منصور الدین فریدی ۔آواز دی وائس
سائنسداں یوسف خواجہ حمید ۔ آزاد ہندوستان میں ایک ایسا نام ہے جنہوں نے دواساز کمپنی ’ سپلا‘ کو ایورسٹ بنا دیااوردوا سازی کو کاروبار سے زیادہ انسانی خدمت کی شکل دی۔جس کے بارے میں کسی نے کبھی سوچا نہیں تھا لیکن یوسف حمید نے آزاد ہندوستان میں دواسازی کے نئے سنگ میل قائم کئے اور غریبوں کو مہنگی دوا کے زہر سے بچانے کے لیے امریکہ تک کو آئینہ دکھا یا تھا۔ بلکہ حکومت وقت کو سپر پاور کے خلاف کھڑا کرنے پر مجبور کردیا تھا۔جس کے بعد دواوں کی قیمتوں میں گراوٹ آئی جبکہ جب دنیا میں ایڈز جیسی بیماریوں کا سایہ پڑا تو سپلا نے ہی ایک انقلابی اعلان کیا تھا کہ جو دوا سینکڑوں ڈالرز میں فروخت ہورہی ہے اسے صرف چند ڈالرز میں مہیا کرایا جائے گا تاکہ دنیا کے غریب ترین خطہ بشمول افریقہ کو بچایا جاسکے ۔یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ سے ہندوستان اور یورپ سے عالم عرب تک یوسف حمید کو دنیا نے کیا سلام ۔
دراصل جنرک اودیات تیار کرنے والی اس کمپنی کی سپلا کی بنیاد یوسف حمید کے والد خواجہ عبدالحمید نے1935 میں ڈالی تھی۔ دراصل سال 1935 میں سیپلا کی بنیاد خواجہ عبدالحمید نے ممبئی میں 'کیمیکل، انڈسٹریل اینڈ فارماسیوٹیکل لیبارٹریز' کے نام سے رکھی تھی۔ جولائی 1984 میں کمپنی کا نام بدل کر سپلا لیمیڈیڈ ' کر دیا گیا تھا۔ ان کے والد بابائے قوم گاندھی جی کے پیروکار تھے۔ یوسف حمید کی والدہ فریدہ یہودی النسل تھیں۔ ان کے والد گاندھی جی کے ساتھ تھے۔ ممتاز ماہر تعلیم سرسید احمد خان ان کے رشتہ دار ہوتے ہیں۔
یوسف حمید نے 1960 میں سپلا لمیٹیڈ میں آفیسر انچارج آف ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی ۔برطانوی راج کے باعث انہیں اپنے والد کی کمپنی میں کام کرنے کے لئے حکومت سے اجازت حاصل کرنی پڑتی تھی چنانچہ ان کی ابتدائی تنخواہ تین سال کے لئے 1500 روپے مقرر ہوئی اور مکمل ایک برس کام کرنے کے بعد انہیں اپنی پہلی تنخواہ ملی۔
.webp)
یوم آزادی کے موقع پر سپلا کے ملازمین اپنے بانی کے ساتھ پرچم لہراتے ہوئے
سپلا کے دنیا بھر میں 47 مینوفیکچرنگ یونٹ ہیں اور وہ 86 ممالک میں اپنی دوائیں فروخت کرتی ہے۔ جو کہ اس وقت ہندوستان میں دواسازی کی تیسری سب سے بڑی کمپنی ہے۔
انسانی خدمات کی کہانی
دراصل 2000 کی دہائی کے اوائل میں ایڈز کی وبا کے دوران حمید نے ایک تین دوائیوں پر مشتمل اینٹی ریٹرو وائرل کاک ٹیل کو ریورس انجینئرڈ بنایا جو کہ ایک سستا ورژن بنانے کے لیے ہر سال تقریباً 12,000 ڈالر میں فروخت کیا جاتا تھا جو ہر سال $304 میں فروخت ہوتا تھا۔ اس کے بعد یہ دوا افریقی خیراتی اداروں اور حکومتوں کو فروخت کی گئی اور "ایک وقت میں، غریب ممالک میں ایڈز کے 40 فیصد مریضوں نے سیپلا کی دوائیں لی تھیں"۔ سال 2006 میں ایویئن فلو کی وبا کے دوران، سپلا اس قابل ہوا کہ وہ تامل فلو دوا کو تبدیل کر سکے اور اسے نمایاں طور پر کم قیمتوں پر فروخت کر سکے۔ 2013 میں سپلا نے جنوبی افریقی کمپنی سپلا-میڈ پرو کو حاصل کیا، اسے ایک ذیلی ادارے کے طور پر رکھا، اور اس کا نام بدل کر سپلا میڈ پرو ساوتھ افریقہ لیمیٹڈ رکھا۔ حصول کے وقت سپلا-میڈ پرو سپلا کے لیے تقسیم کار تھا اور جنوبی افریقہ کی تیسری سب سے بڑی دوا ساز کمپنی تھی۔
کیا تھی کہانی
