متصوفانہ اقدار اور دارا شکوہ کی شاعری

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
متصوفانہ اقدار اور دارا شکوہ کی شاعری
متصوفانہ اقدار اور دارا شکوہ کی شاعری

 

 

 عبدالواسع, نوئیڈا 

 دارا شکوہ 29 مارچ 1615 کو اجمیرکے قریب پیدا ہوا۔1 وہ شاہ جہاں کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔وہ اپنے والد کو دوسرے شہزادوں کے مقابلے کہیں زیادہ عزیزرکھتا تھا 2 جب وہ 16 سال کا تھا تو اس کی والدہ اس جہان فانی سے کوچ کرگئیں۔اس کی بڑی بہن جہاں آرا بیگم نے اس کی دیکھ بھال کی۔ دارا کی ایک چھوٹی بہن حسن آرا بیگم بھی تھی۔ 

دارا شکوہ کوچھ سال کی عمرمیں تعلیم وتربیت کے لیے عبداللطیف سلطان کے حوالے کیا گیا۔4 میرک شیخ سے دارا شکوہ نے عربی، فارسی، تفسیر اور علوم متداولہ کا اکتساب کیا۔5 دارا شکوہ  فارسی،عربی اورسنسکرت زبان کا ماہر تھا۔ وہ مصنف، شاعر اورخطاط بھی تھا۔اس نے خوش نویسی کے نمونے اورمغل شہزادوں کا ایک البم تیارکیا تھا۔محمود علی نے لکھا ہے’’ علوم کے علاوہ داراشکوہ نے نقاشی اور خطاطی میں بھی مہارت حاصل کی۔اس نے خوش نویسوں کے نمونے اور مغل بادشاہوں اور شہزادوں کی تصاویرکا ایک مرقع تیار کیا تھا جسے اپنی رفیقہ حیات نادرہ بیگم کو 1641-42 میں اپنے رقم کردہ دیباچے کے ساتھ  پیش کیا۔  

 دارا کو تصوف میں خاص دلچسپی تھی۔ میاں میر 7 اور ملا شاہ بدخشی 8کے ساتھ اس کے اچھے تعلقات تھے۔ 1635 میں اس کی روحانی زندگی کا آغاز میاں میر کے اثر سے ہوا۔ میاں میر کی وساطت سے ہی اس کی ملاقات ملا شاہ بدخشی سے ہوئی۔ دارا شکوہ کی ملاقات ملاؤں اور جوگیوں سے ہوتی رہتی تھی اوروہ ان سے عقائد و مذہب کو سمجھتا رہتا تھا۔9 وہ شاہ محب اللہ الہ آبادی، شاہ دلربا، سرمد، بابا لال داس بیراگی کے خیالات سے کافی  متاثر تھا۔10  اس نے بھگت رامانند اور مسلم صوفی مرزا سالک لاہوری  اور مرزا لاہوری سے بھی کسب فیض کیاتھا۔فارسی ادب کے عظیم اسکالر عبدالرحمن جامی کی کتا ب ’  نفحات  الانس‘  کابھی اس نے بدقت مطالعہ  کیا تھا۔11اس نے چندر بھان برہمن سے بھی اخذ واستفادہ کیا تھا۔چندر بھان نہ صرف پہلا صاحب دیوان شاعر تھابلکہ فارسی کا پہلا ہندو شاعر بھی تھا۔اس نے تصوف اور عرفان پر بہت سی کتابیں لکھی تھیں۔دارا شکوہ  پراس کی روحانی تعلیم کا بہت گہرا اثر پڑا۔ محمود علی نے اپنی کتاب میں داراشکوہ  کے احوال پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے لکھا ہے۔’’چندربھان سے دارا شکوہ کے خیالات میں ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔‘‘

