونڈنا پڑے گا کیونکہ قرآن میں اس موضوع بارے کوئی نص صریح موجود نہیں ہے۔

شریعت کا دوسرا ماخذ، حدیث رسول ہے مگر ظاہرہے کہ اس بنا پرکی گئی قانون سازی، شرعا ”اساسی نہیں بلکہ ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔

اپچ مگر یہ آن پڑی ہے کہ اس ثانوی قانون سازی بارے بھی عالم اسلام میں بنیادی فکری اختلاف موجود ہے۔ حدیث کی بنا پر شرعی نظام ترتیب دینے بارے مسلمانوں کے تین طبقات میں گہرا اختلاف ہے۔ یعنی اہل سنت۔ اہل تشیع۔ اوراہل قرآن کا احادیث بارے یکساں موقف نہیں ہے۔

آگے بڑھنے سے قبل، باردگریہ وضاحت کی جاتی ہے کہ مسلم سیکولرز، صرف ان دینی مسائل کو اہمیت دیتے ہیں جو سوسائٹی پہ اثرانداز ہوتے ہوں۔ ہمارے خیال میں ایک فلاحی ریاست کا صرف دونکاتی ایجنڈا ہونا چاہیے۔امن اورمعیشت کی فراہمی۔ (اور دونوں کی اساس ”انصاف“ ہے ) 

بے ہنگم اور بے تحاشا آبادی، امن اور معیشت کو بری طرح متاثر کرتی ہے پس ایک اسلامی ریاست کو اس بارے سوچ وبچار کرنا ضروری ہے۔ ( یہاں ریاست کے ساتھ لفظ ”اسلامی“ عجیب لگتا ہے مگر عمومی تفہیم کے لئے استعمال کرلیتے ہیں ) ۔ یہ بھی مدنظر رہے کہ ہم ”اسلامی ریاست“ اور ”مسلمان ریاست“ میں فرق کرتے ہیں۔ ( پس ہمارے نزدیک خلیجی ممالک ”مسلمان ریاستیں“ ہیں جبکہ سکنڈے نیوین ممالک ”اسلامی ریاستیں“ ہیں ) ۔ فیملی پلاننگ کا ایشو، مسلم سیکولرز کے لئے ایک اہم ایشو ہے۔

ہم اپنا مقدمہ اسی حدیث شریف پر قائم کریں گے جس پر فیملی پلاننگ کے مخالف مولوی صاحبان نے اپنامقدمہ بنا رکھا ہے۔ یہ حدیث ”ابوداؤد“ اور ”نسائی“ میں موجود ہے جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں کیاجاتا ہے : ”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایسی عورت سے نکاح کرو جو اپنے خاوند سے محبت کرنیوالی ہو اور زیادہ بچے جننے والی ہو کیونکہ دوسری امتوں کے مقابلہ میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا“۔

قارئین کرام!

اس وقت عالم اسلام کی غالب سنی اکثریت کے نزدیک حدیث رسول کی چھ کتب کو مستند ترین ریفرنس تسلیم کیا گیا ہے اوران میں سے بھی امام بخاری کی لکھی ہوئی کتاب کو قرآن شریف کے بعد سب سے زیادہ صحیح کتاب مانا گیا ہے۔

اسکی وجہ کیا ہے؟

وجہ یہ ہے کہ امام بخاری صاحب نے تین براعظموں پہ پھیلی حکومت اسلامیہ کے طول وعرض میں سفر کیا، سینکڑوں لوگوں سے ملے، جن سے لاکھوں احادیث جمع کیں، پھران لوگوں کی سچائی پرکھنے کے لئے ایک کڑامعیار وضع کیا اور بالاخربرس ہا برس کی محنت شاقہ کے بعد، تقریباً 4 لاکھ احادیث میں سے صرف 4 ہزار کے لگ بھگ احادیث کو درست ترین قرار دیکرکتاب تالیف کی۔

مگر عالم اسلام میں موجود تقریباً 20 کروڑ اہل تشیع حضرات، بخاری سمیت ان چھ کتب احادیث کو سند تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے ہاں، الگ سے چار کتب حدیث ہیں (جن کو شرعی قوانین کا دوسرا ماخذ سمجھتے ہیں ) ۔