دلچسپ بات یہ ہے کہ 1920 ہندوستان کے ایک امیر شخص نے اپنے بیٹے کو قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بیریسٹر بنانے کے اہم ارادے کے ساتھ جہاز میں بیٹھا کر برطانیہ کوروانہ کیا تھا۔اس کے والد نے اس نوجوان کو اس کی پسند کا انتخاب کرنے کا موقع نہیں دیا۔ جہاز میں بیٹھا کر گھر والوں نے جب خواجہ عبدالحمید کو روانہ کیا تو ان کے دل میں الگ ہی سوچ چل رہی تھی۔ سمند ر کے درمیان جب جہاز پہنچا تو انہوں نے سمندر میں چھلانگ لگاکر جرمنی کی سرزمین پر قدم رکھا ۔ پچھلی صدی کی ابتداء میں جرمنی علم کیمیا اور کیمیائی اشیاء بنانے کے میدان میں سر فہرست تھا ۔ وہاں ڈگری حاصل کی اسکے بعد کمیونسٹ خیالات رکھنے والی جرمن یہودی خاتون کو عبدالحمید نے اپنی شریک حیات بنایا۔ نازی سب سے زیادہ اسی قوم سے نفرت کرتے تھے۔اڈولف ہٹلر کے حامی جب تک ان تک پہنچتے وہ دونوں جرمنی چھوڑ کر محفوظ ہندوستان پہنچے۔ علم کیمیاء (کیمسٹری) میں گہرا علم رکھنے والے خواجہ حمید کیمیکل ، انڈسٹریل اورفارموسیٹیکل ، لیباریٹری کا قیام 1935میں کیا۔ آزادی کے بعد یہ کمپنی سپلا بن گئی۔

آگے کا سفر
والد کے انتقال کے بعد یوسف حمید نے سپلا کی کمان سنبھالی۔ اس کاروبار میں قدم رکھنے کے بعد بہت جلد انہیں محسوس ہوا کہ ہر بڑی دوا جو وہ بنانا چاہتے تھے پیٹنٹس کے تحت تھی۔ ایسی دوائیں برآمد کرنا تقریباً ناممکن تھااور اندرون ملک مارکٹ پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا قبضہ تھا۔ اس لئے انہوں نے ہندستان کے پیٹنٹ قوانین کو تبدیل کروانے 1961 میں انڈین ڈرگ مینوفیکچررس اسوسی ایشن قائم کی ۔ آخر کار 1972 میں ان کی محنتیں رنگ لائیں اور ہندستانی فارما صنعت کو ملک میں درکار کسی بھی دوا کی تیاری اور فروخت کرنے کی قانونی آزادی دے دی گئی۔
اندرا گاندھی سے لی مدد
یوسف حمید کو اس وقت حکومت کی مدد کی ضرورت تھی ، ان کی صلح پر ادویات کے تعلق سے پیٹنٹ قانون کو بدلنے میں اندراگاندھی نے اہم رول اداکیا تھا۔ ادویات کے پیٹنٹ میں ادویات کی تیاری کی خلاف ورزی نہ کرنے کا قانون اسی وقت بنایا گیا تھا اسی قانون کے تحت سپلاء نے اپنی کمپنی میں جنریک ادویات کو بناکر غریبوں تک پہنچانے کا کام کیا ۔ جس کے نتیجہ میں ملک میں فارماسیوٹیکل صنعت کو خوب بڑھاوا ملا۔ حکومت ہند نے انہیں ’پدم بھوشن‘ ایوارڈسے نوازا ہے۔ ان کی کمپنی ایڈز کی دوا سب سے کم قیمت پر فروخت کرنے والی کمپنی ہے۔ انہوں نے پونے میں کینسر کے مریضوں کے لئے کیر یونٹ بھی قائم کیا
سستی دوا ۔سستا علاج
سپلا کے سربراہ ڈاکٹر یوسف حمید نے 2001برسلز میں ہونے والے یورپی کمیشن کے اجلاس کو یہ کہہ کر حیران کر دیا تھا کہ ان کی کمپنی ایڈز کی ادویا سستے داموں بیچنے کو تیار ہے۔ اس وقت ایک مریض کے لئے دوا کی سالانہ قیمت انہوں نے آٹھ سو ڈالر بتائی تھی۔اس کے ایک سال بعد انہوں نے اعلان کیا تھا کہ یہ قیمت مزید کم کر کے تین سو ڈالر کی جا سکتی ہے ۔ دواوں کی نامور کثیر الملکی کپمنیاں ایڈز کی ادویات فی مریض سالانہ بارہ ہزار ڈالر کی قیمت پر فراہم کرتی تھیں لیکن ’سپلا‘ کے سربراہ نے ان ادویات فی مریض صرف ایک سو چالیس ڈالر سالانہ پر فراہم کیا۔ سپلاء نے ایچ آئی وی کے علاج کیلئے کم قیمت میں ادویات بناکر بہت کم قیمت میں غریب اور سب سے زیادہ ایچ آئی وی متاثرہ افریقی ممالک کو اورترقیافتہ ممالک کو تقسیم کئے۔ اسکے بعد سے یہ کمپنی ملیریا ، لومپس، رومی ٹائیڈ، آرتھارائٹیس ، کے علاج کیلئے استعمال ہونے والے ہائیڈرو کلوروکوئن دوا کو بناتی رہی ہےاور اکتوبر میں سابق امریکی صدر بِل کلنٹن کی ثالثی میں طے ہونے والے اہم معاہدے سے ڈاکٹر حمید کی کوششوں کو مزید مدد ملی ہے۔
ایک نصحیت
