روزہ اور اردو شاعری کا نگار خانہ

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 17-03-2024
روزہ اور اردو شاعری کا نگار خانہ
روزہ اور اردو شاعری کا نگار خانہ

 

   ڈاکٹر عمیر منظر
          شعبہ اردو
         مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس۔لکھنؤ
 
ماہ رمضان ایک بابرکت مہینہ ہے، جس کا مسلمانوں کے علاوہ دوسروں کو بھی انتظار ہتا ہے۔اس مہینے میں مسلمان روزوں کا اہتمام کرتے ہیں،نیکی اور بھلائی کے کاموں میں دیگر مہینوں کے مقابلے میں زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔زکوۃ و صدقات کے ذریعے معاشی اعتبار سے غریب اور کمزور لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ایک عجب نورانیت کی فضا رہتی ہے۔اور پورے معاشرے پر ایک خاص قسم کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ماہ مبارک کے تعلق سے بہت سی روایتیں اور طریقے بھی رائج ہیں۔اسی لیے اس کا ذکر اردو شعرو ادب میں مختلف حوالوں سے کیا جاتا رہا ہے۔رحمت و برکت کے اس مہینے کے مختلف جذبات واحساسات کو اردو شاعری کے پیکر میں ڈھالا گیا ہے۔اردو کی تقدیسی شاعری کا اسے ایک روشن پہلو قرار دیا جاسکتاہے۔رمضان اور روزوں کے تعلق سے ایک طرف تو ادب اطفال کے تحت نظمیں لکھی گئیں
جس میں بچوں کے سامنے نیکی اوررحمت و برکت کے ماحول کا نقشہ کھینچا گیا تاکہ ان کے اندر بھی اس طرح کے جذبات پیدا ہوں اور وہ اپنے جیسے انسانوں کے دکھ درد کو محسوس کرسکیں۔ایک دوسرا پہلو اردو کی عوامی ثقاقت کے تحت قوالی کا ہے۔اس کے علاوہ بے شمار شعرا نے اس موضوع پر نظمیں لکھی ہیں۔ان نظموں کا تنوع اور رنگارنگی قابل رشک ہے۔اردو کی مقبول صنف سخن غزل ہے۔اس صنف میں بھی شعرا نے تجربہ کیا اور غزلوں میں روزہ کے مضامین کو نہایت کام یابی کے باندھا۔ان تمام کا احاطہ تو نہیں کیا جاسکتا لیکن اس حوالے سے کچھ اہم نکات پیش کیے جاسکتے ہیں۔
رمضان سے متعلق نظموں کا ایک بڑا ذخیرہ قوالی شکل میں بھی پایا جاتا ہے۔بے حد سامنے کی چیزوں کو شاعری کی پیکر میں ڈھال کرپر کشش انداز میں قوالوں نے پیش کیا ہے۔اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ رمضان سے متعلق ایک بڑی مشہور قوالی،رمضان کا مہینہ بڑی برکتوں کا ہے‘اس فن سے دلچسپی رکھنے والے کم ہی لوگ ایسے ملیں گے جنھوں نے اس قوالی کو نہ سنا ہو۔اسی طرح سے ”خوشیاں ہزار لایا رمضان کا مہینہ“۔اس کے علاوہ ”نور کی بارشیں ہورہی رات دن۔”آگیا آگیا دیکھو رمضان ہے“۔وغیرہ وغیرہ۔قوالیاں اردو کلچر کا حصہ رہی ہیں اسی لیے ایک بڑا طبقہ تک اس کی رسائی رہی ہے۔  
اردو شعرو ادب سے دلچپسی رکھنے والے جانتے ہیں کہ شعرا نے ماہ رمضان کے حوالے سے جہاں بے شمار نظمیں کہی ہیں، جس میں اس ماہ کی فضیلت اوراس کی رحمت و برکت کو پیش کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس ماہ کی بعض دوسری خصو صیات کو بھی نمایاں کیا ہے۔ بہت سے شعرا نے ماہ رمضان اور روزہ پر بچوں کے لیے نظمیں لکھیں جس میں کہیں معلومات ہے تو کہیں نیکی اور اچھائی کے جذبے کو ابھارا گیا ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ اس پورے ماحول سے بچے واقف ہوجائیں۔چونکہ اردو شاعری میں بچوں کا ادب ایک الگ ہی موضوع ہے۔ان کے لیے بے شمار شعرا نے بے حد وقیع اور یادگار ادب تخلیق کیا ہے۔اردو میں بچوں کے رسالوں نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔بچوں کے ماہانہ رسالوں نے اکثر عید پر خصوصی نمبر نکال کر بچوں کو اس پورے ماحول سے آشنا اور قریب کرنے کا کام کیا ہے۔
