اسلام میں استاد کا درجہ اور احترام

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 05-09-2025
اسلام میں استاد کا درجہ اور احترام
اسلام میں استاد کا درجہ اور احترام

 



زیبا نسیم ۔ ممبئی 

اسلامی تعلیمات کے مطابق تعلیم و تدریس نہایت مقدس اور معزز پیشہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مذہب اور ہر معاشرے میں اساتذہ کو بلند مقام حاصل رہا ہے، کیونکہ معاشرے میں جو بھلائیاں اور نیکیاں نظر آتی ہیں، خدمتِ خلق کا جو نظام قائم ہے، اور تہذیب و تمدن کی جو روشنی پائی جاتی ہے، وہ سب دراصل تعلیم ہی کا کرشمہ ہے، اور درس گاہیں ان سب کا اصل سرچشمہ ہیں۔اسلام کی نگاہ میں انسانیت کا سب سے مقدس طبقہ پیغمبروں کا ہے، اور اساتذہ انھی کے وارث اور جانشین ہیں۔ چنانچہ استاد کا احترام اُسی قدر لازم ہے جس قدر والدین کا۔ والدین انسان کو زندگی عطا کرتے ہیں، جبکہ استاد اُسے زندگی کے مقصد اور جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ اس لیے استاد کا مقام محض ایک معلم کا نہیں بلکہ ایک رہبر اور روحانی والد کا ہے۔

استاد کا مقام و مرتبہ اور اس کے حقوق

اسلام کی روشن تعلیمات میں استاد اور شاگرد کا رشتہ نہایت عظمت و تقدس کا حامل ہے۔ شاگرد کے لیے اپنے استاد کو محض ایک معلم یا رہنما نہیں بلکہ اپنے آقا اور محسن کے طور پر دیکھنا لازم ہے۔ نبی رحمت ﷺ کا فرمان ہے:
جس نے کسی کو قرآنِ کریم کی ایک آیت بھی سکھائی، وہ اس کا آقا ہے۔"المعجم الکبیر، 8/112، حدیث: 7528

اسی حقیقت کو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے یوں بیان فرمایا:
جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا، میں اس کا غلام ہوگیا؛ اب وہ چاہے مجھے بیچ دے یا آزاد کردے۔(المقاصد الحسنہ، ص483)

اسی طرح امام شعبہ بن حجاج رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جس سے میں نے چند احادیث بھی تحریر کیں، میں نے خود کو اس کا تاحیات غلام سمجھا، بلکہ جس سے ایک حدیث بھی لکھی، میں اس کا عمر بھر غلام رہا۔(المقاصد الحسنہ، ص483)

استاد کے سامنے عاجزی و انکساری

طالبِ علم پر لازم ہے کہ وہ اپنے استاد کے سامنے ہمیشہ فروتنی اور عاجزی اختیار کرے، کبھی خود کو استاد سے بہتر یا برتر نہ سمجھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
علم حاصل کرو اور علم کے ساتھ ادب و احترام بھی سیکھو، اور اپنے استاد کے سامنے انکساری اختیار کرو۔(المعجم الاوسط، 4/342، حدیث: 6184)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:
عقلمند شاگرد اگر اپنے استاد سے آگے بڑھ بھی جائیں تو وہ اسے استاد کا فیض اور اس کی برکت شمار کرتے ہیں اور مزید عاجزی اختیار کرتے ہیں۔ لیکن ناسمجھ اور بدبخت شاگرد جب قوت پاتے ہیں تو اپنے بزرگوں کی نافرمانی پر اتر آتے ہیں۔ یاد رکھو! جیسے کرو گے ویسا بھرو گے۔" (صحیح بخاری، ج3، ص163؛ الحقوق لطرح العقوق، ص90)

