منصور الدین فریدی : آواز دی وائس
سعودی عرب سے امریکہ تک ’قربانی‘ صرف ایک مذہبی فریضہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی سماجی ذمہ داری بھی ہے ، جس کے سبب قربانی بہت ہی منظم طریقہ سے ہوتی ہے ، قربانی کے لیے خصوصی اجازت نامہ حاصل کرنا ہوتا ہے اور اس کے لیے مخصوص سلاٹر ہاوس کا رخ کیا جاتا ہے ۔ کیا سعودی عرب ،کیا متحدہ عرب امارات اور کیا امریکہ و یورپ ۔ ہر خطہ میں قربانی بند کمرے کا عمل ہے۔ مگر اس کے برعکس برصغیر یعنی ہندوستان۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں عید قربان نصف ایمان یعنی صفائی کی دھججیاں اڑتے ہوئے دیکھتی ہے۔ نالیوں سے بہتا خون ،سڑکوں پر جانوروں الائش ،کٹے ہوئے سر اور کھالیں کے ڈھیر کے ساتھ فضا میں ایک انتہائی خوفناک بدبو ۔ یہ آلودگی کوئی ایک دن تک محدود نہیں رہتی ہے بلکہ عید قربان کے کئی دنوں بعد بھی یہ بدبو ایک مقدس تہوار اور مذہبی جذبہ کا مذاق اڑاتی رہتی ہے ۔
واضح رہے کہ سعودی عرب میں سلاٹر ہاؤسز اور مطابخ کے علاوہ نجی طور پر قربانی کی اجازت نہیں ہے۔ سعودی شاہی حکومت کی کنزیومرز پروٹیکشن ایسوسی ایشن نے قربانی کے لیے پاک صاف جراثیم سے پاک مخصوص مذبح بنائے ہیں
امریکہ میں قربانی کی اجازت صرف رجسٹرڈ مذبح خانوں میں ہے۔برطانیہ میں جانوروں کا ذبح صرف تسلیم شدہ اور رجسٹرڈ سلاٹر ہاؤسز کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات عید قربان کے موقع پر باقاعدہ ایسے ضابطوں کا اعلان کرتے ہیں جو قربانی کو بالکل ذاتی عمل بناتے ہیں جس سے کسی اور کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو،گندگی نہ پھیلے اور ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ پیدا نہ ہو ۔ قانون کی سختی کا یہ عالم ہے کہ ابو ظہبی میں تو اس کی خلاف ورزی کرنے پر نہ صرف جرمانہ اور جیل کی سزا ہے بلکہ ملک بدر کرنے کی راہ بھی کھلی رہتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب ہو یا متحدہ عرب امارات یا پھر امریکہ یا یورپ ۔ کہیں بھی عید قربان کسی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ۔ نہ نالیوں میں خون بہتا ہے اور نہ فضا میں بدبو پھیلتی ہے ۔ سب کو اس بات کا احساس ہے کہ مذہبی فریضہ کے ساتھ دوسروں کے جذبات اور ناپسندگی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس سے اہم بات صفائی اور صحت کی ہے جو سب کے لیے یکساں اہمیت رکھتی ہے۔
اب کورونا وبا کے بعد ایک اور بڑا راستہ کھل گیا ہے جو ’آن لائن‘ قربانی کا ہے۔رقم ادا کریں اور گھر بیٹھے اپنی قربانی کا گوشت پائیں ۔اگر اس گوشت کو کسی ضرورت مند خطہ یا طبقہ کو پہنچانے کی خواہش ہو تو ایسا بھی ممکن ہو۔ کیونکہ ایسے ادارے سرگرم ہیں جو ضرورت مند ممالک میں قربانی کا گوشت بھیجوا رہے ہیں ۔
متحدہ عرب امارات ۔۔ صفائی نصف ایمان ہے
اس معاملہ میں متحدہ عرب امارات نے ایک مثال قائم کی ہے ،دبئی ہو یا ابو ظہبی یا پھر شارجہ ۔سب نے عید قرباں کو سلاٹر ہاوسیز تک محدود رکھا اور ہاوسنگ سوسائٹی اور سڑکوں کے ماحول کو محفوظ رکھا۔ یہی نہیں جانوروں کے بازاروں کو سلاٹر ہاوسیز سے جوڑا ہے ۔ کس علاقہ کے لوگوں کو کس سلاٹر ہاوس کا رخ کرنا ہے یہ بھی واضح رہتا ہے۔ یعنی کوئی افراتفری نہیں ،کوئی لوٹ مار نہیں ۔ اب مقررہ وقت پر جائیں اور قربانی کے گوشت کا اپنا پیکٹ لے کر آجائیں ۔