اہل تشیع کے پاس الگ کتب حدیث کیوں ہیں؟

اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ صرف اہل بیت سے روایت کردہ حدیث شریف کوہی درست ترین قرار دیتے ہیں کہ جب رسول خدا کے گھر کے ہی دیانتدار لوگ ایک بات بیان کررہے رہوں تو کسی اور سے پوچھں ے کی ضرورت ہی کیا ہے؟

عالم اسلام میں ایک قلیل تعداد ایسے لوگوں کی بھی رہی ہے جو سرے سے حدیث کوماخذ شریعت ماننے سے ہی انکاری رہے۔ ان کے مطابق، جب قرون اولی میں ہی لاکھوں جھوٹی احادیث وضع کردی گئیں تواب اس کا کیا اعتبار رہا؟ عموماً یہ لوگ خود کواہل قرآن کہتے ہیں جبکہ مولوی صاحبان ان کو ”منکرین حدیث“ کا نام دیتے ہیں۔ ( جس کا جواب وہ یوں دیتے ہیں کہ اگر 4 لاکھ احادیث کو ریجیکٹ کرنے والا امام بخاری صاحب ”منکر حدیث“ نہیں ہے تو ان کی جمع کردہ 4 ہزاراحادیث کو ریجیکٹ کرنے پر بھی کوئی منکر حدیث نہیں بن جاتا) ۔

بخاری شریف کا بتکرار تذکرہ کرنے کی ایک وجہ ہے۔ تحریک انصاف کا نعرہ ہے کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنائیں گے۔ جمعیت علماء اسلام کا منشور ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کانظام نافذ کریں گے۔ اگرچہ دونوں دعوے، سیاسی ہیں مگر ان کا سارا فکری سٹرکچر، بخاری شریف پرمنحصر ہے۔ اگراس کتاب پہ انگلی اٹھے گی تو ”شرعی نظام“ کا سارا تصور ہی زمیں بوس ہوجائے گا۔

چنانچہ، اس کتاب بارے غلو سے بچنے کے لئے معترضین کا موقف جاننا بھی ضروری ہے۔

اہل تشیع کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ امام بخاری صاحب، خراسان سے دمشق تک گھوم پھرکر روایات اکٹھی کرتے رہے مگر مدینہ میں بیٹھے ہوئے اہل بیت کے پاس جانے میں ان کو کیا پرابلم تھا کہ اہل بیت سے مروی ایک حدیث بھی اپنی کتاب میں شامل نہیں کی؟ اس کے علاوہ، اہل تشیع کا یہ دعوی ہے کہ ان کی کتب احادیث، بخاری شریف سے کہیں پہلے مرتب ہوچکی تھیں۔

رہے ”منکرین حدیث“ یا ”اہل قرآن“ تو ان کو ہراس حدیث پر اعتراض ہے جو منطق کی کسوٹی پر پورا نہ اترے۔ مثلاً مذکورہ بالا حدیث کو ہی لے لیں جو ان کے خیال میں رسول جیسے بلیغ انسان کا کلام نہیں ہوسکتا بلکہ کسی مولوی نے اپنا سودا بیچنے کوبات بنائی ہوئی ہے۔ اس لئے کہ ہدف ”کثرتِ اولاد“ ہو مگرمیاں بیوی میں سے مرد، کمزور ہوتوپھرخالی عورت کیسے بچے بڑھائے گی؟ مرد بارے تو کوئی ہدایت نہیں کی گئی توکیا اولاد جننا صرف عورت کے بس میں ہے؟ دوسری بات یہ کہ زمانہ نبوت میں شادی سے قبل کون سا میڈیکل ٹسٹ یہ بتاتا تھا کہ فلاں لڑکی، زیادہ بچے جنتی ہے لہذا اس سے شادی کرلو ( جبکہ قرآن کہتا ہے کہ یہ خالص خداکا فیصلہ ہوتا ہے ) ۔ اس حدیث پرتیسرا سوال یہ کہ شادی سے پہلے بھلا کیسے مردکو پتہ چلے گا کہ یہ لڑکی، اپنے شوہر سے محبت کرنے والی ہے؟

