بھیک مانگنا ۔ اسلامی تعلیمات کے منافی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 21-03-2024
بھیک مانگنا ۔ اسلامی تعلیمات کے منافی
بھیک مانگنا ۔ اسلامی تعلیمات کے منافی

 

زیبا نسیم : ممبئی

عبادت کا ماہ رمضان جہاں رونق لاتا ہے وہیں مسلم علاقوں میں گداگروں کا ایک سیلاب بھی لے آتا ہے،مساجد کے سامنے گداگر ،بازاروں میں فقیر ۔۔۔ گھر کے دروازوں پر سوالی ۔۔۔ جہاں نظر ڈالیں صرف مانگنے والوں کی ٹولیاں ۔۔۔ ہر کوئی الگ الگ انداز میں مانگتا ہوا نظر آتا ہے ۔ کوئی سامنے سے صدا لگاتا ہے کوئی پیچھے سے ۔ کوئی ہاتھ پھیلا کر گڑگڑاتا ہے تو کوئی  دہار لگا کر۔

پچھلے سال ہی یہ خبر نظر سے گزری تھی کہ ۔۔۔ سعودی عرب میں  گداگری اور بھیک مانگنے پر پابندی،ساتھ ہی بھیک مانگنے یا ان کی معاونت کرنے والے کو 1 سال قید اور 1 لاکھ ریال جرمانہ ہوگا ۔۔۔۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام  کا مرکز کہلانے والا سعودی عرب اس معاملہ میں کس قدر سخت ہے۔ اس کی مذہبی حیثیت اور سماجی و قانونی مسائل کے سبب ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ اگر کوئی غیر ملکی اس میں ملوث ہوتا ہے تو سزا کے بعد ملک بدر کیا جاتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اسلام میں کیا اس طرح بھیک مانگنا اور دینا جائز ہے؟ کیا مانگنے والا اس بھیک کا مستحق ہے یا دینے والا ثواب کا حقدار ہے ؟  

بھیک مانگنا اور بھیک مانگنے کو پیشہ بنانا اسلام میں قطعاً ممنوع ہے ۔ اسلام ہاتھ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا، وہ محنت مزدوری کر کے کمانے کھانے پر زور دیتا ہے، دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے کی اجازت بہ درجہ مجبوری ہے۔ اسلام میں پیشہ ورانہ بھیک مانگنے اور اسے اپنا خاندانی حق سمجھنے کی قطعاً گنجائش نہیں۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیک مانگنے کی نہ صرف ممانعت کی ہے بلکہ اس کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات بھی اٹھائے۔

مسلم شریف میں کہا گیا ہے کہ ۔۔۔ جن کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں تو ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے البتہ اگر کسی نے بھیک دے دی تو وہ گناہ گار نہ ہوگا، لینے والا گناہ گار ہوگا، البتہ ایسے افراد کو زکات یا صدقاتِ واجبہ نہیں دینا چاہیے۔

اس معاملے میں یہ بھی حکم ہے کہ جس آدمی کے پاس ایک دن کا کھانا ہو اور ستر ڈھانکنے کےلیے  کپڑا ہو اس کے لیے لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے، اسی طرح جو آدمی کمانے پر قادر ہو اس  کے لیے بھی سوال کرنا جائز نہیں، البتہ اگر کسی آدمی پر فاقہ ہو یا واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو جس کی وجہ سے وہ انتہائی مجبوری کی بنا پر سوال کرے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن مانگنے کو عادت اور پیشہ بنالینا بالکل بھی جائز نہیں ہے۔

یاد رکھیے اسلام میں بھیک مانگنا منع ہے۔ اسلام ہاتھ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا، وہ محنت مزدوری کر کے کمانے کھانے پر زور دیتا ہے، دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے کی اجازت بہ درجہ مجبوری ہے۔ اسلام میں پیشہ ورانہ بھیک مانگنے اور اسے اپنا خاندانی حق سمجھنے کی قطعاً گنجائش نہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مقام پر بھیک مانگنے کی ممانعت ان الفاظ میں کی ہے

نبی کریمؐ کا فرمان ہے۔۔۔۔ اوپر والے کا ہاتھ نچلے ہاتھ والے سے بہتر ہے۔۔۔ اوپر کا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نچلا ہاتھ مانگنے والا ہے۔

اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا

 سوالی جو ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ باب من سال الناس تکثرا)

ارشاد نبویؐ ہےکہ جس نے لوگوں سے ان کا مال زیادہ جمع کرنے کی نیت سے مانگا وہ آگ کے انگارے مانگ رہا ہے، چاہے کم مانگے یا زیادہ۔

حقیقت یہ ہے کہ جس دین نے بھیک مانگنے سے سب سے زیادہ منع کیا ہو، محنت سے کمانے کھانے اور کوشش و جدوجہد سے روزی حاصل کرنے پر سب سے زیادہ زور دیا ہو، اسی دین کے ماننے والوں میں فقیروں اور گداگر وں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔

