سورج دیو سنگھ : اردو کی محبت نے بنایا اردو کا پروفیسر

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 18-03-2024
سورج دیو سنگھ : اردو کی محبت نے بنایا اردو کا پروفیسر
سورج دیو سنگھ : اردو کی محبت نے بنایا اردو کا پروفیسر

 

محفوظ عالم : پٹنہ 

حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان سے میرا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ اسکول کے دوست جب اردو کا کلاس لینے جاتے تو دل میں تجسس ہوتا تھا کہ مجھے بھی اردو سیکھنی چاہئے۔ ابتدائی تعلیم کا زمانہ تھا اس وقت بات سمجھ میں نہیں آئی کی کس طرح اس کام کو شروع کرے۔ پھر میں نے دسویں کا امتحان دیا اور 12ویں میں داخلے سے ٹھیک پہلے کے تین چار مہینہ، میں نے اردو سیکھنے پر لگایا۔ بھگوان کا شکر ہے کہ مجھے تین چار مہینوں میں ہی اردو اتنی آ گئی تھی کہ میں انٹرمیڈیٹ میں 50 نمبر کا اردو لیکر پڑھ سکتا تھا۔ وہاں سے اردو سیکھنے، پڑھنے اور اردو کو اپنا مستقبل بنانے کا ایک ایسا سفر شروع ہوا جس کی منزل کا علم مجھے پہلے سے تھا کہ کہاں پہنچنا ہے۔ آج میں اردو کے درس و تدریس کا حصہ ہوں تو مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ میرا تعلق اس زبان سے ہے جس کو دنیا محبت کی زبان کہتی ہے۔ جس زبان میں ماں اپنے بچے کو لوری سناتی ہے لیکن نا سمجھ لوگ زبان کو مذہب میں تقسیم کرتے ہیں جبکہ زبان انسان کے احساسات کا ترجمان ہوتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے جس کا خواب دیکھا تھا آج اس مقام پر میں کھڑا ہوں اور اس جگہ سے سماج کو کوئی اگر دیکھے گا تو اردو اس کو ہندوستان کی عظیم ثقافت اور عظمت کی مثال پیش کرتی نظر آئے گی۔ آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے معروف ادیب ڈاکٹر سورج دیو سنگھ نے ان خیالات کا اظہار کیا۔

اردو سیکھنے کا سفر چیلنجنگ بھی تھا اور مزہ دار بھی

اردو سیکھنے کا میرا پورا سفر بیحد ہی خوبصورت تھا۔ شروع دنوں میں اسکول کے دوست اردو پڑھتے تو مجھے بھی اردو پڑھنے کا شوق پیدا ہوتا۔ انٹرمیڈیٹ میں 50 نمبر سے اردو پڑھنے کی شروعات ہوئی لیکن میں جلد ہی سمجھ گیا تھا کہ اردو کی گہرائی میں اترنا ہے تو اردو کو اور بھی بہتر طریقے سے پڑھنا ہوگا۔ انٹرمیڈیٹ کا رزلٹ آیا تب تک میں اردو کی پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی کی چار کتابیں پڑھ لی تھی، اس وقت اردو ہندی ٹیچر کے نام سے کتاب آتی تھی اس کا میں نے اچھے سے مطالعہ کیا۔ حالانکہ بہت باتیں سمجھ میں نہیں آئی لیکن اردو کو سیکھنے کی میری شروعات ہو چکی تھی اور میں اب رکنے والا نہیں تھا۔

شروع دن سے ہی ایک اور بات میرے دل و دماغ میں تھی کہ یہ اردو اور ہندی کا تنازعہ ہے وہ کیا ہے؟ یا زبان کے سبب ہندو اور مسلم کے آپسی جھگڑے کیوں ہوتے ہیں؟ یہ تمام باتیں بچپن سے میرے دل و دماغ میں گردش کرتی رہتی تھی اور میں ان باتوں کو قریب سے جاننا چاہتا تھا اور اس پر کام کرنے کا خواہش مند تھا، تاکہ زبان کے بنیاد پر لوگوں کے تنازعات اور جھگڑوں کو ختم کیا جا سکے۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ میں ٹھیٹر سے بھی جڑا تھا اور ٹھیٹر میں وہیں شخص کامیاب ہو سکتا ہے جس کی زبان اچھی ہو اور اردو کو جانے بغیر کوئی بہتر آرٹسٹ نہیں بن سکتا ہے۔ ایسے میں، میں یہ کہ سکتا ہوں کہ یہ تمام عوامل مل کر مجھے ایک ایسے راستہ پر لا کھڑا کیا جہاں اردو میرا مستقبل اور اردو ہی میری زندگی کا مقصد بن گیا۔