دارا شکوہ  ایک دانشور، صوفی، مترجم اورادیب کے ساتھ ساتھ اعلی ذوق کا حامل شاعربھی تھا۔ وہ قادری تخلص کیا کرتا تھا۔ اس کا دیوان’اکسیراعظم‘ کے نام سے یادگار زمانہ ہے۔ اس کے دیوان میں غزلوں کے علاوہ کچھ رباعیاں بھی ہیں۔دارا کا مطالعہ کافی وسیع تھا۔ اس نے قدیم فارسی ادبیات کا عمیق مطالعہ کیاتھا۔ نظامی، سعدی، حافظ، عراقی، رومی، جامی اور سنائی جیسے شعرا کے  اشعار اس کی نوک زباں پر تھے۔ اس نے اپنی تصانیف حسنات العارفین، رسالہ حق نما، سفینۃ الاولیااور سکینۃ الاولیا میں ان شعرا کے کلام سے استشہاد کیا ہے۔ ’رسالہ حق نما‘ میں اس نے حافظ کا یہ مشہور شعراستعمال کیا ہے ؎

کس ندانست منزل گہ دلدار کجاست

این قدر ہست کہ بانگ جرس می آید 

’’کوئی نہیں جانتا کہ میرے محبوب کی منزل کہاں ہے۔ صرف اس قدر جانتاہوں کہ گھنٹے کی آواز مسلسل آر ہی ہے۔‘‘

اسی طرح رسالہ حق نما میں ہی مولانا جامی کا یہ شعر استعمال ہوا  ہے        ؎

درقافلہ کہ اوست دانم نرسم

 ایں بس کہ رسد بگوش بانگ جرسم 

’’میں جانتا ہوں کہ اس قافلے تک نہیں پہنچ سکتا جس میں میرا محبوب ہے۔ میرے لیے یہی بہت ہے کہ اس قافلے کے گھنٹے کی آواز میرے کانوں تک پہنچتی رہے۔‘‘

رومی کا شعر بھی دارا کی اہم تصنیف ’رسالہ حق نما‘ میں کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ ایک شعر بطور نمونہ ملاحظہ ہو       ؎

زچندیں رو بہ مہمانست آورد

 نیاوردت برائے انتقام او 

’’ اس نے تجھے اس راہ سے اس لیے گزارا ہے کہ ایک مہمان کی طرح تیرا استقبال کرے، اس لیے نہیں کہ ایک مجرم کی طرح سزا دے۔‘‘

اسی طرح ’ـسکینۃ الاولیا ‘میں بھی دارا نے قدیم فارسی شعرا کا کلام جابہ جا استعمال کیا ہے۔ سنائی کا ایک شعر بطور نمونہ درج ہے        ؎

مجلس وعظ رفتنست ہوس است

 مرگ ہمسایہ واعظ تو بس است 

’’مجلس میں وعظ کے لیے جانا ہوس ہے،مرگ ہمسایہ ہی وعظ کے لیے کافی ہے۔‘‘

اس کے علاوہ دارا کی دیگر تصانیف میں بھی کلاسیکی فارسی شعرا کا شعرخوب خوب استعمال ہوا ہے۔اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اس نے قدیم فارسی شعرا کا گہرائی سے مطالعہ کیا تھا۔ دارا کی تصانیف کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ وہ  خاقانی، سعدی، حافظ، خسرو، عراقی اور ابوسعیدابوالخیرکے خیالات سے حد درجہ متاثر تھا۔ اس کا پورا کلام تصوف کے رنگ میں شرابور نظر آتا ہے۔

تصوف سے شغف رکھنے والے لوگ عرفی شیرازی، نظیری نیشاپوری،طالب آملی، کلیم کاشانی او ر قدسی جیسے صوفی شعرا کا کلام پڑھتے ہیں اور اپنی روحانی حس کو غذا فراہم کرتے ہیں۔ دارا شکوہ کا کلام پڑھ کر بھی کچھ اسی طرح کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ بطور مثال رومی، جامی اور دارا شکوہ کا کلام پیش کیا جاتا ہے تاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ رومی اور دیگر قدیم صوفی شعرا کی طرح دارا کا کلام بھی اپنے اندروہی متصوفانہ چاشنی و شیرینی لیے ہوئے ہے۔

رومی کا کلام            ؎

ما در رہ عشق تو اسیران بلائیم

کس نیست چنیں عاشق بیچارہ کہ مائیم

برما نظرے کن کہ دریں ملک غریبیم

برما کرمے کن کہ در ایں شہر گدائیم

مرا نہ غم دوزخ ونے حرص بہشت است

بردار زرخ پردہ کہ مشتاق لقائیم17

’’ہم عشق کی راہ میں، سخت مصیبت میں گرفتار ہیں۔ہماری طرح پریشان حال کوئی عاشق نہیں ہوگا۔‘‘

