ابھیا نند:ایک ماہر تعلیم جنہوں نے مولانا ولی رحمانی کے خواب کو کیا حقیقت

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 04-02-2024
 رحمانی 30 کا کامیاب سفر، ابھیا نند نے بتایا کامیابی کا راز
رحمانی 30 کا کامیاب سفر، ابھیا نند نے بتایا کامیابی کا راز

 

یہ کہانی ہے ایک عالم اور ایک وردی پوش افسر کی تعلیم کے تئیں بے چینی اور بیداری کی ،جنہوں نے نئی نسل  کے لیے جدید تعلیم کی راہوں کو ہموار کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ اسی سوچ نے اس عالم اور  وردی پوش افسر کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا۔جسے اب ملک رحمانی 30کے نام سے جانتا ہے جبکہ وہ عالم تھے مرحوم مولانا ولی رحمانی اور وردی پوش افسر ہیں  ابھیا نند۔۔ بہار کے سابق ڈی جی پی ۔۔۔ جی ہاں !ایک مولانا کی درخواست پر وردی پوش غیر مسلم افسر نے ایک ایسے کوچنگ نظام کی کمان سنبھالی جس کا مقصد ملک کے مسلمانوں تعلیم کی صورتحال کو بد تر سے بہتر بنانا تھا۔ آج یہ ملک کے چند ایسے بڑے مشن میں شامل ہے جو سینکڑوں مسلم طلبا کو مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے نہ صرف تیار کررہا ہے بلکہ  تعلیمی میدان میں بیڑا پار کرنے کا کام کررہا ہے۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں  سماجی اور فلاحی مشن کی ایک بڑی کہانی پر۔ جس میں ایثار ہے۔۔۔ قربانی ہے۔۔۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہے اور خوبصورت ہندوستان ہے 
محفوظ عالم ۔ پٹنہ 
خالق کائنات کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتا ہے وہ تو ہم خود ہیں جو ناانصافی کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی خاص سماج کے بچوں میں ہی ٹیلنٹ ہوتا ہے، صلاحیت ہر سماج کے بچوں کے پاس ہے، ضرورت صرف اتنی ہے کہ ہم اس کو پہچان سکیں اور طلباء کو یہ احساس کرا سکیں کی آپ کر سکتے ہیں اور آپ میں صلاحیت موجودہ ہے۔ آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے بہار کے سابق ڈی جی پی اور رحمانی 30 کے اکیڈمک انچارج ابھیا نند نے ان خیالات کا اظہار کیا۔
ابھیا نند کسی تعارف کے محتاج نہیں
ابھیا نند کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، آئی آئی ٹی کی تیاری کرنے والے طلباء کے لئے ابھیا نند ہی سب کچھ ہیں لیکن ابھیا نند خود کہتیں ہیں کہ ہر بچہ میں کامیابی کی صلاحیت ہوتی ہے اگر وہ اپنے آپ کو سمجھ لیں تو کامیاب ہونے سے اسے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ میرے لئے یہ سب سے خراب بات ہیکہ میں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاؤں اور یہی بات میں طلباء کو بتاتا ہوں اور انہیں اس قابل دیکھنا چاہتا ہوں کو وہ کامیاب ہو کر خود کی مدد کے ساتھ سماج کی مدد کرے۔ انہوں نے کہا کی یہ ایک بڑی غلط فہمی ہیکہ کوئی آئے گا اور ہماری حالت بدل دے گا، ان کا کہنا ہے کہ کوئی نہیں آئے گا آپ کو خود اپنی حالت بدلنی ہوگی اور خود ہی آگے بڑھنا ہوگا۔ ان کے مطابق کسی سماج کی حالت کوئی حکومت نہیں بدل سکتی ہے، ہاں سماج خود اپنی حالت بدل سکتا ہے اور اسے اس کے لئے آگے آنا چاہئے۔ ابھیا نند کا کہنا ہے کہ رحمانی 30 کو کیا کبھی کسی حکومت سے کوئی مدد ملی ہے؟ بلکل نہیں یہ سماج کی مدد سے چلنے والا ایک منفرد ادارہ ہے اور اس ادارہ نے جو کام کر دکھایا ہے، وہ اب ایک تاریخ ہے۔ اس لئے میں یہ کہتا ہوں کہ حکومتوں پر منحصر رہنے کے بجائے کسی بھی سماج کو اپنی حالت بدلنے کے لئے خود پہل کرنا چاہئے۔