برسبیل تذکرہ، اوپرجو حدیث بیان کی گئی ہے، اس سے بھی زیادہ واضح حدیث، ایک زیادہ معتبرکتاب یعنی صحیح مسلم شریف میں درج ہے مگراسکا ریفرنس نہیں دیاجاتا۔ وہ حدیث کچھ یوں ہے کہ صحابہ نے حضور نبی کریم سے عزل بارے دریافت کیا ( عزل کہتے ہیں عورت کے اندر کی بجائے باہر ڈسٹارج ہونے کو) ۔ تو نبی کریم نے جوابا ”فرمایا کہ یہ تو قتل خفی ہے ( یعنی خفیہ طور پرانسان کو قتل کرنا ہے ) ۔ اب مولوی صاحبان اس حدیث کوفیملی پلاننگ کے خلاف کیوں ریفرنس نہیں بناتے؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس واضح ہدایت کے باوجود بھی صحابہ کرام، عزل کیا کرتے تھے پس اب مولوی صاحبان اس کو حرام قرار نہیں دے سکتے۔ دوسری وجہ وہی منطقی اعتراض ہے کہ بھلا مادہ منویہ کو باہر ضائع کردینا ہی اگر قتلِ انسان شمار ہوتا ہے تو پھر دنیا کا شاید ہرمرد ہی قاتل ٹھہرے گا۔

کہا جاسکتا ہے کہ ”امت مسلمہ“ میں سے صرف 10 فیصد اہل تشیع اور کسی شمار میں نہ آنے والے منکرین حدیث کی وجہ سے بخاری کو کیوں مشتبہ قرار دیا جائے؟ مگراہل علم جانتے ہیں کہ قانون سازی میں کثرت تعداد نہیں بلکہ قوت ِدلیل کو دیکھا جاتا ہے۔

ہمارے پاس مذکورہ بالا اعتراضات کا جواب موجود ہے۔ ہم اگرچہ قرآن وحدیث کی تشریح اپنے سیکولر نکتہ نظر سے کیا کرتے ہیں مگر بخاری شریف کو شرعی سند مانتے ہیں۔ یہ ساری بحث صرف ان حضرات کے لئے کی گئی ہے جو دروازے کی جھری سے لگ کرمنظر دیکھتے ہیں۔ ان سے گذارش ہے کہ دروازہ کھول کر باہر جاکر مشاہدہ کیا کریں اور فقط اس پہ نہ رہیں کہ ”اکابر نے تو یوں فرمایا تھا“۔ یہ بات ذہن میں رکھئے کہ آج کی متمدن ریاست میں اگر آپ شریعت چاہتے ہیں ( چاہے وہاں سارے مسلمان ہی بستے ہوں ) تو صرف احادیث کے حوالے سے متفقہ قانون سازی ممکن نہیں ہے۔ لامحالہ، آپ کو منطق ودلیل کی بنیاد پر اپنا موقف منوانا پڑے گا (اور اسی کو سیکولرزم کہتے ہیں ) ۔

قارئین کرام!

فیملی پلانگ کے موضوع پر عالم اسلام میں ابتک چار قسم کے موقف موجود رہے ہیں۔

۔ ایک طبقہ تو کٹھ ملاؤں کا ہے جو فیملی پلاننگ کرنے کو حرام اور کفر سمجھتا ہے۔

۔ دوسرا طبقہ معتدل علماء کا ہے جواسکو حرام کی بجائے مکروہ قرار دیتا ہے۔

۔ تیسرا طبقہ علمائے دیوبند میں سے وہ ہے جو چند شرائط کے ساتھ اس کے جواز کا قائل ہے۔

۔ چوتھا طبقہ وہ ہے (شاید غامدی صاحب وغیرہ) جواس ایشو کوفقط ایک انتظامی ایشو سمجھتا ہے (یعنی اس کو مذہبی ایشو نہیں سمجھتا) ۔

ہماری گذارش یہ ہے ”مسلم سیکولرز“ کوپانچواں طبقہ شمار کیا جائے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فیملی پلاننگ کرنا، شریعت اسلام کی منشاء ہے اور یہ مطلوب ہے۔