ہم پر کرم کی نگاہ کر کیوں کہ ہم اجنبی ملک میں ہیں، ہم پر کرم فرما کیونکہ ہم اس شہر میں مفلس و بے نوا کی طرح ہیں۔ مجھے نہ دوزخ کا غم ہے اور نہ ہی جنت کی تمنا، اپنے رخ سے پردہ  اٹھا کہ ہم دیدار کے خواہشمند ہیں۔‘‘

جامی کاکلام            ؎

مرا شد جامہ جاں از غمت چاک

بیا اے آرزوئے جان غمناک

بیک رفتار بردی صددل از راہ

تعالی اللہ عجب چستی وچالاک

نہانی ہرشب آیم من بکویت

گریبانے دریدہ دامنے چاک

’’میں تمھارے غم میں چاک گریباں ہوں،اے رنجیدہ جان کی آرزو اب تو آجا۔ ایک چال میں تونے سیکڑوں دل کو اپنا اسیر بنا لیا،اللہ اکبر تو کتنا چالاک و چست ہے۔ میں رات کی تنہائی میں،دامن کو چاک  کیے اور گریبان کو پھاڑے تمہارے کوچے میں آتا ہوں۔‘‘

دارا کا کلام            ؎

ای تو اندر ہر جمالے رونما

وی تو اندر ہر لباسے آشنا

ای بہر جا حسن خوبت جلوہ گر

ای فتادہ شورحسنت جابجا

آنکہ ہرکس دیدسوئے روی تو

چشم خود پوشید اواز ما سوا 

’’تو ہی ہر جمال کے اندر ہے، ہر لباس کے اندربھی  تو ہی ہے۔ تمھارا حسن ہر جگہ جلوہ گر ہے،تمہارے حسن کا شور ہر جگہ ہے۔جس نے بھی تمہارا چہرہ دیکھ لیا، اس نے ماسوا سے اپنی آنکھ پھیر لی۔‘‘

دارا کی شاعری کا بالاستیعاب مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ اس کی شاعری عمومی طور پر دو محور پر گردش کرتی ہے۔ایک طرف اس کی شاعری میں جہاں تصوف کے اقدار نظرآتے ہیں  وہیں دوسری طرف وہ  سلسلہ قادریہ کی تعریف میں رطب اللساں نظر آتا ہے۔اس نے سلسلہ قادریہ سے جابہ جا اپنی وابستگی کا اظہار کیا ہے اور اسے تمام سلسلوں سے برترثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ سلسلہ قادریہ کے حوالے سے اس کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں          ؎

نگہ کرد قادر چوں در قادری

ہمہ نام کردند ایں را بقا 

’’قادر نے جب قادری سلسلے پر غوروفکر کیا تو یہ سلسلہ ہی سب سلسلوں میں اچھا نظرآیا۔‘‘

ہر کہ دل خویش را بست باین سلسلہ

 ہردم و ہرساعتش کار بہ بالابرد

دست بدست آمدہ سلسلہ پیرما

 تا بہ قیامت ہمین سلسلہ ما بود

سلسلہ قادری است آں کہ بحکم خدا

 برہمہ قادر بود تا ہمہ دنیابود 

’’جو بھی اس سلسلے سے وابستہ ہوا، اس کا کام ہروقت اور ہرلمحہ بنتا جائے گا۔ ہمارے پیر کا سلسلہ ہاتھوں ہاتھ یہاں تک پہنچا ہے،قیامت تک یہ سلسلہ یونہی  قائم رہے گا۔‘‘

دارا شکوہ صوفیوں  اور سنتوں کی صحبت کا پروردہ تھا۔ اس کے کلام میں تصوف کے مضامین نہ پایا جانا غیر فطری کہا جائے گا۔ اس نے وحدۃ الوجود، توکل، فنا، تسلیم ورضا، صبروقناعت، صدق، اخلاص، احسان،خشوع، خضوع، فقر، انابت،دنیاکی بے ثباتی اور دنیاطلبی سے گریز جیسے مسائل کو اپنی شاعری میں جگہ دیا ہے۔