استاد کا حق والدین پر مقدم

علماء کرام فرماتے ہیں کہ استاد کے حقوق والدین کے حقوق سے بھی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ والدین جسمانی زندگی کا وسیلہ ہیں، جبکہ استاد روحانی زندگی کا ذریعہ ہے۔ "عین العلم" میں ہے کہ والدین کے ساتھ نیکی واجب ہے، لیکن استاد کا حق والدین سے مقدم ہے کیونکہ وہ روح کی زندگی عطا کرتا ہے۔ علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
جو شخص علم سکھاتا ہے وہ بہترین باپ ہے، کیونکہ وہ بدن کا نہیں بلکہ روح کا باپ ہے۔تیسیر شرح جامع الصغیر، 2/454

استاد کے حقوق اور آداب

فقہائے کرام نے استاد کے کئی حقوق بیان فرمائے ہیں، جن میں چند یہ ہیں:

  • شاگرد کبھی استاد سے پہلے بات نہ کرے۔
  • استاد کی غیر موجودگی میں بھی اس کی نشست پر نہ بیٹھے۔
  • چلتے وقت استاد سے آگے نہ بڑھے۔
  • اپنے مال میں سے جو چیز استاد کو درکار ہو، بخوشی پیش کرے۔
  • استاد کا حق اپنے والدین بلکہ تمام مسلمانوں کے حقوق پر مقدم سمجھے۔
  • استاد کے دروازے پر شور یا دستک نہ دے بلکہ خاموشی سے انتظار کرے۔

(فتاویٰ عالمگیری، 5/373 تا 379)

استاد کی اطاعت

استاد کے احکام کو ماننا شاگرد پر لازم ہے۔ اگر استاد کسی جائز امر کا حکم دے تو شاگرد کو چاہیے کہ اپنی بساط کے مطابق اس پر عمل کو سعادت سمجھے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
جس نے استاد کی نافرمانی کی، اس نے اسلام کی گرہوں میں سے ایک گرہ کھول دی۔

علماء کا کہنا ہے کہ استاد کو ایذا دینا علم کی برکت سے محرومی کا باعث ہے۔ البتہ اگر استاد کسی خلافِ شرع حکم دے تو شاگرد کے لیے اس پر عمل جائز نہیں، لیکن اس انکار میں بھی گستاخی نہ کرے بلکہ مؤدبانہ طریقے سے معذرت کرے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں۔مسند احمد، 7/363، حدیث: 20678

استاد کا مقام اسلام میں نہایت بلند ہے۔ وہ شاگرد کے لیے محسن، مربی اور روحانی والد کا درجہ رکھتا ہے۔ شاگرد پر فرض ہے کہ وہ اپنے استاد کے حقوق کو پہچانے، ان کے ساتھ ادب و احترام اور عاجزی کا برتاؤ کرے اور کبھی بھی استاد کی نافرمانی یا گستاخی کا مرتکب نہ ہو، تاکہ علم کی برکت، دنیا و آخرت میں اس کے ساتھ رہے۔

اسلام میں استاد کا معیار

اسلام میں استاد کا مقام نہایت عظیم اور بلند ہے۔ ایک حقیقی استاد وہ ہے جو صرف علم ہی نہ رکھے بلکہ حکمت، تقویٰ، پرہیزگاری اور اعلیٰ اخلاق سے بھی آراستہ ہو۔ استاد کا فرض ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو نہ صرف کتابی علم سکھائے بلکہ اپنے کردار اور گفتار سے ان کی عملی اور روحانی تربیت بھی کرے۔

استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ نرمی، صبر، شفقت، محبت اور انصاف کا معاملہ کرے تاکہ طلبہ علم کے ساتھ ساتھ اخلاق و کردار کی بلندی بھی حاصل کریں۔ استاد دراصل شاگرد کا صرف معلم نہیں بلکہ اس کا مربی اور روحانی رہنما ہوتا ہے جو اس کے ذہن و دل دونوں کو روشنی عطا کرتا ہے۔

قرآن و سنت میں استاد کے مرتبے کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ خود "معلمِ انسانیت" کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا
میں تمہارے درمیان معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ابن ماجہ