عید الضحیٰ پر سرسید احمد خان نے روک دی تھی گائے کی قربانی

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 07-06-2025
 عید الضحیٰ پر سرسید احمد خان نے روک دی تھی  گائے کی قربانی
عید الضحیٰ پر سرسید احمد خان نے روک دی تھی گائے کی قربانی

 



منصور الدین فریدی : آواز دی وائس 

۔ سر سید احمد خان نے   گائے کے ذبیحہ پر پابندی  کی حمایت کی تھی ۔

۔ عید الاضحی  پر سرسید نے  طلبا کو  گائے  کی قربانی سے روک دیا تھا ،وہ گائے کو چھڑا کر لے گئے تھے ۔

۔ سرسید کے دور سے  ابتک  اے ایم یومیں کبھی گائے کا گوشت نہیں کھایا یا کھلایا گیا ہے ۔

 جی ہاں ! یہ انکشافات  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  سے پانچ دہائیوں سے زیادہ کا رشتہ رکھنے والے ریٹائرڈ پبلک ری لیشن افسر اور  ممتاز مصنف  راحت  ابرار  کے ہیں  جو انہوں نے اپنے ایک مضمون میں کئے تھے ،یہ مضمون  اے ایم یو کے زیر اہتمام شائع ایک کتاب Sir syed's Legacy of pularism and composite Culture (سر سید کی وراثت اور جامع ثقافت) میں شائع ہوا تھا۔

ممتاز مصنف اور مورخ راحت ابرارکے مطابق سر سید کا ماننا تھا کہ مسلمانوں کو ہندوؤں کے ساتھ امن و ہم آہنگی کے لیے گؤکشی ترک کر دینی چاہیے۔ کالج کے احاطے میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی کے بعد اس موضوع پر سر سید نے اپنے ایک مضمون میں لکھاکہ ۔۔۔"میں نے بارہا اپنی برادری سے کہا ہے کہ وہ سمجھیں کہ گائے کے ذبیحہ کا سہارا لے کر اپنے ہندو بھائیوں کو ناراض کرنا ایک حماقت ہے۔ اگر ہمارے درمیان اس طرح دوستی قائم ہو سکتی ہے تو یہ گائے کے ذبیحہ سے بہتر ہے ،مسلمانوں کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ اس حق کو ترک نہ کریں۔   ( حوالہ ۔ طفیل احمد منگلوری، مسلمانوں کا روشن مستقبل،صفحہ 16-17)

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے  راحت ابرار نے کہا کہ سر سید احمد خان کی زندگی کے ایسے متعدد واقعات ہیں جن پر ابتک روشنی نہیں ڈالی جاسکی ہے ،جن میں ہندووں کے مذہبی جذبات کے احترام کا جذبہ بھی شامل ہے ۔ راحت ابرار نے کہا کہ ۔ 1857 کی بغاوت کی ناکامی کے بعد گائے کا مسئلہ سب سے اہم تنازع کے طور پر ابھرا۔ 1882 میں شمال مغربی صوبے میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے اور گائے کی حفاظت ایک تحریک بن گئی جسے ہندی زبان اور ناگری رسم الخط کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس کے قیام (1884) کے بعد، کانگریس پارٹی نے گائے اور ہندی-اردو تنازع کو باہم جوڑ دیا۔ یہی وجہ تھی کہ سرسید احمد خان نے  گائے کے تحفظ کی حمایت کی ،مسلمانوں پر   گائے ذبیحہ ترک کرنے  کا زور دیا ۔

  جب سرسید نے  گائے کو قربانی سے بچایا

راحت ابرار نے اس سلسلے میں کہا کہ یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ ۔۔۔اے ایم یو کے سابقہ دور یعنی ایم اے او کالج کے ابتدائی دنوں میں، جب پورے ہندوستان میں گؤکشی عام تھی، سر سید کو معلوم ہوا کہ کچھ طلبہ نے عیدالاضحیٰ کے موقع پر قربانی کے لیے ایک گائے خریدی ہے۔یہ سن کر سر سید بہت افسردہ ہوئے اور فوراً ہاسٹل پہنچے جہاں گائے رکھی گئی تھی۔ انہوں نے فوراً گائے کو اپنی تحویل میں لے لیا اور قربانی کی اجازت نہیں دی ۔۔۔ ( uvhlo - حیات جاوید،الطاف حسین حالی 9 - 448)

سرسید کے زمانے سے اے ایم یو کے کسی بھی ہاسٹل میں کبھی گائے کا گوشت پیش نہیں کیا گیا اور نان ویجیٹیرین طلباء کی بنیادی خوراک بھینس کا گوشت رہی ہے۔

 گائے کی قربانی نہ کرنے پر بریلی  کے مسلمانوں کی تعریف

 دلچسپ بات یہ ہے کہ  سر سید کا تعلق سوامی دیانند سرسوتی (بانی آریہ سماج)، راجا رام موہن رائے، سر سورندر ناتھ بنرجی، لالہ لاجپت رائے، راجا شیو پرساد آف بنارس، بھرتندو ہریش چندر اور راجا شنبھو نارائن جیسے ہندو رہنماؤں سے گہرا تھا۔ لالہ لاجپت رائے  نے ایک خط میں سر سید احمد خانب  کو بتایا تھا کہ ان کے والد سر سید احمد خان کو "انیسویں صدی کا اوتار" مانتے تھے۔
  راحت ابرار کے مطابق سر سید نے مسلمانوں کو گائے ذبیحہ ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ۔۔۔ ’’مسلمانوں کے لیے یہ مناسب ہوگا کہ وہ ایسی رسومات کو چھوڑ دیں، اگر ایسی رسومات کو چھوڑ کر ہندو مسلم باہمی تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اتحاد اس چھوٹے سے حق سے زیادہ قیمتی اور قابل حصول ہے۔ مذہب کے مطابق قربانی کی روایت گائے کے ذبیحہ پر منحصر نہیں ہے۔ اس روایت کو بغیر کسی نقصان کے مذہب کو اچھی طرح برقرار رکھا جا سکتا ہے، قربانی کی رسم بکری یا دنبہ سے بھی ادا کی جا سکتی ہے‘‘۔
 ( حوالہ۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ،4 اکتوبر 1887۔)
 
 
راحت ابرار کہتے ہیں کہ 12 جون 1897 کو "علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ" میں شائع شدہ ایک مضمون میں سر سید نے بریلی کے مسلمانوں کی تعریف کی تھی، جنہوں نے ہندو بھائیوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے عیدالاضحیٰ کے موقع پر گائے کی قربانی سے رضاکارانہ طور پر اجتناب کیا۔

 تہذیب کے کثرتی  مزاج کو فروغ 

 آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے  راحت ابرار نے کہا کہ  سرسید احمد خان کے کچھ نقادوں کے برعکس اے ایم یو کے بانی نے اپنے آخری ایام تک ہندوستان کی تکثیری اخلاقیات کو فروغ دینے کا کوئی موقع نہیں گنوایا۔ حالانکہ وہ 1860 کی دہائی کے آخر میں متحدہ صوبوں میں ہندی اردو کے تلخ تنازعہ کے پھوٹ پڑنے کے بعد سخت مایوس تھے۔لیکن اس کے باوجودان کا موقف  تکثیری  اخلاقیات کے حق میں تھا ۔