معصوم مرادآبادی
اردو میں آپ بیتی لکھنے کی روایت پرانی ہے۔ کئی ادیبوں شاعروں اور نوکر شاہوں نے اس فن میں نام بھی کمایا ہے، لیکن آج کل ایک ایسی آپ بیتی چرچا میں ہے جسے پڑھ کر لوگ اس کے مصنف پرلعن طعن کررہے ہیں۔ حالانکہ اگر آپ تقریباً چارسوپچاس صفحات پر پھیلی ہوئی اس آپ بیتی میں سے اس کے متنازعہ 37 صفحات کو نکال دیں تو ایک بہترین بیانیہ اورعصری ادبی اور سماجی سرگرمیوں کی قابل مطالعہ تاریخ قرار دی جاسکتی ہے۔ اسے پڑھ کرمجھے ترقی پسند تحریک، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی اور جے این یو کی داخلی سیاست سے متعلق جو دلچسپ معلومات حاصل ہوئی ہیں، وہ کہیں اور نہیں ہوئیں۔سب سے اہم اس کے حواشی ہیں جن میں اردو کی تمام قابل ذکر شخصیات کا مختصر مگرجامع تعارف آگیا ہے۔
جی ہاں میں بات کررہا ہوں پروفیسر محمد حسن کی گرماگرم آپ بیتی ”سربازار می رقصم‘‘ کی، جو اپنی اشاعت کے فوراً بعد ہی مجھ تک پہنچ گئی تھی، لیکن مجھے اس کے مطالعہ کی مہلت نہیں ملی۔ یہاں تک کہ اس کا ہندوستانی ایڈیشن شائع ہوگیا اور اس پر تبصرے آنے لگے۔ بیشتر تبصرہ نگاروں نے اس کے متنازعہ دسویں باب ”زخم تمنا کی بہار“ ہی کا تذکرہ کیا جو پروفیسر محمد حسن کی جنسی فتوحات کی عریاں اور کسی حدتک فحش داستان ہے اور اس پر پورونوگرافی کا گمان ہوتا ہے۔ ان سے پہلے شاید ہی اردومیں کسی نے اتنی لبرٹی لی ہو۔
یوں تو ممتاز شاعر جوش ملیح آبادی کی آپ بیتی ”یادوں کی برات“ اپنے آخری صفحات کے حوالے سے خاصی شہرت بلکہ یوں کہئے کہ بدنامی حاصل کرچکی ہے اور اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔اگر میں یہ کہوں کہ جوش ملیح آبادی نے جو باتیں کسی حدتک بین السطور میں کہی ہیں انھیں پروفیسر محمد حسن نے اس حدتک فحش انداز میں بیان کیا ہے کہ انھیں پڑھ کر ان کی پوری علمی اور ادبی شخصیت ’دھاراشائی‘ہوگئی ہے۔ حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ پروفیسر محمدحسن اردوزبان وادب کی ایک سربرآوردہ شخصیت تھے۔ انھوں نے جو ادبی اورعلمی کارنامے انجام دئیے ہیں، وہ ان کا کوئی اور ہم عصر نہیں دے سکا۔
اس آپ بیتی میں بیسویں صدی کے تاریخی واقعات، ترقی پسند تحریک کی توسیع، تحریک آزادی اور تقسیم وطن، فرقہ وارانہ فسادات، آزاد ہندوستان میں اردو کا مقدمہ، سیکولرازم کے زیرسایہ پروان چڑھنے والی اردو دشمنی، کمیونسٹ پارٹی کے پروگراموں کی محدودیت اور دانش گاہوں کے اردوشعبوں کی گروپ بندیوں اور چپقلش کی تفصیلات بھی درج ہیں۔ پروفیسر محمدحسن کو قریب سے جاننے والے جانتے ہیں کہ ان کی خانگی زندگی خاصی تلخ تھی اور ان کی اہلیہ تمام عمر ان کے لیے ایک سنگین مسئلہ بنی رہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہ صورتحال ان کی جنسی بے راہ روی کا نتیجہ ہو جس کا برملا اظہار پروفیسر محمد حسن نے اپنی آپ بیتی کے آخری صفحات میں بڑی بے حیائی کے ساتھ کیا ہے۔خانگی زندگی کی چیرہ دستیوں کے باوجودانھوں نے جو عظیم الشان ادبی کارنامے انجام دئیے وہ واقعی حیرت انگیز ہیں۔ خاص طورپر جے این یو کے سینٹر آف انڈین لنگویجز میں کے نصابات میں ادبی سماجیات اور احتجاجی ادب کے مطالعہ کی روایت قائم کرنا اور تحقیقی مقالات میں ادبی، سیاسی وتہذیبی پس منظرشامل کرکے ادب پاروں کو پرکھنے کے طریق کار کی ترویج پروفیسر محمدحسن کے مستقبل شناس ذہن کی اپج تھے۔ ان کا جاری کردہ مجلہ ”عصری ادب“ بھی علمی اور ادبی جریدوں میں منفرد شناخت کا حامل تھا۔
