اساتذہ کے سامنے عاجزى اور انکسارى اختیار کرو۔ پیغمبر اسلام

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 04-09-2023
  اساتذہ کے سامنے عاجزى اور انکسارى اختیار کرو۔ پیغمبر اسلام
اساتذہ کے سامنے عاجزى اور انکسارى اختیار کرو۔ پیغمبر اسلام

 

سید تالیف حیدر

ٹیچرز ڈے ۔۔ تعلیم گاہوں میں  یہ ایک ’تہوار‘ کی مانند  ہے، اساتذہ کے تئیں احترام اور محبت کے اظہار کا دن ہے۔ ہر اسکول اور کالج میں ۵ ستمبر کو ہوتا ہے جشن کا ماحول۔ یوم اساتذہ یوں تو سرکاری طور پر ایک دن کا جشن ہے لیکن اگر بات مذہب کی کریں خواہ وہ اسلام ہو ،عیسائیت یا سناتن ۔ہر مذہب نے اساتذہ کے حقوق کو واضح کیا ہے ۔بات ایک دن کے احترام یا خوشی کی نہیں بلکہ ہر پل اور ہر سانس میں اساتذہ کا شکر گزار ہونے کا حکم ہے۔

اگر ہم بات کریں اسلام کی تو اسلام میں  استاد کو روحانى باپ کا درجہ حاصل ہے اور استاد کى تعظىم با پ سے بڑھ کر ہے کہا جاتا ہے: باپ پدر گِل (جسم کا باپ) ہوتا ہے اور استاد بدر دل (دل کا باپ) ہوتا ہے۔

ایک مشہور قول ہے کہ ’’جس نے معالج کی عزت نہ کی وہ شفا سے محروم رہا اور جس نے استاذکی عزت نہ کی، وہ علم سے محروم رہ گیا۔‘‘ بلاشبہ، اسلام میں معلّم (استاذ) کی بڑی قدرومنزلت ہے۔

حضرت ابوہرىرہ رضى اللہ عنہ سے رواىت ہے حضور اکرم صلى اللہ تعالى علیہ وآلہ وسلم نے فرماىا : علم سىکھو او علم کے لىے ادب و احترام سىکھو، جس استاد نے تجھے علم سکھاىا ہے اس کے سامنے عاجزى اور انکسارى اختىار کرو۔(المعجم الاوسط ،حدىث 618, 5 4, ص. 342)

ابن ماجہ کی ایک حدیث ہے کہ رسول خدا ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا۔"مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔"(ابن ماجہ-229)۔ معلم کے معنی ہیں وہ شخض جو دوسروں کو تعلیم دے۔ یعنی استاد ۔ قرآن میں جگہ جگہ اللہ نے علم اور تعلیم کا تذکرہ کیا ہے۔ قرآن کی پہلی آیت ۔ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ0 خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔اپنے رب کے نام سے پڑھو جس نے پیدا کیا انسان کو خون کے لوتھڑے سے۔اسی طرح ایک جگہ فرمایا۔ علم الانسان مالم یعلم۔انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ اور جس کے ذریعے سکھایا۔ وہ رسول خدا ﷺ کی ذات ہے جنہیں ایک معلم بنا کر بھیجا گیا۔ اللہ نے رسول خداﷺ کی جو سب سے پہلی عظمت بیان کی وہ یہ کہ وہ اولین سیکھنے والے ہیں ۔ ایسے اول جو پوری دنیا کو سکھانے یا تعلیم دینے کے لیے بنی بنائے گئے۔ یعنی یہاں استاد اعظم خدا ہے اور استاد ثانی رسول خداﷺ۔ لہذا خدا کی ذات و صفات میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ علیم ہے۔

یہ وجہ ہے کہ اس نے یوم ازل میں فرشتوں سے کہا کہ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ‌۔میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے اور پھر اللہ نے آدم کو تعلیم دی۔ فرشتوں پہ آدم کی جو حیثیت برتر ٹھہری وہ بھی ایک استاد کی حیثیت ہی تھی۔ یعنی اللہ نے انہیں ان اسما کا علم عطا کیا تھا جو فرشتوں کے پاس نہ تھا۔ لہذا یہ ہی وہ حیثیت ہے جس کے سامنے تمام فرشتے سر جھکانے پہ مجبور ہو گئے۔ ایک استاد کی حیثیت سے آدم ؑ سے رسول خداﷺ تک تمام انبیا نے اپنے کردار کو بخوبی نبھایا اور یہ بات قرآ ن میں اللہ نے واضح کر دی کے کہ اس کے نبی مہدی ہیں اوروہ ہدایت کی جس راہ سے واقف ہیں اس کی تعلیم مختلف اقوام کو پہنچاتے ہیں ۔

