ادب اور سائنس کے درمیان کی دوری کو ختم کرتا ہے "سائنس فکشن"-ڈاکٹر خورشید اقبال
Story by منصورالدین فریدی | Posted by Aamnah Farooque | Date 20-12-2023
"سائنس فکشن " بھی ادب کی ایک صنف ہے۔۔ڈاکٹر خورشید اقبال
شاہ تاج خان - پونے
‘‘میں سائنس کا طالبِ علم رہا ہوں۔ بچپن سے ہی ادب کے مطالعہ کی ‘لت ’لگی ہوئی تھی۔یعنی سائنس اور ادب کو ساتھ لے کر چل رہا تھا۔ایک طرف فزکس،کیمسٹری اور بایو لوجی تو دوسری طرف اردو ناول ،افسانے اور شاعری۔ایک طرف نیوٹن،مینڈل،جولس اور ڈارون تھے تو دوسری طرف ابن صفی،کرشن چندر،ساحر لدھیانوی،منٹو،فیض،غالب اور اقبال۔میں ایک ساتھ دو دنیاؤں میں جی رہا تھا۔’’ درس و تدریس کے پیشہ سے وابستہ رہے کلکتہ کے ڈاکٹرخورشید اقبال جنہیں پڑھانا ،سیکھنا اور سکھانا بہت پسند ہے وہ سائنس سبجیکٹ کے ایک استاد ہیں،ادیب ہیں،محقق ہیں ۔
صرف کرنے سے علم بڑھتا ہے
خورشید اقبال صاحب نے آواز دی وائس سے ٹیلیفون پر گفتگو کے دوران کہا کہ‘‘1999میں جب کلکتہ کی برٹش کاؤنسل لائبریری میں پہلی بار مجھے انٹرنیٹ استعمال کرنے کا موقع ملا تو پہلے ہی دن مجھے اِس نئے میڈیم کی زبردست طاقت اور اہمیت کاا ندازہ ہو گیا۔چند دنوں کے استعمال کے بعد ہی میرے ذہن میں یہ سوال گونجنے لگا کہ کتنا اچھا ہوتا اگر اس طاقتور میڈیم کا استعمال اردو زبان و ادب کی ترسیل و ترویج میں کیاجا سکتا۔’’خورشید صاحب نے صرف سوچا ہی نہیں بلکہ اُس پر باقاعدہ کام شروع کیا اور 25دسمبر 2000میں ڈبلیوڈبلیوڈبلیو.اردودوست.کوم کے نام سے ایک اردو ویب سائٹ بنا کر آن لائن کر دی۔ اس سائٹ پر ‘کائنات’ نام سے ایک آن لائن ماہنامہ بھی جاری کیا۔وہ بتاتے ہیں کہ اِس ماہنامے کو دنیا کا اولین آن لائن ماہنامہ کہلانے کا شرف حاصل ہے۔
خورشید اقبال صاحب نے اِس ویب سائٹ پر ایک آن لائن لائبریری بھی قائم کی تھی جہاں سے مفت برقی کتابیں ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی تھیں۔نامساعد حالات کے سبب یہ ویب سائٹ بند کر دینا پڑی لیکن انہوں نے لوگوں کو جدید ٹیکنالوجی سے باخبر کرنے کے لیے نئے راستوں کی تلاش شروع کر دی۔انہوں نے ہائی اسکول کے طلبا کے لیے لائف سائنس اور کمپیوٹر سائنس کی متعدد درسی کتابیں لکھیں جو مغربی بنگال میں اردو میڈیم اسکولوں میں تقریباً بیس سال سے پڑھائی جا رہی ہیں۔لائف سائنس کی متعدد کتابیں جیسے اے کمپلیٹ بک آف لائف سائنس، لائف سائنس اینڈ انوائرنمنٹ،اسکول لائف سائنس،پرفیکٹ لائف سائنس، ملینئم لائف سائنس،ماحولیاتی مطالعہ اور کمپیوٹر کی دنیا وغیرہ ۔ اردو میں لکھی اِن کتابوں نے بچوں کو سائنس اور کمپیوٹر کو سمجھنے میں اپنی ہی مادری زبان میں سمجھایا تو ‘‘آئیے کمپیوٹر پر کام کریں’’جیسی کتاب نے بالغوں کو بھی کمپیوٹر کی معلومات فراہم کرنے میں اُن کی مدد کی ذمّہ داری سنبھالی۔