رسول خدا نے اپنے صحابہ کو ایک نصیحت کی تھی (جس کا پس منظر یا پیش منظر تو ہم نہیں جانتے ) جو لفظ بہ لفظ یوں رپورٹ کی گئی ہے۔

عن معقل بن یسار قال : قال رسول اللہ صلى اللہ علیھ و سلم : ”تزوجوا الودود الولود فإنی مکاثر بکم الأمم“۔ رواھ أبو داود والنسائی

ترجمہ : حضرت معقل بن یسار کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایسی عورت سے نکاح کرو جو اپنے خاوند سے محبت کرنیوالی ہو اور زیادہ بچے جننے والی ہو کیونکہ دوسری امتوں کے مقابلہ میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا۔

برادران کرام!

رسول اکرم کی اس نصیحت کا ایک خاص ٹارگٹ ( ہدف ) ہے۔ یہ ہدف ”مسلمانوں کی کثرت“ نہیں بلکہ ان مسلمانوں کی کثرت ہے جورسول کے لئے قابل فخر ثابت ہوں۔

بروزمحشر (جو کہ رزلٹ کا دن ہے ) ، امت کی تعداد کی خالی کثرت بھی کوئی قابل فخر بات ہوسکتی ہے بھلا؟ کیا یہ الکشن میں ووٹ گنے جارہے ہیں؟

اگر ایسی بات ہے توپھر ہم ہار ہی گئے کیونکہ قیامت تک، تعداد میں غیرمسلم ہی زیادہ رہیں گے ( بلکہ آخری زمانہ میں تو دنیا بھر میں ایک ہی کلمہ گو باقی رہ جائے گا ) ۔

اسلام، ”کوانٹٹی“ کا نہیں بلکہ ”کوالٹی“ کا دین ہے۔ زیادہ نمازیں نہیں بلکہ اچھی نمازیں مطلوب ہیں ( کتنی نمازیں واپس منہ پہ مار دی جاتی ہیں ) ۔ زیادہ روزے نہیں بلکہ معیاری روزے مقصود ہیں ( کئی لوگوں کے روزے فقط فاقہ شمار ہوتے ہیں ) ۔

یوں تو کامن سینس کی بات ہے مگرایک مثال سے مزید واضح کرتا ہوں۔

مدارس کے سالانہ امتحانات کے نتیجہ کا دن ہے۔ دو عدد اسکول ہیں جن میں باہمی مقابلہ ہے اور دونوں کے پرنسپل صاحبان بھی موجود ہیں۔

ایک پرنسپل کے سکول میں ایک ہزار بچے پڑھتے ہیں جن میں سے 10 بچے پاس ہوئے اور 990 فیل ہوگئے۔

دوسرے پرنسپل کے سکول میں کل سو بچے پڑھتے ہیں جن میں سے 80 پاس اور 20 فیل ہوگئے۔

بتایئے کہ دونوں میں سے کون سا پرنسپل فخر محسوس کرے گا اور کس تعداد پر؟

کل بچوں کی تعداد، پاس ہونے والوں کی اور فیل ہونے والوں کی تعداد آپ کے سامنے ہے۔ کیا کل تعداد پر یا پاس شدہ کی تعداد پر فخر کیا جائے گا؟ لہذا کثرت کا حقیقی معنی سمجھا جائے۔ ( خدا معاف کرے، ہمارے جیسے کروڑوں امتی دھڑا دھڑ پیدا کردیئے جائیں تومیرا نہیں خیال کہ یہ نمونے پیش کرکے، رسول خدا، دوسرے رسولوں پر فخر کا اظہار کریں گے ) ۔

حدیث شریف میں مگر بڑی وضاحت سے ”زیادہ بچے“ پیدا کرنے کی بابت حکم موجود ہے۔

آیئے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

دیکھئے، بغیر کسی خاص مقصد / وجہ / ہدف یا علّت کے نہ تو کوئی حکم دیا جاتا ہے اور نہ ہی نصیحت کی جاتی ہے۔ حکمیہ جملہ البتہ تین صورتوں میں بیان ہواکرتا ہے۔ کبھی تواس جملے میں ”مجرد حکم“ ہی دیا جاتا ہے۔ ( کھانا کھایا کرو) ۔ کبھی اس کے ساتھ علت یا ہدف بھی بیان کردیا جاتا ہے ( تاکہ صحت مند رہو) اور کبھی اسی جملے میں ہدف کو حاصل کرنے کا ذریعہ بھی بتادیا جاتا ہے۔ (ایک سیب روزانہ ) ۔