awazurdu ڈاکٹر سورج دیو سنگھ


میں خوش ہوں کہ میں اردو جانتا ہوں

اردو میں ایک کشش ہے اور محبت کی آمیزش ہے۔ جو اردو جانتا ہے وہ محبت کرنا بھی جانتا ہے اور ادب نبھانا بھی اسے آتا ہے۔ دراصل اس زبان کی یہ تاریخ رہی ہے کہ جن لوگوں نے اردو کو اپنا مسکن بنایا انہیں اردو نے ایک خوشگوار فضا میں سانس لینے کا خوبصورت احساس کرایا۔ اردو زبان کی خوبصورتی یہی ہے کہ یہاں خیر سگالی ہے، محبت ہے، امن و سکون ہے اور سب سے بڑی بات جذبات کے ترجمان کا مضبوط احساس ہے۔ حالانکہ ایک بار میرے استاد ہمایوں اشرف نے کہا کہ اردو تمہاری مادری زبان نہیں ہے، تم کو آگے کی تعلیم میں کافی دقت و پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مجھے ہر قیمت پر اردو سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ہے۔ میں نے اپنے ٹیچر ہمایوں اشرف سے کہا کہ آپ میری رہنمائی کے لئے تیار رہیں، باقی کا جو کام ہے میں کر لوں گا۔ اس طرح سے انہوں نے میری تربیت کی، میں ان کے سبھی کلاسیز میں بیٹھتا تھا۔ جب بی اے کا امتحان دیا اس وقت وہ پاس کورس کے نام سے جانا جاتا تھا اور مجھے 58 فیصدی نمبر حاصل ہوا۔ پھر اونرس کرنے کی باری آئی اور اونرس میں مجھے 62 فیصدی نمبر حاصل ہوا۔ میں چونکہ بہار کے اسکول اور کالج میں زیر تعلیم تھا۔ اس وقت یہاں کے کالج میں صرف ڈگڑی کے لئے پڑھائی ہوا کرتی تھی۔ تعلیم کا وہ ماحول نہیں تھا جو بعد کے دنوں میں میری زندگی کا حصہ بنا۔ ڈاکٹر سورج دیو سنگھ کے مطابق گریجویشن تک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اب میں غور و فکر کرنے لگا تھا کہ اعلیٰ تعلیم کے لئے بہار سے باہر جانے کا وقت آگیا ہے۔ اس وقت میرے ذہن میں کئی یونیورسیٹیوں کی تصویر گھوم رہی تھی، جیسے بی ایچ یو، اے ایم یو، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لال نہرو یونیورسیٹی حالانکہ میں کسی یونیورسیٹی کو جانتا نہیں تھا۔ پھر بہت سونچ سمجھ کر جواہر لال نہرو یونیورسیٹی کا انتخاب کیاگیا، داخلہ ٹیسٹ دیا، پورے ملک سے 23 لوگوں کا سلیکشن ہوا تھا اس میں میرا پوزیشن 12 تھا اور پھر باقاعدہ اردو کے اعلیٰ تعلیم کا میرا سفر جے این یو میں شروع ہو گیا۔