واضح رہے کہ‘آئیے کمپیوٹر پر کام کریں’کتابی شکل میں آنے سے قبل قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان ،نئی دہلی سے جاری ماہنامہ ‘اردو دنیا ’ میں 24 ماہ تک قسط وار شائع ہوئی تھی۔خورشید صاحب بتاتے ہیں کہ ‘‘اردو دنیا میں شائع کمپیوٹر کے متعلق قسط وار مضامین کو لوگوں نے بہت پسند کیا تھا۔اِسی لیے اِسے کتابی شکل میں لانے پر غور کیا۔یہ کتاب بڑوں کے لیے اور خاص طور پر شعراء اور ادباء کے لیے ہے۔’’کمپیوٹر کی دنیا کتاب اگر بالکل ابتدائی کتاب ہے اور خاص طور پر بچوں کے لیے ہے تو آئیے کمپیوٹر پر کام کریں بڑے لوگوں کے لیے ترتیب دی گئی ایک معلومات سے پُرکتاب ہے۔
اجالا علم کا پھیلا تو ہے چاروں طرف یارو
سائنس اور ادب کے تعلق سے بات کرتے ہوئے خورشید اقبال کہتے ہیں کہ ‘‘مجھے بہت دیر میں معلوم ہوا کہ یہ تو ادب کی ایک باقاعدہ صنف ہے۔جس کانام ‘‘سائنس فکشن’’ ہے۔میں نے نہ صرف انگریزی اور اردو میں مختلف مصنفین کے سائنس فکشن پڑھ ڈالے بلکہ اس صنف سے متعلق کئی ناقدانہ اور فنی مضامین کا بھی مطالعہ کیا۔میں نے اِس سلسلے میں ایک مضمون لکھا جو جگتدل سے شائع ہونے والے سالانہ مجلے ‘‘صدف’’ 1987میں شائع ہوا تھا۔
گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ سائنس فکشن میں میری بے حد دلچسپی ہے۔لیکن جب میں نے اِس موضوع پر کام کرنا چاہا تو مجھے کوئی مواد نہیں ملا۔ اردو زبان میں جب سائنس فکشن لکھا ہی نہیں گیا ہے تو بھلا اِس موضوع پر تحقیق کون کرتا۔خورشید صاحب نے اِس ضمن میں لگاتار کوشش کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ‘‘اردو ادب میں سائنس فکشن کی روایت’’ 2015 میں شائع ہوئی جسے 2018 میں پاکستان سے بھی شائع کیا گیا۔یہ کتاب ان کا پی ایچ ڈی کے کورس ورک کامقالہ ہے۔جسے ترمیم و اضافہ کے ساتھ کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔حالانکہ وہ اپنے پسندیدہ موضوع سائنس فکشن پر پی ایچ ڈی کرنا چاہتے تھے لیکن یہ موضوع اتنا وسیع نہیں تھا کہ اُس پر پی ایچ ڈی کی جاسکتی لیکن خورشید اقبال صاحب کو پی ایچ ڈی کے لیے کورس ورک میں اپنے پسندیدہ موضوع پر مقالہ لکھنے کا موقع مل گیا۔
اور یوں اُن کی برسوں پرانی خواہش پوری ہوگئی۔یہ کتاب تقابلی انداز میں لکھی گئی ہے۔اردو سائنس فکشن کا مقابلہ دیگر مغربی اور مشرقی زبانوں کے سائنس فکشن سے کیا گیا ہے۔خورشید اقبال صاحب کہتے ہیں کہ‘‘ادب اور سائنس دو بالکل ہی متضاد علوم ہیں۔دونوں کے درمیان اتنی گہری خلیج نظر آتی ہے جسے پاٹنا ایک عام آدمی کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔اہل ادب سائنس کو عام طور سے نہایت ہی خشک اور بے لطف علم کہتے ہیں جبکہ سائنس والے ادب کو ایک ایسی بے مقصد سی چیز سمجھتے ہیں جس کی بنیادیں صرف تصورات پر قائم ہیں ۔اِس طرح ادب اور سائنس ندی کے دو کناروں کی طرح ساتھ چلتے ہوئے بھی کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔’’مگر خورشید صاحب مانتے ہیں کہ سائنس اور ادب کے درمیان ایک ایسی صنف بھی ہے جس نے ان دونوں کے درمیان کی دوری کو ختم کر دیا ہے اور وہ صنف ہے ‘‘سائنس فکشن’’۔