awazurduابھیانند ایک روشن چہرہ جنہوں نے رحمانی 30کو ایک بڑا مشن بنایا

 ابھیانند اور مولانا ولی رحمانی  ۔ ایک کامیاب تجربہ

جب مولانا ولی رحمانی نے ابھیا نند سے ملاقات کی
ابھیا نند کہتے ہیں کی یہ ان دنوں کی بات ہے جب سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کر دی تھی۔ مولانا محمد ولی رحمانی صاحب ایک دن مجھ سے ملنے آئے۔ میں اس وقت اے ڈی جی بی ایم پی تھا۔ تب مولانا ولی رحمانی صاحب سے میرا پہلے سے تعلقات نہیں تھا۔ انہوں نے مجھ سے ملاقات کی اور کہا کی آپ میرے سماج کی مدد کیجئے۔ انہوں نے سچر کمیٹی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کی مسلم سماج تعلیم کے میدان میں کافی پیچھے چھوٹ گیا ہے۔ میں نے کہا یہ بات تو بلکل صحیح ہے کہ کم سے کم تعلیم کے معاملے میں مسلم اقلیت حاشیہ پر ہے۔ تو انہوں نے کہا کی اس سلسلے میں ہم لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ پھر میں نے ایک شرط رکھا تھا کی پڑھنے کا جو بھی انتظام ہوگا اس میں آپ دخل نہیں دیجیے گا اور انتظامی امور میں میرا کوئی دخل نہیں ہوگا۔ کہاں طلباء رہیں گے، پیسہ کہاں سے آئے گا یہ سب کچھ آپ دیکھیے لیکن پڑھائی کیسے ہوگی، کلاس کیسے چلے گا، ٹیسٹ کیسے ہوگا یا بچوں کا سلیکشن کیسے ہوگا یہ سب ہم دیکھیں گے۔ اسی شرط پر اگریمنٹ ہوا اور ہم لوگ شروع کر دئے، اس کے بعد جو ہوا وہ تو ایک تاریخ بن گیا۔
سوپر 30 کے تجربہ پر رحمانی 30 میں کام ہوا
میرے پاس سوپر 30 کا تجربہ تھا۔ رحمانی 30 میں اسی کونسیپٹ پر عمل کیا گیا۔ بچوں کو آئی آئی ٹی کے لئے کیسے پڑھایا جاتا ہے وہ ہمیں معلوم تھا۔ رحمانی 30 میں صرف اقلیتی سماج کے طلباء تھے، اور میرا ماننا یہ ہے کہ کسی بھی سماج کے بچوں میں تیز اور کمزور بچوں کا جو فیصد ہوتا ہے وہ قریب ایک جیسا ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ کوئی زیادہ صلاحیت لیکر پیدا ہوتا ہے اور کوئی کم۔ اگر صحیح عمر میں بچوں کو بہتر طریقہ سے تعلیم دی جائے تو کسی بھی سماج کے بچوں میں ٹیلنٹڈ طلباء کا ایک جیسا فیصد نکل کر سامنے آئے گا۔ یہ بہت عام مکس ہے۔ ابھیا نند کا کہنا ہے کہ میں نے رحمانی 30 میں بھی یہی دیکھا، اقلیتی سماج کے بچہ بھی اسی طرح سے ملے، یعنی مسلم سماج میں بھی ویسے ہی تیز بچیں ملے جو باہر ملتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ مسلمانوں میں بھی ایک بیداری آئی ہے کہ مجھے بھی پڑھنا چاہئے۔ ان بچوں نے پڑھائی کی، کامیاب ہوئے، طلباء میں یہ احساس تو ہو گیا ہے کہ ہم بھی پڑھ کر اچھا کر سکتیں ہیں۔
 
awazurdu
ابھیانند نے مولانا ولی رحمانی کا خواب حقیقت میں بدل دیا
awazurdu                      نوجوانوں کے لیے ابھیانند کا ہاتھ اور ساتھ مستقبل کا وشواس بن گیا

 
تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ
ابھیا نند کا کہنا ہے کہ دراصل کوئی بھی سماج میں یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ ہم بھی کر سکتیں ہیں تو وہ حکومتوں پر منحصر نہیں رہتا ہے۔ یہ تو حکومت ہے کہ غیر ضروری طور پر اپنے اوپر لے لیتی ہے کہ ہم ہیں تو آپ ہیں اور ہم نہیں رہیں گے تو آپ نہیں رہیں گے۔ اس احساس کو ختم ہو جانا بہت ضروری ہے۔ یہ سب بےوقوف بنانے والی باتیں ہوتی ہے کہ کوئی حکومت کہے کہ ہم آپ کا بھلا کر سکتیں ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ عوام میں خود یہ طاقت ہے کی وہ اپنے مسئلہ کو حل کر سکتیں ہیں۔ انہیں اس بات کو احساس کرانا ضروری ہے۔ ہم نے یا جو رحمانی 30 نے کیا وہ کسی حکومت کے بھروسہ نہیں کیا، آپ خود سونچ کر دیکھیے کہ اس میں حکومت کا کیا حصہ ہے، کچھ بھی نہیں۔ اسلئے میرا ماننا ہے کہ سماج خود اگر پہل کرے تو ہزاروں طلباء کا مستقبل سنوارا جا سکتا ہے، جیسے رحمانی 30 نے کیا ہے۔
رحمانی 30 نے سماج کو بیدار کیا
ابھیا نند کا کہنا ہے کہ رحمانی 30 کی شروعات کافی شاندار رہا۔ یہ دور سیکھنے کے اعتبار سے بھی کافی اہم تھا۔ ایک پورے اس سماج کو جس کو ہم لوگ اقلیتی سماج کہتیں ہیں، ان کے لئے یہ کافی فائدہ مند رہا ہے۔ اقلیتوں کو بھی سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہوگا۔ میں یہ ضرور کہوں گا کی رحمانی 30 کی کارکردگی سے میں بہت مطمئین ہوں۔ انکا کہنا ہے کہ رحمانی 30 کا پورا سفر آپ دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ حکومت کا یہاں کوئی کردار نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کا کوئی یہاں فنڈ ہے اور نہ وہ لوگ مانگتے ہیں۔ میں نے مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کو مشورہ دیا تھا کی حکومت کے سامنے آپ ہاتھ نہیں پھیلائیے۔ حکومت کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کی ہم ہیں تبھی عوام ہے ہم نہیں ہیں تو عوام نہیں ہے۔ یہ سب سے بڑی غلط فہمی ہے، سماج کے چار آدمی مل جائے تو ہزاروں ہزار آئی آئی ٹین پیدا کر دیں گے۔ انکا کہنا ہے کہ اپنے ہی سماج کو کوئی اٹھا دے تو حالات بدل سکتا ہے۔ اگر ہر سماج کے پیسہ والے لوگ یہ قرار کر لیں کی ہم کسی سے مدد نہیں مانگے گے۔ اپنی طاقت اور اپنے بل بوتے پر بچوں کو تعلیمی مدد پہنچائیں گے تو حالات بلکل منفرد ہو جائے گا۔ ہم ان لوگوں سے یہ اپیل کرنا چاہیں گے جو معاشی اعتبار سے مضبوط ہیں کی وہ اپنے سماج کے لوگوں کو پڑھا دیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو کوئی سماج پیچھے نہیں رہے گا۔ ابھیا نند کا کہنا ہے کہ مان لیجئے کی ایک سو اقلیتی طلباء کو لیا جائے اور ایک سو کسی بھی سماج کے طالب علم کو۔ تو دونوں میں پانچ پانچ طالب علم ایسا مل جائے گا جو آئی آئی ٹی میں جا سکتا ہے۔ رحمانی 30 نے گزشتہ کچھ سالوں میں طلباء کو اور اقلیتی سماج کو تعلیم کے سلسلے میں بیدار کیا ہے۔
30ایک عالم اور ایک افسر کی سوچ و فکر کا نتیجہ ہے رحمانی

ابھیانند اب اس مشن کو دوسری نسل کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں
رحمانی 30 جیسے اداروں کی ضرورت
