منصور الدین فریدی ۔ آواز دی وائس
بابائے قوم مہاتما گاندھی کو اپنی جان اس لیےگنوانی پڑی کہ انہیں مسلمانوں کا ہمدرد یا حامی مان لیا گیا تھا،تقسیم ملک کے ماحول میں مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا حوصلہ دکھانے کی قیمت اپنی جان سے چکانے والے گاندھی جی کی بد قسمتی یہ ہے کہ جہاں ان پر مسلمانوں کا حامی ہونے کا الزام عائد ہوا تو وہی مسلمانوں نے بھی ان کی قربانیوں کو تسلیم نہیں کیا ۔ 75 سال گزرنے کے باوجود آج بھی گاندھی جی اور مسلمانوں کے رشتے پر بحث ہوتی ہے ۔بات خلافت تحریک سے تقسیم ملک کے بعد مسلمانوں کے تحفظ پر گاندھی جی ایک طبقہ کے نشانے پر رہے ۔لیکن وہ کبھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے
آواز دی وائس کے خاص پروگرام بات نکلی ہے میں تاریخ داں ثاقب سلیم نے گاندھی جی کے مسسلمانوں کے ساتھ رشتے یا لگاو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ گاندھی جی تعلیم کے لیے انگلینڈ گئے تو ان کی دوستی مسلمانوں سے ہوئی ،
گاندھی جی 1888 میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن پہنچے تو علی امام، محمد شفیع ،حسن امام اور مولانا مظہر الحق جیسی شخصیات سے تعلقات ہوئے جو آگے چل کر گہری دوستی میں تبدیل ہوگئے۔
ثاقب سلیم نے کہا کہ گاندھی جی کا مسلمانوں سے گہرا تعلق اس وقت قائم ہوا تھا جب وکالت کی ڈگری حاصل کرنے جنوبی افریقہ گئے، جہاں ایک گجراتی تاجر سیٹھ دادا عبداللہ نے 1892 میں مقدمہ لڑنے کے لیے ڈربن بلایا ۔ جہاں بعد ازاں دادا عبداللہ کی قیادت میں گاندھی جی نے نسلی حملوں کے خلاف مسلسل تحریک چلائی۔ جنوبی افریقہ میں گاندھی جی کو دادا عبداللہ کے علاوہ حاجی عمر جوہری ،سیٹھ عبدالکریم ،سیٹھ عبدالقادراورآدم جی میاں خان جیسے لوگوں کی حمایت حاصل ہوئی۔جنہوں نے گاندھی جی کی ہرمشکل حالات میں مدد کی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خود گاندھی جی کا کہنا تھا کہ انہوں نے بیس سال مسلمان دوستوں میں گزارے ۔۔جو انہیں اپنے خاندان کا حصہ مانتے تھے۔ نہ ہی ان کے گھر کی خواتین ان سے پردہ کی کرتی تھیں۔در اصل جنوبی افریقہ ہی وہ سرزمین ہے جس نے گاندھی کو گاندھی جی بنایا۔اس جدوجہد میں ان کی مالی اور اخلاقی مدد کرنے والوں میں ان کے مسلم دوست سب سے آے تھے ۔جب 1915 میں گاندھی جی جنوبی افریقہ سے ہندوستان آئے تو ان کے ساتھ امام عبدالقادر معہ خاندان چلے آئے۔جنہوں نے سابر متی آشرم میں پرنٹنگ پریس کی ذمہ داری سنبھالی۔
جنوبی افریقہ میں کامیاب ستیہ گرہ مہم چلانے کے بعد گاندھی جی چمپارن ستیہ گرہ تحریک کے لیے 10 /اپریل1917 کو پٹنہ پہنچے ، گاندھی جی نے لندن کے ہم جماعت دوست بیرسٹر مولانا مظہر الحق کو یاد کیا جو فوراً انہیں فریزر روڈ پر واقع اپنے گھر سکندر منزل لے گئے اور گاندھی جی کے چمپارن بہ ذریعہ مظفر پور جانے کا سارا بندوبست کیا۔ پٹنہ کا صداقت بھون تحریک کا مرکز بنا جو مظہر الحق کا مکان تھا۔
گاندھی کی سیاسی زندگی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کی متعدد مثالوں سے بھری ہوئی ہے، خاص طور پر خلافت تحریک کی حمایت کے ذریعے۔ 1919 میں، جب برطانوی سلطنت نے پہلی جنگ عظیم میں عثمانی شکست کے بعد ترکی میں خلافت کے نظام کو ختم کرنے کی کوشش کی، تو گاندھی نے ہندوستانی مسلمانوں سے اس پالیسی کے خلاف احتجاج کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے خلافت تحریک کے بانیوں، علی برادران، کے ساتھ مل کر اس تحریک کی حمایت کی۔
گاندھی جی اور مسلمانوں کے رشتے کے مختلف پہلووں پر ۔بات نکلی ہے ۔۔ میں بات چیت پیش خدمت ہے