جب ایسا کوئی تفصیلی جملہ سامنے آجائے جس میں ”حکم، ہدف اور اس ہدف کو حاصل کرنے والے ذرائع یا اسباب“ یعنی تینوں باتیں بیان کی گئی ہوں تو اس حکم میں اصل چیز ”ہدف“ ہی ہوتا۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے بتائے گئے ذرائع، اصل حیثیت نہیں رکھتے۔

ایک حکمیہ جملہ دیکھئے : ”روزانہ دس گھنٹے پڑھا کرو تاکہ کلاس میں فرسٹ آجاؤ“۔

اس حکم میں ہدف کیا ہے؟ فرسٹ پوزیشن لینا

اس ہدف کو حاصل کرنے کا ذریعہ یا سبب کیا ہے؟ دس گھنٹے پڑھنا۔

اس حکم میں اب اصل حیثیت کس بات کو حاصل ہے؟ اس پر خود سوچیئے۔

اگر دس گھنٹے پڑھنے سے بندہ بیمار ہوجانے اور پھر فیل ہوجانے کا ڈر ہو تو کیا کیا جائے گا؟ کیا پھر دس گھنٹے سے کم پڑھنے والا نافرمان شمار ہوگا؟ ( میرا تو خیال ہے کہ کمزور لڑکے کو دس گھنٹے پڑھنے پر مجبور کرنے والا استاد ہی نافرمان یا کم از کم بیوقوف شمار ہوگا ) ۔

چنانچہ مذکورہ بالا حدیث میں بھی ایک ہدف بیان ہوا ہے اور ایک اس کا ذریعہ بیان ہوا ہے۔

ہدف ہے ”تم جیسوں کی کثرت“ یعنی ”صحابہ جیسوں کی کثرت“۔ بالفاظ دیگر ”امت کے قابل فخر طبقہ کی کثرت“ ( کیونکہ جو طبقہ مخاطب تھا، وہی معیار ہے ) ۔

اگرذرا سا بھی سوچا جائے تو بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث شریف میں دراصل، بچوں کی تعداد کا نہیں بلکہ ان کی صفات کا ایشو ہے۔ یہی ہدف تاقیامت رہے گا مگر زمان ومکان کے لحاظ سے اسباب میں فرق آتا جائے گا۔

اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے زمانہ نبوت میں کیا اسباب بتائے گئے تھے : زیادہ بچے پیدا کرنا۔

فرض کریں کہ کسی خاص زمانہ یا خاص سوسائٹی میں اگر زیادہ بچے پیدا کرنے سے ”قابل فخر طبقہ“ کم ہوتا ہو جبکہ کم بچے پیدا کرنے سے یہ ہدف زیادہ حاصل ہو تواس صورت میں منشائے حکم کیا ہوگا؟ ذریعہ بدل کر ہدف کو حاصل کرنا یا ہدف کو چھوڑ کرذریعہ کو پکڑے رہنا؟

برادران کرام!

مجھے امام ابوحنیفہ صاحب سے اس بنا پر عقیدت ہے کہ وہ شرعی احکام کے اصل اہداف پرغور کیا کرتے تھے۔ بوجوہ، ہمارے زمانہ کے علما ئے کرام، ”اہداف“ کی بجائے ”ذرائع“ کوترجیح دینے لگ گئے جس کی وجہ سے عجیب صورتحال سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ تفصیل کا موقع نہیں مگر اس ضروری امر کو واضح کرنے ( اور اپنا سیکولر نقطہ نظر بیان کرنے کے لئے ) ، ایک اور حدیث شریف آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اس حدیث کو شریعت اسلامی کی ایک بڑی عظیم اساسی رولنگ قرار دیا جاتا ہے۔