ابھیا نند کا کہنا ہے کہ میرا مقصد ہی یہی ہے کہ ’سماج کے ذریعہ اور سماج کے لئے‘ کے فارمولہ پر عمل در آمد کو ممکن بنایا جا سکے۔ انکا کہنا ہے ایک نسل نکل جاتا ہے اس بات کی امید میں کہ کوئی آئے گا، مدد کرے گا تو ہم کھڑا ہو جائیں گے۔ میرا ہمیشہ سے یہ ماننا ہے کی کوئی نہیں آتا مدد کرنے کے لئے، آپ کو خود اپنی مدد آپ کرنی ہوگی۔ انکا کہنا ہے کہ رحمانی 30 سے جو بچہ کامیاب ہو کر عملی میدان میں آ رہے ہیں انہیں کس نے مدد کیا ہے۔ ان طلباء کو انہی کے سماج نے مدد کیا ہے، حکومت نے تو مدد نہیں کیا تھا۔ اسلئے سماجی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی سماج کی ترقی کا دارو مدار اسی بات پر ہے کہ اس سماج کے لوگ ایک دوسرے کو کتنا سپورٹ کرتے ہیں اور کتنا ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
طلباء کی کامیابی پر جذباتی ہو جاتا ہوں 
رحمانی 30 میں طلباء کی کامیابی پر بہت خوشی ہوتی ہے۔ ابھیا نند کا کہنا ہے کہ جب بھی رزلٹ آتا ہے تو میں جذباتی ہو جاتا ہوں۔ یہاں سے آئی آئی ٹی میں جن بچوں کا انتخاب عمل میں آیا اور وہاں جا کر بھی انہوں نے کامیابی کا علم بلند کیا یہ سب سن کر کافی خوشی ہوتی ہے۔ بلاشبہ رحمانی 30 نے طلباء کے مستقبل کو سنوارا ہے۔ ہم یہ کہ سکتیں ہیں کی جو طالب علم کامیاب ہو کر عملی میدان میں قدم رکھ رہے ہیں وہ اب کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے۔ گھر کے ایک فرد کے کامیاب ہونے سے پورا خاندانی نظام بدل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں ہر جگہ یہ بات کہتا ہوں کہ سماج خود آگے بڑھ کر سماج کی مدد کرے۔ 
کامیابی کا راز
ابھیا نند کے مطابق ہمارا سکریٹ بہت آسان ہے۔ صرف طلباء کو اس بات کا احساس کرا دینا ہے کہ تم میں سوچنے کی طاقت اور صلاحیت ہے۔ اس صلاحیت کا استعمال بڑے سے بڑے کمپٹیشن میں طلباء کو کامیاب کرا سکتا ہے۔ آئی آئی ٹی تو پروبلم کا نام ہی ہے، جب بچہ یہ کہتا ہے کہ یہ سوال نہیں بنا، تو اسے کہتیں ہیں کہ چلو اس پر دونو مل کو سوچتے ہیں۔ ہم چاہیں تو اس سوال کو حل کر دیں اور بنا کر اسے دے دیں لیکن ایسا ہم نہیں کرتے ہیں۔ طالب علم جب اس سوال پر سوچتا ہے تو خود سے حل کرنے کی گنجائش نکلتی ہے اور اس سے طلباء کو کافی فائدہ ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں تعلیمی نظام ایسا ہے کہ طلباء سے کوئی سوال نہیں بنا تو ٹیچر فورن اسے بنا کر دے دیتا ہے، یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ طلباء کو اس پر غور کرنے دینا چاہئے اس سے ان کا ذہن اور ان کی صلاحیت بڑھتی ہے۔   
ابھیا نند اس مشن کے پیچھے سب سے بڑا دماغ ہیں 
رحمانی 30 میں سلیکشن
رحمانی 30 میں سلیکشن کا بنیاد یہ ہے کہ پہلے ہم لوگ بچوں کا ٹیسٹ امتحان لیتے ہیں۔ اس میں کامیاب ہونے کے بعد اس کا انٹرویو منعقد کیا جاتا ہے۔ انٹرویو میں بچوں سے کئی طرح کے سوالات پوچھے جاتے ہیں اور اسی سے اندازہ لگ جاتا ہے کہ بچہ میں کیا صلاحیت ہے، کئی بار اس وقت یہ بھی اندازہ لگ جاتا ہے کہ اس طالب علم پر محنت کیا جائے تو آئی آئی ٹی میں کامیابی یقینی ہے۔ 
رحمانی 30 میں طلباء کی تیاری