  وحدۃ الوجود کا نظریہ صوفی شعرا کے نزدیک مقبول ترین نظریہ تھا۔تقریبا تمام صوفی شعرا نے اسے اپنا موضوع سخن بنایا ہے۔دارا شکوہ کے یہاں بھی اس روش کا تتبع نظرآتا ہے۔  اس کے دیوان کی پہلی غزل ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ وحدت کا قائل ہے۔  شعر ملاحظہ ہو         ؎

ہمہ موجود در وجود ما

 گنج مخفی است این وجود ما

گرچہ در پردہ داشتیم آواز

 شد ز نے ظاہر وجود ما

ماندیدیم ہیچ غیر خود

 غیر ننمود در شہود ما 

’’ہمارے وجود میں  تمام اشیا موجود ہیں،ہمارا یہ  وجود چھپا ہوا خزانہ ہے۔ درپردہ گرچہ ہمارے اند ر آواز ہے، پھر بھی نے سے ہمارا وجود ظاہر ہوا۔ اپنے علاوہ میں نے کچھ نہیں دیکھا، ہمارے شہود  میں کوئی غیر نہیں ہے۔‘‘

تصوف کے وہ مضامین جو عام طور پر صوفی شعرا کے یہاں ملتے ہیں، تقریبا وہ تمام دارا شکوہ کی شاعری میں نظرآتے  ہیں۔جس طرح صوفی شعرا کے کلام میں خدا کی تعریف اور پیغمبراسلام سے والہانہ عقیدت کا اظہار ملتا ہے اسی طرح دارا شکوہ کے یہاں بھی اس طرح کی مثالیں ملتی ہیں۔داراشکوہ خدا کی تعریف اور پیغمبراسلام سے اپنی عقیدت کا اظہار یوں کرتا ہے           ؎

متوجہ مشو بغیرخدا

رشتۂ ہست سبحہ و زنار 

’’خدا کے علاوہ کسی دوسرے سے لو مت لگاؤ،سبحہ و زنار کا سرا اسی سے ملتا ہے۔‘‘

چندنازی تو برشریعت خود

 احمد مرسل از خداست سوا 

’’کب تک اپنی اپنی شریعت پر ناز کرتے رہوگے، محمد مصطفیٰ کی شریعت سب سے اعلی ہے۔‘‘

توکل در اصل کسی معاملے میں کسی ذات پر اعتماد کرنے کا نام ہے بہ الفاظ دیگراپنی عاجزی کا اظہار، دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ توکل ہے۔ تصوف کی اصطلاح میں دنیو ی واُخروی تمام معاملات میں نفع ونقصان کا مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو قرار دینا توکل کہلاتا ہے۔ صوفیا توکل پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ تقریبا تما م صوفی شعرا کے یہاں توکل کے مضامین بڑی اہمیت سے بیان ہوئے ہیں۔ دارا شکوہ بھی اپنے کلام  میں اس مسلک کا پیرو نظر آتا ہے۔ یہ شعر ملاحظہ ہو         ؎

ہرکہ دل را بزلف دلبر بست

گشت آزاد از دو کون برست  

’’جس نے محبوب کی زلف سے اپنے دل کو باندھ لیا، اسے دونوں جہان سے آزادی مل گئی۔‘‘

تصوف و عرفان میں فنا و بقا کے تصور کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے۔فنا میں عارف اپنے ارادے و و جود کو ختم کردیتا ہے۔ پھر اس کے بعد اسے حق تعالیٰ کا وصل ہوجاتا ہے۔فنا،بقا کے حصول کا ابتدائی زینہ ہے۔فنا کے ذریعے بندہ صفات خداوندی سے متصف ہوجاتا ہے اور بقائے حقیقی کو حاصل کرلیتا ہے۔دارا شکوہ  چونکہ ایک صوفی منش شاعر تھا لہذا اس کے کلام میں فنا اور بقا کے تعلق سے بیشمار اشعار ملتے ہیں۔ بطور نمونہ یہ شعر ملاحظہ ہو

