آل انڈیا ریڈیو کا باپو اسٹوڈیو ۔ پی ایم مودی کی کھوج

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-10-2025
 آل انڈیا ریڈیو  کا باپو اسٹوڈیو ۔ پی ایم  مودی کی کھوج
آل انڈیا ریڈیو کا باپو اسٹوڈیو ۔ پی ایم مودی کی کھوج

 



منصور الدین فریدی : آواز دی وائس 

باپو اسٹوڈیو  ۔۔۔  آل انڈیا ریڈیو میں جب ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کے لیے اسٹوڈیو کے ایک دروازے پراس تختی پر نظر پڑی تھی تو کہتے ہیں کہ بات آئی گئی ہوگئی، میں نے دیوار پر لگے  بابائے قوم مہاتما گاندھی کے کچھ  فوٹو گراف دیکھے اور  ریکارڈنگ کے بعد رخصت لی۔ لیکن  یوم آزادی کے موقع پر جب اردو مجلس کے ایک پروگرام میں شرکت کی تو ایک بار پھر  باپو اسٹوڈیو  میں قدم رکھا۔تو اس تختی کی کہانی جاننے کی بے چینی ہوئی۔ آخر کیوں ہے اس کا نام باپو اسٹوڈیو ؟  کیا ہیں اس کی یادیں ؟

کھوج میں جو پہلی بات سامنے آئی وہ یہ تھی کہ  یہ اسٹوڈیو  کسی اور نہیں بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی کی وجہ سے دریافت ہوا ہے ،گاندھی جی کے آل انڈیا ریڈیو آمد کی پرت بھی کھلی ،یہ بھی معلوم ہوا کہ کن حالات میں مہاتما گاندھی  آئے تھے اور کس سے کیا اپیل کی تھی ۔جس کے بعد  اس اسٹوڈیو کو تلاش کیا گیا اور اس پر  باپو اسٹوڈیو  کی تختی لگائی گئی  جو آج ہر کسی کے لیے توجہ کا مرکز ہے خواہ وہ ریڈیو کے اسٹاف ہوں یا پھر مہمان ۔

باپو اسٹوڈیو کا منظر ۔ وہ مائیک جس پر گاندھی جی نے اپنا خطاب ریکارڈ کرایا تھا 


آل انڈیا ریڈیو کے باپو اسٹوڈیو میں ریکارڈنگ کے بعد 


پی ایم کا سوال جو کھوج کا سبب بنا

دراصل  ایک دن وزیر اعظم نریندر مودی نے  آل انڈیا ریڈیو کی  ایک ٹیم سے پوچھا کہ ’ کیا کبھی باپو  کبھی ریڈیو  اسٹیشن آئے تھے اور کیا کبھی کوئی ریکارڈنگ کی تھی ؟ ایک عام سا سوال تھا لیکن  سوال پی ایم کا تھا۔اس  لیے ہنگامی طور پر جواب کی تلاش شروع ہوئی  اور آخر کار   ’باپو اسٹوڈیو ‘ کے ظہورکا سبب بنی ۔ افسران نے ریکارڈ کھنگالے تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ مہاتما گاندھی 12 نومبر 1947 کو آل انڈیا ریڈیو آئے تھے اور انہوں نے کرکشیتر میں رہنے والے پناہ گزینوں کے نام ایک تاریخی پیغام دیا تھا۔

اس کے بعد  اس کمرے کو بھی تلاش کرلیا گیا ،جس میں مہاتما گاندھی نے ریکارڈنگ کی تھی ۔آل انڈیا ریڈیو کے اسٹوڈیو بلاک کے اس چھوٹے کمرے کو ’’باپو اسٹوڈیو‘‘ کا نام  دیا گیا ۔ باپو اسٹوڈیو میں اس وقت اُن کے ساتھ موجود شخصیات کی تصاویر دیواروں پر آویزاں کی گئی ہیں۔ وہی مائیک بھی محفوظ ہے جس پر کھڑے ہو کر گاندھی جی نے اپنا پیغام دیا تھا۔ اُن کے ساتھ اُس موقع پرراجکماری امرت کور بھی موجودتھیں۔