اپنی کمپنی کو جب خواجہ عبدالحمید اپنے بیٹے کو سونپ رہے تھے اس وقت نصیحت کی تھی کہ ہماری کمپنی دنیا کے دوسری فارموسیٹیکل کمپنیوں کی طرح نہیں ہے اورمنافع کمانا ہی مقصدنہیں ہے۔ غریبو ں کو صحت دینااور ان کے طبی مسائل کو حل کرنا اس کمپنی کا مقصد ہے اگر ادویات میں معیار نہ ہو تو وہ غریب مرجائیں گے۔ اس بات کو بھی یوسف نے اندراگاندھی کے سامنے ظاہر کیا یوسف حمید کے پیٹنٹ کی خلاف ورزی کے منفی اثرات کاعلم ہونے کے باوجود بھارت کو ادویات کی تیاری روکنے کیلئے امریکہ نے جو حکم دیا تھا اسے اندراگاندھی نے ٹھکراتے ہوئے یوسف حمید کی تائید کی یہی وجہ تھی کہ امریکی حکومت اندراگاندھی سے نفرت کرتی تھی۔

انسانی خدمات کی کہانی
اقوام متحدہ کا سلام
اقوام متحدہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر یوسف حمید نے غریب اور ترقی پذیر ملکوں میں امراض اطفال کے علاج کیلئے کئی مجرب فائدہ بخش اور سستی دوائیں متعارف کئے ہیں اقوام متحدہ نے یوسف حمید کی خدمات کو تسلیم کیا،ان کے جذبے کو سلام کیا جب 2015 میں انہیں مختلف امراض کے علاج و معالجہ کیلئے تحقیق و فروغ کے ایسے شعبہ میں جہاں مالی فوائد کی زیادہ توقع نہیں اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کے کوشش کے طورپر ایک سرکردہ ہندوستانی سائنسداں کو اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی پیانل برائے صحت ، طبی ٹکنالوجی و اختراع میں شامل کیا تھا۔
کیمبرج یونیورسٹی نے بخشا بڑا اعزاز
یوسف حمید کو اعزاز بخشتے ہوئےکیمبرج یونیورسٹی نے اپنی ایک نئی رہائشی عمارت ان سے موسوم کی ہے ۔ کیمبرج یونیورسٹی کی 800؍ سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی ہندوستانی شہری کو کیمبرج یونیورسٹی نے اتنا بڑا اعزاز بخشا ہےا ور پوری عمارت اس سے موسوم کردی ہے۔کرائسٹ کالج کی افتتاحی تقریب کی قیادت لارڈ سائمن میک ڈونالڈ نے کی جو اس کالج کے سربراہ تھے۔اس موقع پر25 سے زائد مشہور سائنسدانوں کو بھی مدعو کیاگیاتھا جن میں سے اکثرکیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔ ان میں نوبیل انعام یافتہ سر وینکٹ رمن رام کرشنن شامل تھے۔ یوسف حمید نے1954 سے 1960 کے دوران کیمبرج یونیورسٹی کے اسی کالج سے گریجویشن اور پھر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔
اس موقع پر یوسف حمید نے یونیورسٹی سے اپنی ذاتی اور خاندانی مراسم کو تذکرہ کیا تھا ۔انہوں نے بتایا کہ 1953میں میری ملاقات پروفیسر الیکژنڈر ٹوڈ سے ہوئی ۔وہ اس وقت کیمسٹری کے پروفیسر تھے۔ بامبے میں ہونے والی اس ملاقات نے میری زندگی کا رخ اور میری قسمت ہی بدل کر رکھ دی۔
اپنے داخلے کی روداد بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میرے والد نے پروفیسر ٹوڈ سے پوچھا کہ کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ کیلئے کم از کم قابلیت کیا ہے توانہوں نے جواب دیا کہ اگر طالب علم مناسب ہوتو ہم داخلہ دے دیتے ہیں، میرے والد نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میرا بیٹا کیمبرج میں پڑھے۔ پروفیسر ٹوڈ نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور پوچھا کہ تمہاری کیا عمر ہے۔
میں نے کہا 18؍ سال انہوں نے کہاکہ18سال کے کب ہوگے۔ میں نے جواب دیا کہ جولائی1953 میں تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر اکتوبر 1954 سے تم کیمبرج یونیورسٹی میں ہونگے۔ ڈاکٹر حمید نے جذباتی انداز میں کہا کہ میں نے اس وقت سوچا بھی نہیں تھا کہ 69 سال بعد میں اپنے چہیتے ادارہ میں ا س طرح یوسف حمید کورٹ کے افتتاح کے موقع پر کھڑا ہوں گاجوٹوڈ بلڈنگ سے متصل ہے۔