اردو شاعری میں دیگر اصناف کے مقابلے میں غزل کوفوقیت حاصل ہے۔چونکہ غزل میں شعرا کو آزادی رہتی ہے مضامین باندھنے کی اس وجہ سے غزلوں میں جہاں حسن وعشق کی دنیا بیدار رہتی ہے وہیں شعرا دیگر مضامین بھی غزلوں میں باندھنے کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو روزہ کے حوالے سے شعرا نے غزلوں کے اشعار میں نئے نئے پہلو نکالے ہیں۔اس نوع کے اشعار میں مضمون آفرینی کی مختلف جہتیں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔غزلوں کے اشعار میں لطف و انبساط بھی ہے اور کہیں کہیں طنز بھی۔سید وزیر علی صبا لکھنوی نے ایک شعر میں زاہد پر اس طرح چوٹ کی ہے۔
ہم رند پریشاں ہیں ماہ رمضاں ہے
چمکی ہوئی ان روزوں میں واعظ کی دکاں ہے
رند اور واعظ کا تضادتو ہے ہی اسی کے ساتھ واعظ جو کہ نیکی اور خیر خواہی کی طرف بلاتا ہے اس کی طرف طنزبھی خوب ہے۔جس وجہ سے رند پریشان ہے وہی سبب واعظ کی دوکان کے چمکنے کا ہے۔ غزل کی رسومیات میں عاشق کو پریشان کرنا محبوب کا ایک اہم مشغلہ ہے۔اس مضمون کو شعرا نے ہزار انداز میں  باندھا ہے۔روزہ کے حوالے سے کچھ اسی نوعیت کا ایک شعر امیر مینائی کا ہے۔
یہ بھی اک بات ہے عداوت کی
روزہ رکھا جو ہم نے دعوت کی
یعنی جب تک ہم نے روزہ نہیں رکھا تھا دعوت نہیں ہوئی لیکن عاشق کے روزہ رکھتے ہی اس نے دعوت کا اہتمام کر ڈالا۔مصحفی نے ایک شعر میں روزہ افطار کرنے کا مضمون خوب نکالا ہے۔
اے مصحفی صد شکر ہوا وصل میسر
افطار کیا روزہ میں اس لب کے رطب سے
رطب پکی ہوئی ایسی تازہ کھجور کو کہتے ہیں جو خشک نہ ہوں۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ کھجور سے روزہ افطار کرنا سنت ہے۔دوسری طرف غزل کی دنیا میں عاشق کی آرزو محبوب کے وصال کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی۔یہاں دن بھر کا روزہ رکھنے کے بعد جو افطار کی صورت بنی ہے وہ محبوب کے وصال سے عبارت ہے۔مصحفی کا ایک شعر او ر ملاحظہ فرمائیں
دل اور سیہ ہوگئے ماہ رمضاں میں
اک حوض ہے آئینہ نیرنگ زمیں پر
روزہ اور وصل کے حوالے سے احمد کمال پروازی کا ایک شعر ملاحظہ 
تمہارے وصل کا جس دن کوئی امکان ہوتا ہے
میں اس دن روزہ رکھتا ہوں برائی چھوڑ دیتا ہوں
روزے کی روح تقوی ہے۔یعنی اللہ تعالی کے جو احکام اور فرمامین ہیں ان پر پورا پورا عمل کرنا۔اور ان تمام چیزوں سے رک جائے جس سے منع کیا ہے۔درج بالا شعر میں وصل کے امکان پر برائی چھوڑنے کی بات کی جارہی ہے۔روزہ میں دراصل تمام نفسانی خواہشات سے انسان خود کو دور کرلیتا ہے۔
میرتقی میر کو خدائے سخن کا مرتبہ حاصل ہے۔روزے کے حوالے سے بھی ان کے یہاں بعض لطیف شعری خیالات ملتے ہیں۔ان کا ایک شعر ہے
زنار پہنا سبحہ کے رشتے کے تار توڑ
ترک نماز و روزہ و اسلام کرچکے