ملاحظہ کیجئے۔

عن أبی سعیدٍ الخدری رضی اللہ عنھ قال: سمعت رسول اللہ صلى اللہ علیھ وسلم یقول: ( (من رأى منکم منکرًا، فلیغیرہ بیدھ، فإن لم یستطع فبلسانھ، فإن لم یستطع فبقلبھ، وذلک أضعف الإیمان) ؛یہ حدیث، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ اور نسائی، سب کتب نے روایت کی ہوئی ہے۔

میرے محدودمطالعہ میں، ہر جگہ اس کا ترجمہ یوں ہی لکھا دیکھا ہے

نبی اکرم کا ارشاد کہ جو شخص کسی ناجائز امر کو ہوتے ہوئے دیکھے اگر اس پر قدرت ہوکہ اس کو ہاتھ سے بند کردے تو اس کو بند کردے۔ اگر اتنی مقدرت نہ ہو تو زبان سے اس پر انکار کردے۔ اگر اتنی بھی قدرت نہ ہو تو دل سے اس کو برا سمجھے اور یہ ایمان کا بہت ہی کم درجہ ہے“۔

خاکسارکے خیال میں یہ درست ترجمہ نہیں ہے کیونکہ اس میں ”ہدف“ کی بجائے ”اسباب“ کوفوقیت دی گئی ہے چنانچہ، اس کے نتیجہ میں ایک غلط رویہ وجود میں آتا ہے۔

اگر اسی ترجمہ کو لیا جائے تومنظر نامہ کچھ یوں بنے گا۔

ایک جگہ محفل رقص وسرود برپا ہے ( اس محفل کو ایک منکر عمل باور کرایا جاتا ہے ) ۔

اس موقع پر سب سے بہترین مسلمان وہ ہوگا جو ہاتھ کے استعمال سے اس کو روک دے ( بم، کلاشنکوف، چاقو، ڈنڈہ، مکا تھپڑ، درجہ بہ درجہ ہاتھ کا استعمال ہے ) ۔

دوسری پوزیشن اس مسلمان کو حاصل ہوگی جو زبان سے کام لے کراسکو بند کردے ( دھمکانے سے لے کر گالی گلوچ تک) ۔

جبکہ آخری درجہ کا مسلمان وہ ہوگا جواس پہ خاموش رہ جائے مگر اسے ایک برائی سمجھے۔

اب دیکھئے کہ مسلم سیکولرز، اسی حدیث شریف کی تشریح کیسے کیا کرتے ہیں؟

پہلی بات تو یہ کہ حدیث کے عربی متن میں ”برائی کو بند کرنے“ کا نہیں بلکہ اس کو اچھائی سے ”چیینج“ کرنے کا حکم ہے۔ ( فالیغیرہ ) ۔ اور یہی ”ہدف“ ہے۔

جب آپ نے ”بند کرنے“ کی بجائے درست ترجمہ ”تبدیل کرنا“ کردیا تو حدیث کی تشریح بدل گئی۔ اب ہاتھ، زبان، یا خاموشی والے ذرائع میں سے جوذریعہ اختیار کرنے سے ایک برائی، اچھائی میں تبدیل ہوگی وہی ذریعہ افضل قرار پائے گا نہ کہ حدیث کے متن والی ترتیب پر ہی اصرار ہوگا۔

ہمارے ترجمہ کے مطابق، منظر نامہ کچھ یوں بنے گا

سب سے بہترین مسلمان وہ ہوگا جو برائی کو اچھائی میں بدل کردکھائے چاہے ہاتھ کے استعمال سے ہو یا زبان سے یا خاموش حکمت عملی سے۔ ( ہاتھ کے استعمال کا معنی بھی صرف ”ہاتھ اٹھانا“ نہیں ہوتا بلکہ ”ہیلپنگ ہینڈ“ بھی صورتحال کو بدل دیا کرتا ہے اور اکثر بدلا کرتا ہے ) ۔

تاہم، اگر ہاتھ کے استعمال سے ”برائ“ کے مزید بڑھ جانے کا خوف ہو تو پھر ہاتھ استعمال کرنے والے مسلمان کو شاباش نہیں، بلکہ ڈانٹ پڑنے کا اندیشہ ہے۔