بات اگر ابوظہبی کی کریں تو رہائشی احاطے یا عوامی مقامات پر جانوروں کو ذبح کرنا غیر قانونی ہے اور حکام عید کے دوران اس طرح کے عمل کو روکنے کے لیے سخت نگرانی رکھی جاتی ہے ،قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
وزارت محنت، ابوظہبی میونسپلٹی اور ابوظہبی پولیس کے عہدیداروں پر مشتمل ایک کمیٹی عید کے دوران شہر میں گشت کرتی ہے۔اگر کوئی قصاب غیر قانونی طور پر جانور ذبح کرتے ہوئے پکڑا گیا تو اسے لیبر قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے، اسے جیل بھیجا جا سکتا ہے اور قانونی کارروائی کے بعد ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ اس کے اسپانسر کو دس ہزار درہم اور جانور کے مالک کو دو ہزار درہم جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
اس بار بھی ابوظہبی نے اعلان کیا تھا کہ منی زید میں مویشیوں کی منڈی میں اپنے قربانی کے جانور خریدنے کے بعد شہری المینا، خودکار مذبح خانہ (المینا)، الوتبہ، بنیاس اور الشہامہ کے سلاٹر ہاوس میں لے جائیں ۔ یہی نہیں خصوصی ایپس پر بھی درخواست کر سکتے اور گوشت کی ترسیل کروا سکتے ہیں ۔ ان میں 'میری قربانی' اور ریڈ کریسنٹ اتھارٹی (حلال) ایپ شامل ہیں۔
دبئی ایک مثال ہے
دنیا میں سب سے بڑا کاروباری مرکز بنا دبئی بھی اپنی صفائی اور خوبصورتی کے لیے مشہور و مقبول ہے ۔دبئی میونسپلٹی کی نگرانی میں جانوروں کی قربانی کی درخواست کے لیے منظور شدہ چار سمارٹ ایپلی کیشنزالمواشی، ترکی، ذبیح الدار اور شباب ال فریج ایپس ہیں۔ دبئی کے لوگ ان ایپس کے ذریعے اپنی درخواستیں دیں اور شہری ادارہ نے اس بات کو یقینی بنایاکہ صاف اور حلال گوشت ان کی دہلیز پر پہنچے۔ میونسپلٹی اس بات کو بھی یقینی بناتی ہے کہ قربانی سے پہلے تمام قربانی کے جانوروں کا طبی معائنہ کرایا جائے۔ اس کے بعد گوشت بھی چیک کیا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ دبئی کے لوگ ڈی ایم سے منظور شدہ خیراتی اداروں جیسے دارالبیر سوسائٹی، دبئی چیریٹی ایسوسی ایشن، ریڈ کریسنٹ اتھارٹی، الاحسان چیریٹی ایسوسی ایشن، بیت الخیر سوسائٹی اور یو اے ای فوڈ بینک سے بھی جانوروں کی درخواست کر سکتے ہیں۔
شارجہ بھی صاف ستھرا
اسی طرح کرکٹ کا مرکز بن کر مشہور ہوا شارجہ بھی عید قربان کے موقع پر ضابطوں کا پابند رہتا ہے۔ شارجہ میونسپلٹی نے کہا ہے کہ شارجہ کے رہائشی اپنی عید الاضحی کے جانوروں کی قربانی پیش کرنے والے "کم سے کم فیس" کے عوض گوشت اپنے گھروں تک پہنچا سکتے ہیں۔
انہیں صرف جانور کا انتخاب کرنے، ادائیگی کرنے اور ہوم ڈیلیوری کے لیے رجسٹر کرنے کے لیے مویشی منڈی جانا پڑا۔ اس کے بعد بازار مرکزی مذبح خانے کے ساتھ رابطہ قائم کیا اور قربانی کو آسان بنایا۔مکینوں کو بتایا گیا ہے کہ بازاروں اور مذبح خانوں میں نقدی قبول نہیں کی جائے گی۔ تمام ادائیگیاں ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کرنی ہوں گی۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اپ گھر بیٹھے ایک بڑی ذمہ داری انجام دے سکتے ہیں ۔