 بھیک مانگنے کو کتنا برا قرار دیا گیا ہے اس کا اندازہ تو آپ کو ان حدیثوں کی روشنی میں ہوگیا ہوگا لیکن اسے کس حد تک ٹالنے کی کوشش کرنا چاہیے اس کا اندازہ لگانے کےلیے اس واقعہ کو پڑھ لیں ۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ  ۔۔۔۔ حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ ایک انصاری صحابی نبی کریمؐ کی خدمت میں آئے اور آپؐ سے سوال کیا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایاکہ تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے ؟ صحابی نے جواب دیا، ہاں! ایک ٹاٹ ہے جس کے کچھ حصے کو ہم پہنتے اور اوڑھتے ہیں، کچھ کو بچھاتے ہیں ۔ ایک پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں۔ پیغمبر اسلام  نے فرمایا دونوں چیزیں لے آؤ! صحابی  دونوں چیزیں لے کر آئے۔ پیغمبر اسلام نے ان چیزوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا کہ انہیں کون خریدے گا؟ ایک شخص نے کہا کہ  میں ان دونوں کوایک درہم میں خریدتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ ۔۔۔ایک درہم سے زیادہ کون دے گا ؟ آپؐ نے یہ بات دو یا تین مرتبہ فرمائی۔ گویا آپؐ یہ چیزیں نیلام فرما رہے تھے۔ ایک دوسرے آدمی نے کہا میں ان دونوں کو دو درہم میں خریدتا ہوں۔ پیغمبر اسلام نے اس سے دو درہم لے کر انصاری صحابی کو دیے اور فرمایا کہ ایک درہم کا کھانا وغیرہ خرید کر گھر والوں کودے دو اور دوسرے درہم کا کلہاڑی کا پھل خرید کر میرے پاس لاؤ۔ چناںچہ انہوں نے آپؐ کی ہدایت پر عمل کیا۔

پیغمبر اسلام نے اس میں لکڑی کا دستہ اپنے دستِ مبارک سے لگایا اور فرمایا کہ جاؤ! لکڑیاں کاٹ کر لاؤ اور بیچو اور دیکھو! پندرہ دن تک میں تمہیں نہ دیکھوں۔ چناںچہ وہ جنگل سے لکڑیاں لاکر فروخت کرتے رہے۔ جب پندرہ دن پورے ہوئے تو وہ دس درہم کما چکے تھے۔ کچھ کا کپڑا خریدا، کچھ کا کھانا۔ رسول اللہ نے ان کی محنت مزدوری کی کمائی کودیکھ کر فرمایا کہ یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن مانگنے کی وجہ سے تمہارے چہرے میں بُرا نشان ہو۔

حجۃ الوداع کے موقع پر دو افراد نبی پاکؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ اس وقت صدقات تقسیم فرما رہے تھے ان دونوں نے بھی مانگا۔ رسول اﷲ ﷺ نے ایک نظر دونوں پر ڈالی دیکھا کہ تن درست، توانا اور کمانے کے لایق ہیں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا۔۔۔اگر  میں چاہوں تو اس میں سے تم دونوں کو بھی دے سکتا ہوں، لیکن سن لو! کہ اس میں کسی مال دار اور کمانے کے لایق تن درست و توانا کا کوئی حصہ نہیں۔‘‘ ( ابوداؤد)

دوسری روایت میں ہے کہ صحیح الاعضاء کے لیے مانگنا جائز نہیں۔ ( ترمذی)

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  اگر پیشہ وربھکاریوں کو بھیک دینا گناہ ہے تو ہم نفلی صَدَقہ وخیرات کس کو دیں؟اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ  اپنے رشتہ دار اور اِرْدگِرد کے سفید پوش لوگوں میں سے حاجت مَنْدوں کو تلاش کریں پھر حسبِ توفیق مُناسب انداز سے اُن کی مالی مدد کردیں کہ اُن کی عزّتِ نفس بھی برقرار رہے۔ لیکن یاد رکھئے کہ اگر آپ اُنہیں زکوٰۃدیناچاہتےہیں تو اُن کا زکوٰۃ لینے کا حقدار ہونا ضروری ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ اسلام چاہتا ہے کہ صاحبِ حیثیت افراد اپنے اردگرد کے لوگوں کا خیال رکھیں۔ بلکہ حقدار کی بغیر مانگے مدد کریں۔ اگر ایسا ہوگا تو ضرورت مندوں کو بازاروں، چوکوں، چوراہوں میں مانگنا نہ پڑے۔ ہمارے معاشرے میں پھیلے ہوئے غربت و افلاس کے سائے نے نہ صرف ضرورت مندوں کو ہاتھ پھیلانے پر مجبور کر دیا ہے بلکہ پیشہ وروں نے بھی بھکاریوں کا روپ دھار لیا ہے۔ جو کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات اور روح کے خلاف ہے