رحمانی 30 میں طلباء کو کس طرح سے تیاری کرائی جاتی ہے جب یہ سوال ابھیا نند سے پوچھا گیا تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کی، میں ایک واقع سناتا ہوں: ایک بار مولانا ولی رحمانی صاحب نے مجھ سے کہا کی آپ بچوں کو کیسے پڑھاتے ہیں کیا ہم دیکھ سکتیں ہیں۔ میں نے کہا بلکل کیوں نہیں، آئے اور کلاس میں بیٹھیے، وہ قریب ڈیڑھ گھنٹہ کلاس میں بچوں کے ساتھ بیٹھے رہے۔ جب کلاس ختم ہوا تو انہوں نے کہا کی آپ بچوں کو بلکل دوست کے شکل میں پڑھاتے ہیں اور دوست کی طرح باتیں کرتے ہیں۔ دراصل کہنے کا مطلب یہ ہیکہ آپ کسی مدرسہ کو دیکھ لیجئے ایک ٹیچر پڑھا رہا ہے اور بچیں اس کو رٹ رہے ہیں، تو آپ بچوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں، ایک طرح سے اس کے ذہن کو ختم کر رہے ہیں، اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کر رہے ہیں۔ محض کسی کتاب کو رٹ لینے سے بچہ اسے نہیں سمجھ پائے گا، پڑھائی کا انتظام کچھ اور طریقہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ بچوں کو اس کے ذہن و دماغ کا استعمال کرنے دینا چاہئے تاکہ وہ جو پڑھ رہا ہے اس کو پوری طرح سے سمجھ بھی لیں۔ امتحان میں اس کو بیٹھنا ہے، سوال اس کو بنانا ہے تو وہ غور و فکر نہیں کرے گا تو کس طرح سے سوال کا جواب دے گا۔ میرا طریقہ یہ ہے کہ طلباء کی صلاحیت کو نکھار دیا جائے اسے غور و فکر کی عادت دلائی جائے۔ آپ رحمانی 30 کے کسی بھی طالب علم جو یہاں سے کامیاب ہو چکیں ہیں ان سے پوچھیں گے کہ سوچنے کی طاقت تمہیں کہاں سے ملی تو ان کا جواب ہوگا رحمانی 30 سے۔ میرا ماننا یہ ہے کہ بچوں کو پوری زندگی کوئی نہ کوئی مسئلہ کا سامنا کرنا ہے اسلئے ان میں غور و فکر کی عادت بنانی ضروری ہے۔
سماج کے لئے میرا پیغام
ابھیا نند کا کہنا ہے کہ سماج کے لئے میرا ایک پیغام ہے کہ طاقت اور صلاحیت آپ میں ہے، آپ کے اندر ہے اس کو پہچانیے، اگر آپ اپنی کامیابی یا اپنی صلاحیت باہر تلاش کریں گے تو آپ کامیاب نہیں ہونگے۔ جو بھی یہ بات کہتا ہے کہ ہم آپ کا بھلا اور فلاح کر سکتیں ہیں وہ غلط ہے، آپ کا بھلا اس کائنات کا خالق کر سکتا ہے یا آپ خود کر سکتیں ہیں۔ ہاں آپ کے اندر کی اس طاقت کو سمجھنے میں اگر کوئی آپ کی مدد کر دے وہ بڑا آدمی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ہر سماج کو یہ ضرورت ہے کہ وہ خود پہل کرے اور اپنے مسئلہ کو حل کرے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی کسی کو کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو اسی عبادت گاہ میں وہ جاتا ہے جہاں سب جاتے ہیں پھر کسی سے مدد کیوں مانگیں۔ ہم بچوں کو کہتیں ہیں کہ کوئی ٹیچر تم کو آئی آئی ٹی میں نہیں پہنچائے گا، تم خود ہی سب کچھ ہو، تم خود کامیاب ہو سکتے ہو، کوئی اور وہاں تم کو نہیں پہنچا سکتا ہے۔ اس فارمو لے پر سماج کو بھی چلنا چاہئے۔ انکا کہنا ہے کہ مسئلہ کا حل موجود ہے اور وہ راستہ پڑھائی سے یعنی تعلیم سے ہو کر گزرتا ہے، سماج کو چاہئے کہ اس کے حل کے لئے تعلیم کے تئیں سنجیدہ ہو اور ہر بچہ کو بہتر سے بہتر تعلیم دیں۔ اسی سے سماج اور ملک کی ترقی ہوگی۔