جے این یو میں اردو سے اعلیٰ تعلیم

ڈاکٹر سورج دیو سنگھ کا کہنا ہے کہ جے این یو کا پہلا سال میرے لئے کافی چیلنج بھرا رہا، ایک تو اردو جس کو حال ہی میں سیکھا تھا اس زبان سے اعلیٰ تعلیم کی شروعات کرنا اور دوسرا کہ میری اب تک کی تعلیم بہار میں ہوئی تھی جہاں تعلیم حاصل کرنے کا اس وقت وہ معیار نہیں تھا۔ میں جب جے این یو پہنچا تب جا کر احساس ہوا کہ تعلیم کا مطلب اور ماحول کیا ہوتا ہے اور مجھے کس طرح سے پڑھنا ہے۔ اگر جے این یو کے پہلے سال کو میں برداشت نہیں کر پاتا تو میرا سفر ادھورا رہ جاتا اور میرا خواب پورا نہیں ہوتا۔ میں بہار سے تعلیم حاصل کر کے جے این یو گیا تھا تو ظاہر ہے چیلنجز کافی تھا۔ پہلے سال میں مجھے کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، میں ان پریشانیوں کو جھیلا و جدوجہد کیا، اردو زبان کو مزید سیکھا، پڑھائی کی، تمام چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کی اور دوسرے سال کے بعد میں نے پھر کبھی پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ میرا تعلیمی سفر جاری رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں جب جے این یو میں پہنچا تب معلوم ہوا کہ تعلیم کا مطلب کیا ہوتا ہے اور کس طرح سے ہمیں پڑھنا چاہیے۔ جے این یو میں پڑھائی کا ڈیزائن بلکل منفرد ہے، درس و تدریس کا معاملہ دوسرے اداروں سے  بلکل برعکس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبا و طالبات ملک کے کسی بھی کمپٹیشن کے امتحان کو نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس ادارہ کے طلباء کے لئے نیٹ، جے آر ایف نکالنا بلکل آسان بات ہے۔ میں نے وہاں سے تعلیم مکمل کی، نیٹ و جے آر ایف میں کامیاب ہوا اور آج میں کہ سکتا ہوں کہ میرا خواب پورا ہوا اور مجھے اپنی منزل مل گئی۔

جب میں اردو کا پروفیسر بنا

ڈاکٹر سورج دیو سنگھ کا کہنا ہے کہ اردو زبان سے میں ناواقف تھا لیکن انٹرمیڈیٹ میں جا کر ایک طرح سے میں نے اردو کو سیکھا، اردو زبان کو جاننے کا وہ جنون ہی تھا جس کے سبب میں اردو سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکا وہ بھی جے این یو جیسے باوقار ادارہ سے۔ میں نے وہاں سے اردو میں ایم اے، ایم فیل اور پی ایچ ڈی کیا۔ پھر جب میں یو جی سی نیٹ اور جے آر ایف میں کامیاب ہو گیا تو یہ ایک غیر معمولی خوشی کا احساس تھا جس کو صرف میں محسوس کر سکتا ہوں۔ دراصل اپنے خوابوں کا پیچھا کرنا ایک بات ہے اور ان خوابوں کو حقیقت میں بدلتے ہوئے دیکھنا دوسری بات ہے۔ جب آپ اپنے خوابوں کا حقیقی مسافر بنتے ہیں تو اس خوشی کا احساس کیا ہوتا ہے اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آخر کار 2003 میں پٹنہ یونیورسیٹی کے مگدھ مہیلا کالج کے شعبہ اردو میں میری تقرری ہو گئی۔ آج میں پٹنہ یونیورسیٹی کے شعبہ اردو میں تقرر ہوں اور شعبہ اردو کا صدر شعبہ ہوں۔ یہ کہتے ہوئے مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ جس زبان سے میں نے محبت کی آج وہ زبان میری زندگی کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ اس موقع پر میں ان تمام دوست، احباب، استاد اور سینئر کا شکر گزار ہوں جن کی مدد اور دعا سے آج میں اس مقام پر پہنچ سکا ہوں۔

اردو کو سب سے بڑا زخم تقسیم ہند نے دیا

ڈاکٹر سورج دیو سنگھ کا کہنا ہے کہ اردو کو سب سے زیادہ نقصان تقسیم ہند نے پہنچایا۔ جنگ آزادی کی لڑائی جاری تھی اور اس وقت ایک اور تحریک چل رہی تھی کہ ہندی، ہندو، ہندوستان اور اردو، مسلم، پاکستان۔ تقسیم ہند میں سب سے بڑا زخم اردو کو ملا۔ غیر ضروری طور پر اس زبان کو بلی کا بکرا بنا دیا گیا۔ تقسیم ہند سے پہلے اردو زبان مشترکہ طور پر بلا تفریق مذہب و ملت یکساں مقبول تھی۔ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سبھی طبقہ میں اردو کی مقبولیت غیر معمولی تھی۔ یہ زبان ہندوستان کی مٹی سے پیدا ہوئی ہے اور اس وقت لوگوں میں اس طرح کی فیلنگ نہیں تھی، خاص طور سے زبانوں کو لیکر تو بلکل ہی نہیں تھی۔ یہ تو بعد میں سیاست نے زبانوں کو بھی سیاسی بنا دیا۔ اردو زبان جو سب کے لئے کافی عزیز ہوا کرتی تھی دیکھتے دیکھتے مسلمان ہو گئی۔