شارجہ میں ایک عارضی منڈی قائم کی گئی، جہاں صرف جانور بیچنے اور خریدنے والے نہیں بلکہ جانوروں کے ڈاکٹر بھی تعینات رہے ہیں تاکہ گاہک کی خریداری مکمل کرنے سے پہلے جانوروں کا معائنہ کیا جا سکے۔ میونسپلٹی علاقے میں گاڑیوں کی نقل و حرکت کو منظم کرنے کے لیے شارجہ پولیس کے ساتھ رابطہ میں رہتی ہے۔اس منڈی کے قیام کا مقصد عید الاضحی کے دوران مویشیوں کی غیر محفوظ اور بے ترتیب فروخت کو محدود کرنا ہے۔
ہندوستان میں کیا ممکن ہوسکتا ہے
درگاہ اجمیر شریف کے گدی نشین اور چشتی فاونڈیشن کے سربراہ حاجی سید سلمان چشتی کہتے ہیں کہ بے شک قربانی منظم ہو ہم بھی اس کے حق میں ہیں ،مگر یہ ایک آسان عمل نہیں ہوگا ۔ جن ممالک میں یہ نظام ہے وہاں کی حکومتیں اس میں براہ راست سرگرم ہیں۔ میں نے ترکی سے مالدیپ تک قربانی کے نظام کو دیکھا ہے ۔ جو انفرادی کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ اس میں حکومت کی ذمہ داری ہے ۔
آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ مالدیپ کے مالے میں تو قربانی کی اجازت ہی نہیں ہے ،اس کے لیے حکومت نے ایک جزیرہ وقف کردیا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ قربانی کے بعد الائش وغیرہ کو کھاد کی شکل دی جاتی ہے ۔ کوئی بھی گندگی سمندر میں نہیں بہائی جاتی ہے۔
سلمان چشتی نے کہا کہ اس قسم کا کوئی بھی نظام اس وقت ممکن ہے جب حکومت اس میں بڑی ذمہ داری نبھائے۔ ہر شہر کی میونسپلٹی آگے آئے۔قربانی سے گوشت کی تقسیم تک کا مرحلہ بھروسہ اور اعتماد کا معاملہ ہوتا ہے اس پر کھرا اترنا انتظامیہ کی ذمہ داری ہوگی۔ حکومت کو کسی لائحہ عمل کے ساتھ آنا ہوگا۔
سید سلمان چشتی کہتے ہیں کہ صفائی اہم ہے لیکن اس کے لیے انفرادی کوشش کافی نہیں ،اس سلسلے میں بڑے فیصلے اور قدم اٹھانے ہونگے۔اس وقت این جی اوز سرگرم ہیں وہ حصہ داری کی قربانی کا نظام بنا رہی ہیں وہ بھی صفائی میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن اگر ہم چاہتے ہیں کہ گھر گھر اور محلے محلے قربانی نہ ہو تو اس کے لیے حکومت کو بھی سرگرم ہونا پڑے گا۔
ممبئی کی انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی کہتے ہیں کہ منظم قربانی ممکن ہے لیکن آسان نہیں۔یہ کام حکومت سے زیادہ این جی اوز انجام دے سکتی ہیں ،اس کا تجربہ کچھ بڑے شہروں سے شروع کیا جاسکتا ہے ،پہل تو کرنا چاہیے۔
ہم نےممبئی میں اس سلسلے میں بیداری مہم چلائی ہے اور اس کا اثر بھی نظر آرہا ہے اور امید ہے اگلے سال صورتحال میں مزید بہتری آجائے گی۔ انہوں نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک میں جو منظم انتظام ہے وہ حکومت کراتی ہے ۔ایسا ہندوستان میں مشکل ہوگا ،اتنا ضرور ہے کہ ہم سوچھ بھارت ابھیان کے تحت حکومت سے کچھ مدد لے سکتے ہیں لیکن پہل این جی اوز اور مسلم اداروں یا تنظیموں کو ہی کرنا ہوگی ۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکیزگی نصف ایمان ہے ،ہم سب جانتے ہیں ،ہماری مہم سے فائدہ ہوا ہے ،لوگ بیدار ہورہے ہیں لیکن آپ اگر اس کو سعودی عرب یا امریکہ کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں تو اس میں مسلم اداروں اور این جی اوز کے ساتھ حکومت کا ہاتھ اور ساتھ ضروری ہوگا۔ کیونکہ یہ نظام کوئی انفرادی یا تنظیمی سطح پر قائم نہیں کرسکے گا ۔ اس میں حکومت اور میونسپلٹی کا کردار بھی بہت اہم ہوگاا۔ بہرحال کام اچھا ہے تو اس کے مشکل ہونے کے باوجود مثبت رہنا چاہیے۔