باقی نشوی ہرگز تا می نشوی فانی

ایں پند بکن در گوش از قادری دانا 

’’جب فنا نہ ہوگے ہرگز بقا نصیب نہیں ہوگی، قادری کی اس نصیحت کو غور سے سن لو۔‘‘

انسان کا اپنے مقام، اپنی صلاحیتوں اور ذمے داری سے آگاہ ہونا خود شناسی کہلاتا ہے یعنی انسان کا اس کائنات میں کیا مقام ہے؟ وہ خالق ہے یا مخلوق؟ اور پھر اگر وہ مخلوق ہے تو  اس کا درجہ کیا ہے؟  انسان کس طرح دوسری مخلوقات سے مختلف ہے۔ میں کون ہوں، میں یہاں کیوں آیا ہوں اور میراا خالق کون ہے ان تمام چیزوں کا جاننا تصوف میں خود شناسی یاعلم حال  اورخود شناس کو صاحب حال کہاجاتا ہے۔ خود شناسی سے ہی’رب شناسی‘ کے مقام پر فائز ہوا جا سکتا ہے۔خود شناسی کے بغیر خدا شناسی ناممکن سا امر ہے۔یہی وجہ ہے کہ تمام صوفیا نے خود شناسی پر کافی زور دیا ہے۔ دارا شکوہ بھی چونکہ صوفیوں کے ماحول کا پروردہ تھا لہٰذا اس کے دیوان میں خود شناسی سے متعلق اشعار کا پایا جانا کوئی امر استعجاب نہیں ہے۔ بطور نمونہ یہ شعر ملاحظہ ہو 

عین خود بشناس یار بے بہا

ایں متاع نیک در بازار نیست 

’’اے میرے قیمتی دوست خود کو  پہچان،اس سے اچھا سودا بازار میں دستیاب نہیں ہے۔‘‘

 تصوف میں فقر وغنا کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ فقر کا معنی درویشی، محتاجی اور تنگی اور غنا کا مطلب دولتمندی و بے نیازی ہوتا ہے۔ صوفیوں کے یہاں غنا سے مراد غنائے دل ہوا کرتا ہے۔ اس سے بندہ دنیا سے پوری طرح بے نیاز ہوجاتا ہے اور صرف ایک خدا کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح فقر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بندہ دنیاسے بے نیاز ہوکر خدا کا محتاج ہوجائے۔صوفی شعرا کے یہاں فقر وغنا کا استعمال بکثرت ہوا ہے۔ داراشکوہ بھی اس کا تتبع کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ نمونے کے طور پر یہ شعر ملاحظہ ہو        ؎

ہست کافی محبت آں  یار

 دین و دنیا و زر نمی خواہد

’’یار کی محبت ہی کافی ہے، دین، دنیاا ور مال و زر کی کیا ضرورت۔‘‘

اسی معنی کا دوسرا شعر ملاحظہ ہو         ؎

مسافرہرقدر باشد سبکسار

نباید در سفر تصدیع و آزار 

’’مسافر کے پاس جتنا کم سے کم سامان ہوگا، سفر میں اسے کم سے کم پریشانی ہوگی۔‘‘

یہ دنیا  اپنی تمام تر د ل فریبی و دلکشی کے باوجودفانی ہے۔ ایک نہ ایک دن  اسے ختم ہوجانا ہے۔باقی رہنے والی ذات صرف اور صرف خدا کی ہے۔اسی لیے اسلام میں اخروی زندگی کوبنانے اور سنوارنے پر زور دیا گیا ہے کیونکہ اصل مقصد اخروی کامیابی ہے۔ صوفیا نے بھی اسی اسلامی احکام کی پیروی میں دنیا سے دور رہنے اور آخرت کو سنوارنے پر زوردیا ہے۔ صوفی شعرا کے کلام میں دنیاکی بے ثباتی کا ذکر کثرت سے کیا گیا ہے۔ دارا شکوہ بھی  دُنیا کی بے ثباتی کا قائل ہے۔ وہ کہتا ہے انسان دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آیا ہے۔ انسان کا وجود دنیا میں ایک مسافر کی طرح ہے۔ لہٰذا اسے اس دنیا میں خود کو ایک مسافر تصور کرنا چاہیے۔چنانچہ وہ کہتا ہے۔