امید کرتا ہوں کہ احباب، ہدف اور ذرائع کا فرق سمجھ چکے ہوں گے۔ واپس اپنی حدیث شریف پہ جاتے ہیں جہاں زیادہ تعداد میں بچے پیدا کرنے کی نصیحت، فقط ایک خاص ہدف کو حاصل کرنے کے لئے بتائی گئی ہے۔ ( اور وہی اصل مقصود ہے ) ۔

حیرت ہوتی ہے کہ بعض لوگوں نے امت کی تعداد کو ”پرائم ایشو“ بنا دیا ہے حالانکہ یہ تو ”سیکنڈری ایشو“ بھی نہیں ہے۔ خود رسول اکرم نے کتنے ہی لوگوں کو بظاہر معمولی بات پر اپنی امت سے خارج قراردیا ہوا ہے۔ ( مثلا جو مسلمان خود پیٹ بھر کرسویا جبکہ اس کا پڑوسی بھوکا سویا ) ۔ تعداد کا مسئلہ ہوتا تو یوں لوگوں کو امت سے خارج کیا جاتا؟

آپ حضرات جانتے ہیں کہ دورنبوی میں کئی کئی شادیاں کرنے کا عام رواج تھا۔ روایت تو یہ بھی ہے کہ حضرت علی نے جب دوسری شادی کا ارادہ کیا تو حضور نے ایک طرح سے روک دیا تھا۔ کیوں بھئ؟ اس سے تو امت مزید بڑھ جاتی پھر کیوں روکا؟ معلوم ہوا کہ امت کی تعداد، بنیادی ایشو نہیں ہے۔

قارئین کرام!

ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ مذکورہ بالا حدیث شریف کے تناظر میں آج کے زمانے میں کم بچے پیدا کرنا ہی رسول کے لئے تفاخر کا سبب ہوگا۔

کیوں؟

اس کیوں کا جواب، ایک اوراسلامی قانون میں پوشیدہ ہے یعنی ”مسلمان والدین کی اساسی ذمہ داری“۔

اس بنیادی اسلامی قانون میں اولاد بارے، والدین کی تین ذمہ داریاں بتائی گئی ہیں۔ اچھا نام۔ اچھی تربیت۔ اچھا رشتہ ( اولاد کی تعداد بارے تو بات ہی نہیں کی گئی) ۔

اچھی تربیت کیا ہوتی ہے؟ آپ اس کا جو بھی مفہوم مراد لیں مگر خاکسار اس سے اکابر صحابہ کا کردار مراد لیتا ہے۔

آج کل جدید اور مہنگی تربیت گاہیں مارکیٹ میں آچکی ہیں مگرظاہر ہے کہ گھر کا ماحول ہی بچے کی بنیادی تربیت گاہ ہوتا ہے۔

آج سے چودہ صدیاں پہلے توبچے کی تربیت کے لئے خالص یہی ایک میڈیم میسر تھا۔ ( نہ اولاد کے لئے کہیں کالج یا ہاسٹل پائے جاتے تھے اور نہ والدین کوجاب کے سلسلے میں شہر سے باہررہنا پڑتا تھا) ۔ جس زمانے کی یہ حدیث شریف ہے، اس وقت مدینہ میں اس امت کی ساری قابل فخر کمیونٹی موجود تھی۔ ایسے لوگوں کو اگر زیادہ بچے پیدا کرنے کا کہا گیا تو یہ طے تھا کہ تربیت یافتہ امت ہی پیدا کی جائے گی۔ ( اصل ہدف بہرحال اس حدیث کا یہی ہے کہ کثیر تعداد ایسے مسلمانوں کی پیدا کی جائے جسے بروز قیامت دوسرے انبیاء کی امتوں کے مقابل فخر سے پیش کیا جاسکے ) ۔ لہذا، اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے آج کی پیچیدہ زندگی میں، زیادہ باریک تربیت کی ضرورت ہے اور اس کے لئے کم بچوں کا پیدا کرنا ہی اسباب یا ذرائع ہیں۔ کم بچے ہوں گے تو بہتر تربیت ممکن ہے۔ ( اسباب ہی اختیار کیے جاتے ہیں ورنہ ”سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی“ ) ۔