پروفیسر محمدحسن سیمجھے ایک تعلق یہ ہے کہ وہ میرے وطن مرادآباد میں پیدا ہوئے اور میری طرح ان کا بچپن اور لڑکپن وہیں گزرا۔ ان کے ماموں مولوی عزیزحسن (علیگ)میرے استاد تھے اور ان سے میں نے تفہیم اقبال کا درس لیا تھا۔ بڑی ذی علم شخصیت تھے۔ غالب پر بھی کام کیا اور کئی قیمتی غیرمطبوعہ مسودات چھوڑے جو دست بردزمانہ کی نذر ہوگئے۔پہلے پہل ان ہی کی زبانی میں نے پروفیسر محمد حسن کانام سنا تھا۔پھر دہلی آکر ادبی جلسوں اورسیمیناروں میں انھیں بارہا دیکھا اورسنا۔ ایک زمانے میں جب انھوں نے ہفتہ وار ’نئی دنیا‘ کے لیے کالم لکھنا شروع کیا تو ان سے بارہا بات چیت بھی ہوئی۔ان کے انتقال کے بعد ان کی تجہیز وتکفین کا جوآنکھوں دیکھا حال میں نے لکھا تھا وہ بڑا عبرتناک تھا۔ ان کے انتقال کے کچھ دن بعد ہی دہلی گیٹ قبرستان کے ایک ویرانے میں ان کی قبر بھاری بارش کے سبب بے نام ونشان ہوگئی تھی۔
بہرحال میں یہاں ذکر کررہاہوں پروفیسر محمدحسن کی آپ بیتی کا۔ مجھے اس کی اشاعت کا علم ہوا تو اس کی جستجو بڑھی۔ سبب اس کا یہ تھا کہ جب سرحدپاریہ اشاعت پذیرہوئی تو میں اپنی کتاب ”تاریخ مرادآباد“ ترتیب دے رہا تھا۔ مجھے توقع تھی کہ انھوں نے اپنی اس بیتی میں مرادآباد کا خاصا تذکرہ کیا ہوگا۔ لیکن یہ مجھے بروقت حاصل نہیں ہوسکی۔ کیونکہ پچھلے کافی عرصے سے سرحدپار سے کتابوں کا آنا اور جانا دونوں بندہیں۔ شکرگزارہوں برادرم ڈاکٹر اصغرکمال کا جو امارات کے شہر شارجہ میں برسرروزگارہیں۔ انھوں نے میرے اصرار پر یہ کتاب کراچی سے پہلے شارجہ منگوائی اور پھر یہ مجھ تک دہلی پہنچی۔ اس آپ بیتی کی اشاعت کا قصہ بھی کچھ کم پراسرار نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی تصنیف رازدارانہ انداز میں کسی ترتیب اور پلاننگ کے بغیر ہوئی۔ پروفیسر محمدحسن نے اس کا مسودہ اپنے ایک شاگرد کو اس شرط پر سونپا تھا کہ اسے ان کے انتقال کے دس برس بعد منظرعام پر لایا جائے، لیکن نہ جانے کیسے اس کا مسودہ ایک شاطر وکیل کے ہاتھوں لندن ہوتا ہوا کناڈا پہنچ گیا۔ کافی تگ ودو کے بعد پروفیسر محمدحسن کے قریبی شاگردپروفیسر عظیم الشان صدیقی کی کوششوں سے یہ مسودہ برآمد ہوا اور چند ترقی پسند ادیبوں کے ذریعہ ’فکشن ہاؤس‘ لاہور پہنچا۔حال ہی میں ہندوستان میں اس کی اشاعت نامک پبلی کیشن نئی دہلی نے کی ہے مگر اس کے بعض انتہائی متنازعہ حصوں کو حذف کردیاگیا ہے۔
اردو میں یہ شاید پہلی آپ بیتی ہے جس کی اشاعت پر علمی اور ادبی حلقوں میں ناک بھوں چڑھائی گئی ہے۔ یہاں تک کہ ایک ادبی میگزین نے اس کے خلاف اداریہ بھی لکھا۔ ماہنامہ ”پیش رفت“ نے اپنے گزشتہ شمارے میں ”آپ بیتی اور اس کی اخلاقیات“ کے عنوان سے لکھا ہے کہ ”ڈاکٹر محمدحسن کی آپ بیتی ’سربازار می رقصم‘ کے آخری باب ’زخم تمنا کی بہار‘ میں انھوں نے اپنی جنسی بے راہ روی کو بڑی بے حیائی اور انتہائی بے شرمی کے ساتھ مزے لے لے کر بیان کیا ہے۔۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ محمدحسن صرف بے خدا آدمی نہیں تھے بلکہ جس قدر بھی پڑھے لکھے ہوں اور جتنا بھی بظاہر کامیاب نظرآئیں، وہ بے چارے عمر بھر کی بے نام بے قراری اور مسلسل پناہ گیری کی تلاش میں جنسی آوارگی اور عصمت دری میں مبتلا رہے۔“