توہم اندر جہاں ہستی مسافر

یقیں می داں اگر ہستی تو ہشیار 

’’تو اس جہان میں مسافر کی طرح ہے، اگر تو ہوشیار اور چالاک ہے تو اسے اچھی طرح جان لے۔‘‘

اپنے آپ کو پہچان لینے کانام خودی ہے۔بندہ جب یہ جان لیتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں تو اس کی اپنی کوئی خواہش باقی نہیں رہتی اور رب کی رضا ہی اس کے  لیے سب کچھ ہوجاتی ہے۔اور جب بندہ اور رب کی چاہتیں ایک ہوجاتی ہیں تو بندہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں بندے کی چاہت رب کی چاہت بن جاتی ہے۔ ’من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ‘میں اسی امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔صوفیا کے یہاں خودی کے مسئلے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ تقریبا تمام صوفی شعرا کے کلام میں خودی کے موضوع پر اشعار ملتے ہیں۔ دارا شکوہ نے بھی خودی کو اپناموضوع سخن بنایا ہے۔وہ انا اور خود پسندی سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ ایک شعر ملاحظہ ہو          ؎

ہستی خویش دور کن از سر

گر تو داری زجان ودل سرما 

’’اپنی ہستی کا خیال دل سے نکال دے۔ اگر تو جان ودل سے ہم پر فدا ہے۔‘‘

دارا شکوہ اپنے کلام میں مثبت نظریے کا حامل نظر آتا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ انسان کو اپنا فریضہ ادا کرتے رہنا چاہیے اور اپنی عبادتوں پر نازاں نہیں ہونا چاہیے۔ بندے کو اللہ کی رحمت سے مغفرت کی امید رکھنی چاہیے کیونکہ اس کی رحمت کا فی وسیع ہے۔ خدا اپنے بندوں کے گناہوں کو ضرور بخش دے گا کیونکہ اس نے قرآن میں ’لاتقنطوا‘ فرمایا ہے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے

چرا لاتقنطوا من رحمت اللہ

فرامش ساختی واللہ باللہ

چوں رحمت راست سبقت بر غضبہا

ز ’ان اللہ  یغفر‘ باش آگاہ 

’’اللہ کی رحمت سے مایوس کیوں ہو، خدا کی قسم تم نے اسے فراموش کردیا ہے،اس کی رحمت اس کے غضب پرحاوی ہے،کیا تمہیں ’ان اللہ یغفر‘ کا علم نہیں ہے۔‘‘

ادب کی تاریخ میں  ملا، مولوی، زاہد اور واعظ ادبا اور شعرا کو تختہ مشق بنایا جاتا رہا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں جس انداز میں ملاکی تنقید کی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔  دارا شکوہ کے اشعار میں بھی ملا پرسخت تنقید ملتی ہے۔ ملا پر دارا شکوہ کی تنقید کوئی خلاف واقعہ بھی نہیں ہے کیونکہ جس طریقے سے اس دور میں ملا کو ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اس سے دارا شکوہ کا کبیدہ خاطر ہونا لازمی امر تھا۔ دارا شکوہ سخت انداز میں ملا کی تنقید کرتا ہے۔ تنقید کا تیور ان اشعار میں ملاحظہ ہو         ؎

بہشت آنجا کہ ملائے نباشد

زملابحث وغوغائے نباشد

دراں شہرے کہ ملا خانہ دارد

درآنجا ہیچ دانائے نباشد  

’’بہشت ایسی جگہ ہے جہاں ملا نہ ہوگا۔ بحث و مباحثہ سے وہ جگہ خالی ہوگی۔جس شہر میں ملا کا گھر ہوتا ہے، وہاں کوئی عقلمند بود وباش نہیں کرتا۔‘‘

دارا شکوہ نے کلام الٰہی کا مطالعہ بالاستیعاب کیاتھا۔ اس کے کلام میں اس وسیع وعمیق مطالعے کی واضح جھلک ملتی ہے۔ قرآنی آیات سے مستفاد مطالب  اس کے دیوان میں جابہ جا ملتے ہیں۔ قرآن کریم کی مشہور آیت إِنَّا عَرَضۡنَا الۡأَمَانَۃَ عَلَی السَّمَٰوَٰتِ وَالۡأَرۡضِ وَالۡجِبَالِ فَأَبَیۡنَ أَن یَحۡمِلۡنَہَا وَأَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَحَمَلَہَا الۡإِنسَان إِنَّہُ کَانَ ظَلُومًا جَہُولاً34 }ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے (مگر) انسان نے اٹھا لیا، وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے{۔ کو بہت سارے صوفی شعرا نے اس آیت کریمہ کو تلمیح کے طورپراپنے کلام میں استعمال کیا ہے اور انس وجن کی عظمت کو اجاگر کیا ہے۔ حافظ کے یہاں بھی اس آیت کریمہ سے متعلق اشعار ملتے ہیں۔ مثلا حافظ کا یہ شعر         ؎