اللہ نے قرآن میں فرمایا:کَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَ مُنْذِرِينَ وَ أَنْزَلَ مَعَهُمُالْکِتَابَ۔ سارے انسان ایک قوم تھے پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیائ بھیجے اور ان کے ساتھ برحقکتاب۔ ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام میں استاد کی حیثیت بہت جامع اور مانع ہے۔ اس سلسلے کو اگر ہم مزید آگے بڑھائیں تو علم کی قدر کرنے والے صحابہ کی شخصیت ہمیں سب سے افضل نظر آتی ہے۔ یعنی وہ رسول خداﷺ سے علم سیکھنے جانتے تھے۔ خواہ وہ دین کا ہو یا دنیا کا اور ان میں جو زیادہ بہتر سیکھتا تھا اور اس پہ عمل کرتا تھا وہ ان میں سب سے معتبر ٹھہرتا تھا۔ایسے ہی سیکھنے والوں کو قرآن نے متقی کہا ہے اور قرآن نے ان سیکھنے والوں کو اپنا دوست بتایا ہے۔

استاد کی اہمیت کو صحابہ اکرام کے بعد اگر کسی نے نہایت معتبر انداز میں طریق صحابہ کی مانند اپنا تو وہ صوفیا ئے کرام کی جماعت ہے۔ ان میں پیر اور مرید کا رشتہ اور سلاسل کی کی پوری تاریخ انہیں اساتذہ کے اور کے شاگردوں کے رشتے پہ استوار ہے۔ تصوف کی پوری تاریخ کی ابتدا حضرت علی سے ہوتی ہے۔ جن کے متعلق رسول خدا کا قول ہے کہ"أنا مدينة العلم وعليّ بابها فمن اراد العلم فليأتالباب"۔میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں پس جو بھی اس شہر میں داخل ہونا چاہتا ہے، دروازے سے آکر داخل ہوجائے۔

انہیں حضرت علی کا ایک قول ہے کہ " تم نے جس سے ایک لفظ بھی سیکھا وہ تمہارا استاد ہے۔استاد کے احترام کی ایسی بے شمار مثالیں قرآن، حدیث اور صحابہ کی زندگی میں ہمیں نظر آتی ہیں ۔ وہیں صوفیائے کرام کے یہاں اگر دیکھا جائے تو مولانا روم اس کی عظیم ترین مثال ہیں کہ انہوں نے کس طرح حضرت شمس تبریز جنہیں وہ اپنا آقا، استاد اور مربی تصور کرتے تھے ان کے متعلق اپنے کن خیالات کا اظہار کیا ہے۔ مولانا روم جن کی مثنوی کے لیے مشہور زمانہ شاعر انوری نے یہ شعر کہا کہ۔۔۔۔

مثنوی مولوی و معنوی

ہست قراں در زبان پہلو

یعنی مولانا روم کی مثنوی کو یہ مقام حاصل ہے کہ اسے پہلوی زبان کا قرآن تصور کرنا چاہیے۔ وہی مولانا روم اپنے استاد شمس تبریزی کے لیے کہتے ہیں کہ

مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم

تا غلام شمس تبریزی نہ شد

نفاہت الانس میں مولانا روم اور شمس تبریزی کے واقعات کی ایک تاریخ ہے کہ اپنے عہد کے سب سے بڑے عالم کو جب اس کے استاد نے ایک شراب کا گڑھا لے کر چوک پہ گھڑے ہونے کی ہدایت کی تو وہ بلا چون و چرا اس پہ عمل پیرا ہو گیا۔ یہ سلسلہ ہمیں امام رازی، امام جوزی، حافظ ابن قیم، امام ابن تیمیہ، امام غزالی اور اپنے عہد کے مجدد وقت محبوب الہی حضرت نظام الدین تک کے یہاں ایسے ہی نظر آتا ہے۔

حضرت امیر خسرو اپنے استاد محترم سلطان المشائخ کا ایسا احترام کرتے تھے کہ اگر سلطان المشائخ انہیں پوری رات ایک جگہ کھڑے رہنے کا حکم دے دیتے تو وہ وہاں سے ٹس سے مس نہ ہوتے ۔ خواہ دنیا کی کوئی بھی نعمت انہیں حاصل ہو رہی ہو۔ قرآنی تعلیمات اور صحیح احادیث میں علم کی اہمیت پہ اسی لیے زور دیا گیا ہے کہ ایک سچا مسلمان دوسروں کو با علم بنا سکے۔ جس سے اس کے مقام و مرتبے میں بھی اضافہ ہو اور دنیا بھی فیضیاب ہو۔ ہمیں رسول خدا ﷺ وہ حدیث ہر حال میں یاد رکھنا چاہیے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ"اطلبوا العلم ولو بالصین"یعنیعلم حاصل کرو خواہ تمہیں چین تک جانا پڑے۔

یاد رہے کہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو معلم کہا۔ آپ کے شاگرد یعنی آپ کےصحابہ آپ کا کتنا احترام کرتےتھے ۔ دنیا کی تاریخ ایسی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ دوستو! احترامِ استاد ایک عظیم جذبہ ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ: ’’جس شخص سے میں نے ایک لفظ بھی پڑھا میں اس کا غلام ہوں۔ چاہے وہ مجھے بیچ دے یا آزاد کردے‘‘