یوم پیدائش اسپیشل
زبیا نسیم :ممبئی
مدبر، سائنس داں، شاعر، معلم، مفکر، فنکار اور بہت کچھ ، صفات کی یہ فہرست طویل ہے اور ان میں بظاہر تنوع ہے، مگر ان میں سے کوئی ایک یا سب مل کر بھی ہمارے محبوب مرحوم ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی شخصیت کا مکمل احاطہ نہیں کر سکتے۔ ان کے لیے ’’انسانوں میں عظیم‘‘ یا ’’مردوں میں دیو قامت‘‘ جیسے الفاظ استعمال کیے گئے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام تعبیرات مل کر بھی ان کی ہستی کی وسعت کو پوری طرح بیان نہیں کر سکتیں۔ڈاکٹر کلام کو ہندوستان کے ’’میزائل مین‘‘ کے طور پر شہرت حاصل ہوئی۔ انہوں نے بیلسٹک میزائل اور لانچ وہیکل ٹکنالوجی کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ وہ نہ صرف تکنیکی بلکہ تنظیمی اور سیاسی طور پر بھی بھارت کے 1998 کے پوکھران دوم جوہری تجربات کے معماروں میں شامل تھے۔ ان کا پختہ یقین تھا کہ ہندوستان کی جوہری صلاحیت کو بڑھانا عالمی سیاست میں ملک کی جائز حیثیت کے اظہار کے لیے ناگزیر ہے۔
عوامی صدر: سادگی اور انسان دوستی کی مثال
یہ کہانی ہے ایک ایسے شخص کی جو زمین سے اٹھا اور آسمانوں کو چھو گیا۔ جو مچھلی فروش کے بیٹے سے ہندوستان کے صدر بننے تک کا سفر طے کرتا ہے، مگر اپنی عاجزی اور انسان دوستی سے کبھی جدا نہیں ہوا۔ یہ کہانی ہے ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی ، سائنس، تعلیم، اور انسانیت کا وہ روشن استعارہ، جس نے ایک پوری قوم کو خواب دیکھنا سکھایا۔جب ڈاکٹر عبدالکلام 2002 میں ہندوستان کے گیارہویں صدر بنے تو وہ محض ایک سیاستدان نہیں بلکہ عوام کے دلوں کا صدر تھے۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں کے متفقہ امیدوار کے طور پر ان کا انتخاب ایک نایاب اتفاق تھا۔ انہوں نے اس عہدے کو ذاتی وقار کے بجائے قومی خدمت کا میدان بنایا۔ ان کی سادگی، ایمانداری، خوش اخلاقی اور خاکساری نے انہیں ہر دل عزیز بنا دیا۔ وہ عوام کے صدر تھے ، اور عوام ہی ان کی طاقت۔
صدر جمہوریہ کے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود وہ ہمیشہ عام انسانوں کی طرح زندگی گزارتے رہے۔ راشٹرپتی بھون کی چمک دمک کے بیچ بھی ان کا دل طلبہ، کسانوں اور سائنس دانوں کے درمیان بستا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ قوم بنانا ہی ان کا سب سے بڑا خواب ہے۔ڈاکٹر کلام پہلے سائنس داں تھے جنہوں نے ہندوستان کی صدارت کا منصب سنبھالا۔ وہ ایک غیر سیاسی مگر ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی سادگی، وژن، عاجزی اور عوام تک براہِ راست رسائی نے انہیں ’’عوامی صدر‘‘ بنا دیا۔
انہیں خاص طور پر بچوں سے بے پناہ محبت تھی۔ ان کی آنکھوں میں چمک اور لہجے میں اپنائیت بچوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی۔ وہ گھنٹوں بچوں کے درمیان بیٹھے رہتے اور بات چیت کرتے۔ ان کے چہرے پر خوشی اور اطمینان کی وہ جھلک ابھر آتی جو منظر کو روحانی تقدس عطا کر دیتی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ ساری زندگی کنوارے رہے مگر بچوں کے ساتھ ان کی قربت ایک فطری جذبے کی طرح تھی۔ یہی وصف ان کے ’’عوامی صدر‘‘ ہونے کی سب سے بڑی علامت تھا۔
ترقی کا وژن: ایک متحد قوم کا خواب
25 جولائی 2002 کو پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں حلف لینے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں ڈاکٹر کلام نے قوم کے دل میں ایک نئی روشنی جلائی۔ انہوں نے کہا تھا۔“اب ہمیں ملک میں ایک تحریک کی ضرورت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں کو بیدار کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ ہم اس کے لیے کام کریں گے۔ ہم وقت کی رفتار کے ساتھ چلنا سیکھیں گے، تبھی ہم ایک ترقی یافتہ قوم بن سکیں گے۔”
