تاریخ کے صفحات سے : مغل دور میں حج ۔ صلہ بھی سزا بھی

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-06-2025
تاریخ کے صفحات سے : مغل دور میں حج ۔ صلہ بھی سزا بھی
تاریخ کے صفحات سے : مغل دور میں حج ۔ صلہ بھی سزا بھی

 



منصور الدین فریدی : نئی دہلی 

مغل دورکی یادگاریں خواہ مینار ہوں ،قلعے یا پھر مقبرے ،ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں،لیکن اس دور کی تاریخ کے صفحات پراور بھی بہت کچھ پوشیدہ ہے ،جسے شاید ہم نے پڑھا نہیں یا کسی سے سنا نہیں ۔ ان میں کچھ بہت ہی حیران کن اور دلچسپ ہیں ۔جن سے مغل دور کی سیاست اور اقتدار کی جنگ کے ساتھ بادشاہوں کی مجبوریوں کو بھی سمجھا جاسکتا ہے ۔ان  میں ایک ہے حج ۔ جی ہاں !  یہی سچ ہے کہ مغل دور میں حج کی راہوں کو نہ صرف کھولا گیا تھا بلکہ سب سے پہلے سرکاری حج  کا آغاز بھی مغل دور سے ہوا تھا ۔جس میں حاجی فری یا سبسڈی کے ساتھ حج پر جایا کرتے تھے۔لیکن اس کا ایک پہلو یہ بھی آپ کو چونکا دے گا کہ آج کی دور میں سرکاری حج  ہر کسی کے لیے ایک اعزاز ہوتا ہے،مگرمغل دور میں حج کا فرمان  کسی کے لیے وفاداری  کا انعام تو کسی باغی  کے لیے سزا کا اعلان سمجھا جاتا تھا ۔

سرکاری حج کا آغاز

سب سے پہلے ابات کرتے ہیں سرکاری حج کی ،یہ حج کی تاریخ کا ایک  دلچسپ باب ہے، شہنشاہ اکبرپہلا مغل بادشاہ تھا، جس نے سرکاری خرچ پر حج کا اہتمام کیا اور حاجیوں کو سبسڈی فراہم کی تھی۔۔ وزارت امور خارجہ کے سابق سکریٹری ، سابق سفیر اور مصنف اوصاف سعید نے اپنے ایک مضمون حج - تاریخ میں ایک ہندوستانی تجربہ۔۔۔ میں لکھا ہے کہ’’ اکبر پہلے حکمران تھے جنہوں نے سرکاری خرچ پر حج کا اہتمام کیا اور حاجیوں کو سبسڈی فراہم کی۔ انہوں نے مکہ مکرمہ میں حجاج کے لیے ایک ہاسپیس بھی قائم کی (سوریہ فاروقی، 1994)۔ 1575 کے بعد جب پرتگالیوں کے ساتھ بحیرہ احمر میں زائرین کے جہازوں کو محفوظ گزرنے کی اجازت دینے کا معاہدہ ہوا تو اکبر نے حکم دیا کہ مصر اور شام کے قافلوں کی طرح ہر موسم میں ہندوستان سے ایک قافلہ بھیجا جائے۔ اس نے ایک بزرگ کو میر حج (حاجیوں کا رہنما) کے طور پر مقرر کیا اور اپنے دربار کے ایک سرکردہ رئیس عبدالرحیم خان خانان کو ہدایت کی کہ وہ اپنے تین بحری جہاز رحیمی، کریمی اور سالاری کو حجاج کرام کی جدہ تک مفت آمدورفت کے لیے مختص کرے۔ ہم عصر مسافر جان فریر کین (حاجی محمد امین) نے ان حجاج کے جہازوں کا ذکر کیا ہے جن کا وزن 1400 سے 1600 ٹن کے درمیان تھا اور اکثر ہر ایک میں 1700 حاجی سوار ہوتے تھے۔‘‘

حج کا سمندری سفر جو بہت خطرناک ہوا کرتا تھا 


مکہ میں حج کا ایک پرانا فوٹو جس کی تاریخ کا کوئی ذکر نہیں 


صلہ بھی سزا بھی

اس کہانی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ  اس دور میں حج  پر بھیجنے کا پیغام کسی کے لیے موت کا تو کسی کے لیے جلا وطنی کا اشارہ ہوتا تھا،کیونکہ اس وقت بادشاہ اپنے ایسے درباریوں اورامیروں کو بھی  حج پر روانہ کرتے تھے جو دربار سے عوام تک کسی قسم کا خطرہ بن سکتے تھے، اسے سلطنت سے دور بھیجنے کے لیے حج کا بہانہ بنایا جاتا تھا،چونکہ حج ایک مقدس فریضہ تھا،اس لیے براہ راست کسی امیر کو قتل یا قید کرنے کے بجائے حج پر بھیجنے کا حکم زیادہ قابل قبول لگتا تھا،مگر ہوتا کیا تھا کہ کچھ حج کے نام پر راستے میں قتل کر دئیے جاتے تھے،کچھ کی واپسی کے راستے بند ہوجاتے تھے  یا پھر کچھ خود ہی کسی محفوظ ملک میں دبک کر بیٹھ جاتے تھے، یعنی کہ مغل دورحکومت میں بادشاہوں کے لیے  حج ایک روحانی عبادت کے ساتھ ایک سیاسی فیصلہ اور بعض اوقات ایک سزا کا ذریعہ تھا۔