شریعت کا مزاج ہی پلاننگ سے چلنے کا ہے۔ نبی یوسف نے متوقع قحط کے تناظر میں اگر سات سال تک خوراک کو ذخیرہ کرکے رکھا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا کی رزاقی پر ان کا یقین کمزور ہوگیا تھا۔ چنانچہ، شریعت کا آج کا منشاء تو ہمارے خیال میں فیملی پلاننگ کرنا ہے نہ کہ اس سے گریز کرنا۔

اب رہے وہ لوگ جو ”معیار“ کی بجائے ”مقدار“ پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے نزدیک ہمارے رسول صرف مسلمانوں کی تعداد پہ ہی فخر کریں گے تووہ احباب بھی اس حدیث شریف کو اپنے موقف کی دلیل نہیں بنا سکتے کیونکہ صرف امت ہی بڑھانا ہوتواولاد کے علاوہ بھی کئی اسباب اختیار کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً پورا ایک سال شب وروز کی محنت کے بعد صرف ایک مسلمان بچہ امت میں بڑھانے کی بجائے اگر تبلیغی جماعت کے ساتھ ”سال لگانے“ افریقہ چلے جائیں تو سال بھر میں درجن بھر امتی بڑھا سکتے ہیں۔ (بلکہ اس تعداد کو ڈبل شمار جائے کیونکہ دوسری امت سے مائنیس ہوجائیں گے اور ہماری امت میں پلس ہوجائیں گے ) ۔

بات بہت طویل ہوگئی ہے۔ بس ہماری گذارشات کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:

1۔ عورت اور مرد کی شادی کے ذریعہ، دنیا کو ”بہترین“ انسان مہیا کرنا اسلام کا منشاء ہے۔ زیادہ ہوں یا نہ ہوں مگربہترین ضرور ہوں۔

2۔ میاں بیوی باہمی سوچ وبچار اوررضامندی سے اپنی فیملی پلاننگ کریں۔ مستقبل بارے بہتر منصوبہ بندی کرنا، شریعت کا مزاج ہے۔ (ہوگا مگر پھر بھی وہی جو اللہ چاہے گا ) ۔

3۔ آج کل کی پیچیدہ زندگی کے تناظرمیں، زیادہ بچوں کی کفالت اور تربیت کرنا ایک مشکل کام ہے لہذا کم بچے پیدا کرنے کی پلاننگ کریں۔ یہ شریعت سے متصادم نہیں بلکہ اس کے منشاء کے مطابق ہے۔

4۔ فرد کی طرح، حکومت کو بھی اختیار ہے کہ بڑھتی آبادی کو کم کرنے کی پلاننگ کرے۔ مگر بچوں کی ایک خاص تعداد مقرر کرنا، بنیادی انسان حق کی خلاف ورزی ہے۔ کم بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی جاسکتی مگر اس کو قانون نہیں بنایا جاسکتا۔ ( البتہ حکومت چاہے تو دیگر ”شرعی حیلے“ اختیار کرکے، یہی ٹارگٹ حاصل کرسکتی ہے جو مناسب فیس پر خود مولوی صاحبان مہیا کرسکتے ہیں ) ۔

برادران کرام!

اگر اپنے نبی کریم کے لئے کوئی قابل فخر امتی تیار کرنے ہیں تو بچے کم پیدا کرو مگر وہ ایسے ہوں کہ دوسری امتوں سے کردار میں ممتاز ہوں۔ یہی اس حدیث شریف کی فطری تشریح ہے (کم ازکم مسلم سیکولرز کی حد تک) اور یہی منشائے شریعت ہے۔ ایسے بچے جو اس فانی دنیا میں غیروں کے مقابل پیش کرتے خود کو شرم آتی ہو، ان کو آخرت میں بھی پیش کرنا کوئی خوشگوار تجربہ نہیں ہوگا۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی ایسا مسلمان بھی تو ہوگا جو آج کے زمانے میں زیادہ بچے بھی پیدا کرسکتا ہو اورانکو قابل فخر تربیت بھی دے سکتا ہو تو میں کہوں گا کہ یہ ایک اچھا کیس ہے اورایسا شخص بہت قابل ونادر آدمی ہے مگر بہرحال یہ استثنائی کیس ہے جبکہ حدیث شریف، عموم کے لئے ہواکرتی ہے۔