آسماں بارِ امانت نتوانست کشید

قرعۂ فال بہ نامِ منِ دیوانہ زدند 

’’آسمان بھی اس امانت کے بوجھ کا متحمل نہیں ہوسکا، یہ قرعہ فال اس دیوانے کے نام ہی آیا۔‘‘

دارا شکوہ نے اس مفہوم کو اس انداز میں ادا کیا ہے       ؎

بارگران عشق جز آدمی نبردست

جن و ملک یقیں داں کیں بار برنتابد 

’’عشق کا بار گراں آدمی کے علاوہ اور کوئی نہیں اٹھا سکتا،جن وملک اس بوجھ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔‘‘

تلمیح کے مزید چند اشعار ملاحظہ ہوں         ؎

لاتجہر ازخدای شنیدند باوجود

چنداں کنند شورکہ بیزار کردہ اند

قومے کہ بستہ اند زروز الست عہد

مخفی نشستہ اند نہ اظہار کردہ اند 

’’ان کے پاس خدا کا کلام ’لاتجہر‘ پہنچ چکا ہے، پھر بھی وہ  اتنا شور کرتے ہیں۔جس قوم نے روز الست عہد کیا تھا،وہ قوم آج نہ تو خاموش  ہے اور نہ ہی اس کا اظہار کررہی ہے۔‘‘

پہلے شعر میں’لاتجہر‘ سے اشارہ قرآن کریم کی اس آیت یَٰٓأَیُّہَا ا لَّذِینَ  آمَنُواۡ لَا تَرۡفَعُوٓاۡ أَصۡوَٰتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجۡہَرُواۡ لَہُ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ أَن تَحۡبَطَ أَعۡمَٰلُکُمۡ وَأَنتُمۡ لَا تَشۡعُرُونَ38 اوردوسرے شعر میں روز الست عہد سے مرادقرآن کریم کی اس آیت إِذۡ أَخَذَ رَبُّکَ مِن  بَنِیٓ ئَادَمَ مِن ظُہُورِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَأَشۡہَدَہُمۡ عَلَیٰٓ أَنفُسِہِمۡ أَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ  قَالُواۡ بَلَیٰ  شَہِدۡنَآ  أَن تَقُولُواۡ یَوۡمَ الۡقِیَٰمَۃِ إِنَّا کُنَّا عَنۡ ہَٰذَا غَٰفِلِینَ39 کی طرف اشارہ ہے۔

دارا  شکوہ کے کلام میں دوسرے صوفی شعرا کی طرح تصوف سے جڑے  الفاظ جیسے ذاکر، ذکر، دل، مے، فنا، بقا، صوفی، خرقہ، دستار، رائی، مرئی،زنار، عشق، فانی، رقیب، بوالہوس، خودی، زہد،جام، ملا وغیرہ خوب خوب استعمال ہوئے ہیں۔

بہرحال  دارا شکوہ  ایک صوفی شاعر تھا۔اس نے دیگر صوفی شعرا کی طرح حق پرستی و خدا پرستی کی تعلیم دی اور خدا سے قریب ہونے کے طریق سے عوام کو باخبرکیا۔اس نے اپنی شاعری کے ذریعے صلح کل اور امن عالم کا پیغام سرمدی پیش کیا اور سماجی تانے بانے کو مستحکم کرنے والے صوفیا کے پیغام کواپنے الفاظ میں سماج کے ہرطبقے تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کی۔ اس کی شاعری  انسان کی خوشحالی، انسان کی دنیوی واخروی کامیابی، باہمی رواداری اور سماجی ہم آہنگی کا بہترین نمونہ ہے۔