زبان کو مذہب سے جوڑنا غلط

زبانوں کو لوگ مذہب سے جوڑ کر دیکھتے ہیں یہ بلکل غلط بات ہے زبان ہر اس شخص کی ہے جس نے اسے سیکھا ہے اور اس زبان سے تعلیم حاصل کی ہے۔ ہر زبان اپنے اندر علم و ادب کا سمندر رکھتا ہے۔ اس سمندر سے وہی لوگ فائدہ حاصل کر پاتے ہیں جو زبانوں میں تفریق نہیں کرتے اور ہر زبان کے ساتھ یکساں سلوک اختیار کرتے ہیں۔ زبانوں سے نفرت اس ملک کی پہنچان نہیں ہے۔ یہاں تو اس زبان کی آج سب سے زیادہ قدر کی جاتی ہے جو زبان کبھی غلامی کا احساس کراتی تھی اور وہ زبان انگریزی ہے۔ انگریزی زبان بولنا، پڑھنا، لکھنا اب فخر کی بات ہو گئی ہے لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ غلام ہندوستان کے آقاؤں کی زبان انگریزی ہوا کرتی تھی۔ اسلئے میں یہ بات کہتا ہوں کہ زبان پر تفریق اور زبانوں کو لیکر نفرت ایک ایسی بات ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شخص جو یہ کام کر رہا ہے وہ کتنا کم علم اور کم فہم ہے۔

awazurdu ڈاکٹر سورج دیو سنگھ


اردو مسلمانوں کی زبان نہیں ہے

ڈاکٹر سورج دیو سنگھ کا کہنا ہے کہ میں دعوے کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ اردو مسلمانوں کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ ہندوستانی زبان ہے، ہندوستان کے لوگوں کی زبان ہے، اور اس کے ثبوت موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس کے تاریخی شواہد پر نظر ڈالیں تو اس زبان کو کسی خاص قوم اور خطہ سے جوڑ کر دیکھنا مناسب نہیں ہے، بلکہ یہ اردو زبان کے ساتھ زیادتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تقسیم ہند کے وقت ایک تحریک چل رہی تھی کہ ہندی، ہندو، ہندوستان اور اردو، مسلم، پاکستان۔ یعنی پاکستان بنا تو یہ کہا گیا کی اس کے لئے اردو ذمہ دار ہے، اسلئے کی یہ مسلمانوں کی زبان ہے۔ یہ الزام غلط تھا اور اس سے اردو کا سخت نقصان ہوا۔ محبت کی زبان سے لوگ نفرت کرنے لگے ایک عرصہ تک اردو پر کئی طرح کے الزامات لگتے رہے۔  ڈاکٹر سورج دیو سنگھ کے مطابق کوئی اس پر غور کرے تو اسے احساس ہوگا کہ وہ بے بنیاد باتیں تھیں جس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ جو فرقہ پرست ذہنیت کے لوگ ہیں وہ اس طرح کے کاموں میں پیش پیش رہے، سورج دیو سنگھ کا کہنا ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے سبھی مذاہب کے لوگ اردو کو کافی عزیز و محترم رکھتے تھے۔ اس میں بڑے بڑے نام ہیں، چاہے وہ مسلم ہو، غیر مسلم ہو یا سکھ ہو۔ انہوں نے کہا کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ، بلونت سنگھ، خشونت سنگھ، گلزار جیسے سیکڑوں عظیم لوگوں کا نام ہے جنہوں نے اردو کی بقا اور ترقی کے لئے کام کیا ہے۔ اردو کو ہی اپنی زبان اور اپنا مستقبل سمجھا ہے۔ انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا اور نہ ہی احساس کیا کہ یہ مسلمانوں کی زبان ہے، بلکہ وہ یہ محسوس کرتے رہے کی یہ ہندوستان کی زبان ہے اور اسی ملک کی مٹی میں اس زبان نے ترقی کی منزلیں طے کی ہے اور آج اس مقام پر ہے۔ ڈاکٹر سورج دیو سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ وہ زبان ہے جس کا رشتہ سنسکرت سے جا کر ملتا ہے۔  اردو میں ہندوستان کی عظیم وراثت نظر آتی ہے، کوئی اس زبان پر تحقیق کرے تو اسے اردو کی عظمت، محبت اور حب الوطنی کا منفرد احساس ہوگا۔