سبحہ دراصل اس دھاگے کو کہتے ہیں جس میں دانے پروئے جاتے ہیں اورپھر ان کی حیثیت تسبیح کی ہوجاتی ہے۔یہی دانے اگر دھاگے سے گرادیے جائیں تو صرف دھاگہ بچے گا اور دھاگے ہی زنار ہوتا ہے۔یعنی الگ سے زنار لانے کی ضرورت نہیں ہے
ان اشعار سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شعرا نے اس موضوع کو بھی اسی آزادی کے ساتھ غزل کے پیرائے میں بیان کیا ہے۔میرتقی میر کا ایک اور شعر ہے
یہی درخواست پاس دل کی ہے
نہیں روزہ نماز کچھ درکار
میر مہدی مجروح نے ایک بہت سادہ اور آسان شعر کہا ہے اور یہی حقیقت ہے۔وہ کہتے ہیں
کیا ہماری نمازکیا روزہ
بخش دینے کے سو بہانے ہیں
واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں سے جس قدر محبت اور رحمت کرتا ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ہے اور یہ ساری چیزیں تو ایک بہانہ ہیں۔اسے بحشش کا کوئی نہ کوئی بہانہ چاہیے۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ اردو غزل کے عاشقوں کا نہ کوئی علاقہ ہے اور نہ اس کے چاہنے والے اور اس سے محبت کرنے کسی ایک ملک خطے یا رنگ ونسل کے لوگ ہیں۔بلکہ اس میں بلا امتیاز رنگ ونسل بے شمار لوگ شامل ہیں۔اس تناظر میں بھارت بھوشن کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں
ہم کافروں نے شوق میں روزہ تو رکھ لیا
اب حوصلہ بڑھانے کو افطار بھی تو ہو
حوصلہ بڑھانے کا جواب نہیں۔اور شوق میں روزہ رکھنا بھی خوب ہے۔یعنی اس میں کوئی جبر شامل نہیں تھا۔
یہ ذکر مرزا غالب کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔روزوں کے حوالے سے ان کے بعض لطائف تو بہت مشہور ہیں۔لیکن اس کے علاوہ انھوں نے روزہ سے متعلق قطعہ اور رباعی بھی کہی ہے۔اپنے اسی ڈھب اور انداز میں۔چونکہ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ مرزا نوشہ تنگ دست ہیں۔ان کے پاس کچھ ہے نہیں اسی رعایت سے فائدہ اٹھاکر انھوں نے ایک قطعہ کہا جو بہت مشہور ہوا۔
افطار صوم کی کچھ اگر دستگاہ ہو
اس شحص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے
یعنی روزہ کھول کر اگر کچھ کھانے کو نہ ہو تو آخر وہ ناچار روزہ نہیں کھائے گا تو کیا کرے گا۔روزہ کھانا اور روزہ کھول کر کھانے سے مرزا نے خوب لطف پیدا کیا ہے۔
ایک رباعی میں مرزا کہتے ہیں
سامان خور وخواب کہاں سے لاؤں
آرام کے اسباب کہاں سے لاؤں
روزہ مرا ایمان ہے غالب لیکن
خس خانہ وبرفاب کہاں سے لاؤں
اس میں بھی وہی شکوہ ہے کہ روزہ پر میرا ایمان تو ہے مگر مجھے وہ سہولت حاصل نہیں۔میں غریب آدمی ہوں یہ سہولت کے اسباب کہاں سے مہیا ہوں۔
چیدہ چیدہ اشعار کو پیش کرنے سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے اردو شاعری کے دائرے سے کوئی بھی موضوع باہر نہیں ہے۔انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بڑی خوبی کے ساتھ شعرا نے شعری پیکر عطا کیا ہے اور اس میں لطف کاکوئی نہ کوئی پہلو ضرور رکھا ہے۔اس میں علامہ اقبال کی شاعری کو اس لیے شامل نہیں کیا جاسکا  کہ روزہ سے متعلق ان کا انداز نظر مختلف ہے۔ کوشش ہوگی کہ اس حوالے سے ان کا کلام اوردیگر تحریروں کا باعاقدہ مطالعہ کیا جائے