یومِ آزادی 2002 کے موقع پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ہندوستان کے مختلف شعبوں میں کامیابیوں کا ذکر کیا ، زراعت، توانائی، صحت، تعلیم، سائنس، انفارمیشن ٹکنالوجی، دفاع اور نیوکلیئر تحقیق ، اور پھر ایک نیا وژن پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح آزادی کی تحریک نے پورے ملک کو متحد کیا، اسی طرح اب ہمیں ایک دوسری تحریک کی ضرورت ہے ، جو ہندوستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے ہر طبقے کو ایک مقصد پر اکٹھا کرے۔
ان کے مطابق اس وژن کا مقصد غربت، ناخواندگی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہے۔جب ہمارے ملک کے لوگوں کے اذہان اس وژن پر متحد ہوں گے تو ایک بہت بڑی طاقت ابھرے گی جو ایک ارب لوگوں کی خوشحال زندگی کا باعث بنے گی۔
ڈاکٹر کلام بطور معلم
اپنی بے شمار کامیابیوں کے باوجود، ڈاکٹر کلام ہمیشہ چاہتے تھے کہ انہیں ’’استاد‘‘ کے طور پر یاد رکھا جائے۔یہ ایک روحانی اتفاق تھا کہ وہ 27 جولائی 2015 کو شیلانگ کے آئی آئی ایم میں بطور استاد لیکچر دے رہے تھے کہ وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔وہ کہا کرتے تھے کہ اگر کسی ملک کو بدعنوانی سے پاک اور خوبصورت ذہنوں کا ملک بننا ہے تو اس کے لیے ماں، باپ اور استاد تین بنیادی ستون ہیں۔ان کے نزدیک تعلیم صرف نصاب نہیں بلکہ ایک تحریک ہے جو سوچنے اور خود کو دریافت کرنے پر مجبور کرے۔ ان کا قول تھا ۔۔۔ حقیقی تعلیم وہ ہے جو انسان سے یہ سوال کروائے کہ میں کیا کر سکتا ہوں؟
اکیسویں صدی کا تعلیمی ماڈل
ڈاکٹر کلام نے ہندوستان کے لیے اکیسویں صدی کا ایک جامع تعلیمی ماڈل پیش کیا جو پانچ ستونوں پر قائم تھا:
تحقیق و تفتیش
تخلیقی صلاحیت و جدت
اخلاقی قیادت
کاروباری فروغ
اور سپر ٹکنالوجی کے استعمال کی صلاحیت
ان کا ماننا تھا کہ اکیسویں صدی علم اور معلومات کے بہتر انتظام کی صدی ہے۔ادارے اور اساتذہ طلبہ کو زندگی کا راستہ تلاش کرنے کی سہولت دیتے ہیں۔ جب معلومات کو نیٹ ورک کے ذریعے جوڑا جائے تو وہ طاقت میں بدل جاتی ہے۔”یہی اصول آج کی قومی تعلیمی پالیسی 2020 کی بنیاد بھی بنے۔
صدر سے استاد تک: ان کے آخری دنوں کی روشنی
یاد رہے کہ 24 جولائی 2007 کو اپنے شکریے کے خطاب میں ڈاکٹر کلام نے کہا کہ ان کے تین اہم تجربات میں پہلا ترقی کی رفتار کو تیز کرنا، دوسرا زراعت کو مضبوط بنانا، اور تیسرا ملک کا دفاع تھا۔انہیں ’’بچوں کے صدر‘‘ کہا جاتا تھا، کیونکہ وہ بچوں اور نوجوانوں کے درمیان خود کو سب سے زیادہ خوش محسوس کرتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ ایک مضبوط ہندوستان کی تعمیر نوجوان ذہنوں کی تخلیقی قوت سے ہی ممکن ہے۔وہ اکثر کہتے تھے ۔۔۔ “جب میں اسکول کے بچوں سے بات کرتا ہوں تو وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہمارے رول ماڈل کون ہیں؟ میں کہتا ہوں کہ روشن خیال شہریوں کے طور پر والدین اور اساتذہ ہی بچوں کے اصل رول ماڈل ہیں۔
یادگاریں اور اعزازات
ڈاکٹر کلام کے انتقال کے بعد ان کی یاد میں دہلی ہاٹ میں ’’اے پی جے عبدالکلام میموریل‘‘ کا افتتاح 30 جولائی 2016 کو کیا گیا۔ یہ میموریل ان کی لازوال محبت اور عوامی وابستگی کا مظہر ہے۔اسی طرح رامیشورم میں ان کی آخری آرام گاہ پر ایک میموریل تعمیر کیا گیا، جہاں آج بھی ان کے خوابوں کے دیپ جل رہے ہیں۔ڈاکٹر کلام کو 1981 میں پدم بھوشن، 1990 میں پدم وبھوشن، اور 1997 میں ملک کے سب سے بڑے اعزاز بھارت رتن سے نوازا گیا۔اس کے بعد 18 جولائی 2002 کو وہ 90 فیصد ووٹوں سے ہندوستان کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کی نامزدگی قومی جمہوری اتحاد نے کی تھی جسے انڈین نیشنل کانگرس کی حمایت حاصل تھی۔ان کے مقابل بائیں بازو کی جماعتوں نے محترمہ لکشمی سہگل کو امیدوار بنایا، مگر عوامی محبت نے کلام صاحب کو تاریخ کے صفحے پر امر کر دیا۔
ایک خواب جو زندہ ہے
ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام صرف ایک صدر نہیں تھے، وہ ایک خواب تھے ، ایک خواب جو ہندوستان کے ہر بچے کی آنکھوں میں آج بھی زندہ ہے۔انہوں نے ہمیں سکھایا کہ سادہ زندگی، عظیم سوچ اور بے لوث خدمت سے دنیا بدلی جا سکتی ہے۔وہ چلے گئے، مگر ان کا پیغام آج بھی ہر نوجوان کے دل میں گونجتا ہے:“خواب وہ نہیں جو نیند میں آئیں، خواب وہ ہیں جو آپ کو سونے نہ دیں۔