اوصاف سعید نے اس معاملہ میں بھی اپنے مضمون میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔انہوں نے لکھا ہے کہ’’مغلیہ دور میں لوگوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر حج پر بھیجا جاتا تھا: مذہبی فریضہ، مذہبی علوم، اور اچھی خدمات کا صلہ اور ناکامیوں کی سزا۔ سیاسی جلاوطنی پر ممکنہ چیلنجوں اور مخالفین کو بھیجنے کے لیے حج کو ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔ بعض اوقات کسی شخص کو حج پر بھیجنے کی دھمکی بھی گمراہ امراء اور علماء پر اچھا اثر ڈالتی تھی۔ ‘‘

 

 

تاریخ  کے صفحات بتاتے ہیں کہ ہمایوں نے 1553 میں اپنے  سوتیلے بھائی کامران مرزا کو آنکھوں کی روشنی چھیننے کے بعد حج پر روانہ کر دیا تھا ۔جنہوں  نے چار بار حج کیا اور 1557ء میں مکہ مکرمہ میں وفات پاگئے،اس کے بعد  اکبر ایک بار اپنے مشیر خاصبیرم خان کے رویے سے حد سے زیادہ  ناراض ہو گیا اور اسے حج کے لیے مکہ جانے کا حکم دیا۔حکم کے مطابق بیرم خان دہلی چھوڑ کر گجرات کی طرف روانہ ہوالیکن احمد آباد میں ایک افغان نے حج پر جانے سے پہلے اسے قتل کر دیا۔جہانگیر نے اپنے ایرانی ڈ حکیم صدرا کو جب وہ بیمار ہو گئے تو انہیں مناسب علاج نہ کروانے پر مکہ مکرمہ بھیج دیا۔اورنگزیب کے ماتحت ایک اہم  قاضی سے استعفیٰ دینے اور حج پر جانے کو کہا گیا۔جو عادتاً شہنشاہ سے جھگڑا کرتے تھے۔اس طرح حجاز شکست خوردہ امرا، باغیوں اور تخت کے خواہشمندوں کا پسندیدہ ٹھکانہ بن گیا۔

کامران مرزا جنہیں ہمایوں نے آنکھوں کی روشنی سے محروم کرکے حج پر بھیج دیا تھا 


شہنشاہ اکبر نے ایک بار حج کا ارادہ کیا مگر یہ سفر  فتح پور سکری سے آگے نہیں بڑھ سکا 


 جان بچی تو لاکھوں پائے

مغل دور کی تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ  بادشاہوں کے عتاب کے سبب حج پر جانے والے کچھ باغی یا منحرف  واپس بھی آئے اور بادشاہ کی معافی بھی حاصل کی ۔ یعنی کہ بادشاہ سےمعافی تلافی کے ساتھ جان بخشوا لی۔ان میں ایک مرزا عزیز تھے،جو اکبر کی مذہبی پالیسیوں سے اختلاف کے سبب حجاز فرار ہوگئے تھے۔۔۔ جہاں سے ان کی اکبر سے زبانی جنگ  بھی جاری رہی تھی۔منتخب التواریخ‘ کے مصنف مؤرخ ملا عبدالقادر بدایونی کے متابق  مرزا  نے ’واپس آکر دین الٰہی میں شمولیت اختیار کر لی اور سجدہ کرنے اور مریدی کے دوسرے طریقے اختیار کرلیے تھے۔ داڑھی منڈوا دی ۔جس کے سبب جان بخش دی گئی

بادشاہ کیوں نہ کرسکے حج

ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بے پناہ وسائل اور ذرائع ہونے کے باوجود مغل بادشاہ حج نہ کرسکے ،جس کا اہم سبب تھا بادشاہت،حکومت کو بچانے کے لیے بڑی جنگوں کا سلسلہ ،جس کے سبب کسی بھی بادشاہ کے لیے ایک طویل عرصے تک تخت یا محل سے دور رہنا ممکن نہیں تھا ،تاریخ بتاتی ہے کہ اکبر کو زندگی میں دو درجن کے قریب بڑی جنگوں اور لاتعداد بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا،اکبر نامہ کے مصنف اور ’دربار اکبری‘ کے اہم مشیرعلامہ ابوالفضل اس محرومی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ7 اکتوبر 1576 کو اجمیر میں درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی،میں اکبر نے احرام زیب تن کیا تھا لیکن  بادشاہت کی ذمہ داریوں کے سبب حاجیوں کے قافلے کے ساتھ کچھ دور تک سفر کیا اور پھر قافلے کو اوداع کہہ دیا، یعنی شہنشاہ نے سرکاری حج کرایا، حج کو انعام اور سزا بنایا لیکن خود حجاز کا سفر نہیں کرسکا ۔