  مہاتما گاندھی کی آل انڈیا ریڈیو میں پہلی اور آخری بار آمد 


 

کیا تھا گاندھی جی کا تاریخی ریڈیو پیغام

دراصل تقسیم کے نتیجے میں لاکھوں ہندو اور سکھ پاکستان سے  ہندوستان میں منتقل ہونے پر مجبور ہوئے۔ ان میں سے بہت سے پناہ گزینوں کو دہلی بھر کے کیمپوں میں رکھا گیا تھا، ان کی حالت زار  کے سبب  گاندھی جی نے ان پناہ گزینوں سے براہ راست خطاب کرنے کا فیصلہ کیا، ہر کیمپ پہنچنا  ممکن نہیں تھا ،اس لیے ریڈیو  پرخطاب کا فیصلہ ہوا۔

آل انڈیا ریڈیو کے ریکارڈز کے مطابق گاندھی جی نے  اپنے تاریخی خطاب میں کہا تھا کہ ۔۔۔ میرے دکھی بھائیو اور بہنو! میں نہیں جانتا کہ آج میری بات صرف آپ ہی لوگ سن رہے ہیں یا دوسرے بھی سن رہے ہیں۔ ریڈیو پر بولنے کا یہ میرا دوسرا موقع ہے۔ پہلا موقع کئی برس پہلے آیا تھا جب میں گول میز کانفرنس کے لیے لندن گیا تھا۔ مجھے اس طرح کی تقاریر میں دلچسپی نہیں۔ میرا اصل کام دکھی دلوں کا ساتھ دینا اور اُن کے دکھ درد کو کم کرنا ہے۔انہوں نے کرکشیتر کے پناہ گزینوں سے کہا کہ وہ محض حکومت پر بوجھ بننے کے بجائے خود بھی جسمانی محنت کریں، دوسروں کی خدمت کریں اور اپنی زندگی کو بامقصد بنائیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ محض بیٹھے بیٹھے کھانے کے عادی نہ بن جائیں۔ ساتھ ہی کہا کہ ’’آلسی پن کسی کو بلند نہیں کرتا، بلکہ گرا دیتا ہے۔گاندھی جی نے مزید کہا’میں اُن لوگوں میں سے نہیں ہوں جو یہ مانتے ہیں کہ آپ ہمیشہ کے لیے اپنی زمینوں اور گھروں سے اکھاڑ دیے گئے ہیں۔ نہ ہی میرا یقین ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہوگا جنہیں ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ جب تک میں زندہ ہوں، میری بھرپور کوشش ہوگی کہ سب لوگ عزت اور تحفظ کے ساتھ اپنی سرزمین پر واپس جائیں۔

 دیوالی کا دن تھا

مہاتما گاندھی کا یہ پیغام دیوالی کے دن نشر ہوا۔یہ پیغام بہت اہم تھا ،مایوسی میں امید کی کرن تھا ، اُس دن گاندھی جی نے دلوں میں امید کے چراغ  روشن کئے  تو  نہ صرف پریشان حال لوگوں کو بلکہ آل انڈیا ریڈیو کو بھی ایک نئی روشنی دے گئے ۔ اگلے ہی دن سے برلا بھون میں ہونے والی گاندھی جی کی دعائیہ سبھاؤں کا لائیو نشریہ شروع ہوا۔ اس طرح ریڈیو پر بھی گاندھی جی کی ’’من کی بات‘‘ سنائی دینے لگی۔ اس نشریات کو ہندوستان کی آزادی کے بعد کی تاریخ میں ایک متحرک لمحے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے،  اس ہمدردانہ عمل کے احترام کے لیے پبلک سروس براڈکاسٹنگ ڈے منایا جاتا ہے۔