سائنسی ادب یا ادبی سائنس
گفتگو کے دوران وہ کہتے ہیں کہ‘‘زیادہ تر لوگ انٹرنیٹ کو ہی سائبر اسپیس سمجھتے ہیں ۔میں بھی ایسا ہی سمجھتا تھا لیکن جیسے جیسے اِس دشت کی سیاحی کرتا گیا بہت سارے راز افشا ہوتے گئے۔’’آج تقریباً سبھی اِس بات سے واقف ہیں کہ انٹرنیٹ سائبر اسپیس کا محض ایک چھوٹا سا حصّہ ہے۔واضح رہے کہ سائبر اسپیس کے دائرے میں ہر وہ مشین آجاتی ہے جو کسی طرح کے نیٹ ورک کے ذریعہ دوسری مشین یا مشینوں سے منسلک ہو۔جہاں تک اردو میں سائنس فکشن کا سوال ہے تو اِس جانب بہت کم توجہ دی گئی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اِس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔خورشید اقبال صاحب نے سائنس فکشن آج تک نہیں لکھا ہے لیکن پڑھا بہت ہے ۔یعنی وہ سائنس فکشن رائٹرنہیں ہیں۔ خورشید صاحب ابھی کچھ عرصہ قبل سبکدوش ہوئے ہیں لیکن درس و تدریس سے اُن کا رابطہ نہیں ٹوٹا ہے بلکہ وہ اب محدود سے لا محدود ہو گئے ہیں ۔اور اپنے پسندیدہ سائبر اسپیس کے ذریعہ ایک ‘‘سیمی سرکل’’ نام سے یونٹ قائم کر نیٹ اور جے ای ای کی تیاری کے لیے لگاتار ویڈیو بنا رہے ہیں۔
زیست کی حالتِ نا ساز کی باتیں تو کرو
تاریک براعظم کے سیاہ فام ہاتھوں کی لکھی اجلی تحریریں جب‘‘اک شبِ آوارگی’’کے ٹائٹل کے ساتھ منظر ِ عام پر آئیں تو یہ ایک سائنس کے استاد کی پہلی ادبی تخلیق تھی۔جس میں انہوں نے براعظم افریقہ کے انگریزی میں لکھے گئے انگریزی افسانوں کو اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ترجمہ کرنے کا خیال آنے کی بابت وہ کہتے ہیں کہ‘‘جب افریقی افسانے پڑھے تولگا کہ ان کا ترجمہ ضرور ہونا چاہئے۔کیونکہ یہ اردو ادب میں اضافہ ہوگا۔’’ترجمہ کرتے وقت انہوں نے اِس بات کا خیال رکھا کہ قاری کو ترجمہ کا احساس نہ ہو۔بلکہ اُسے ایسا معلوم ہو کہ جیسے وہ اوریجنل افسانہ پڑھ رہا ہے۔انہوں نے لفظی ترجمہ نہ کرتے ہوئے آزاد ترجمہ کیا۔سائنس سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ادب کے میدان میں قدم رکھتے ہوئے بھی انہوں نے ایک نئی راہ تلاش کی۔اور جس طرح سائنس لیب میں ہر چیز سامنے رکھ کر بات سمجھائی جاتی ہے ٹھیک اسی طرح انہوں نے اپنی کتاب میں ہر افسانے کی ابتدامیں تصاویر شامل کی ہیں تاکہ قاری کے ذہن میں اس متن کے ‘‘افریقی کرداروں کی تصویریں بس جائیں۔اور افسانہ پڑھتے ہوئے قاری کے تصور میں افریقی کرداراُسے جیتے جاگتے دکھائی دیں۔خورشید صاحب نے کہانی کی روح کو برقرار رکھتے ہوئے جملوں کی ساخت کو اردو کے لسانی مزاج سے ہم آہنگ کرنے کی شعوری کوشش کی ہے۔افسانوں کا یہ مجموعہ ہندی زبان میں ‘‘اڑان ’’ کے نام سے شائع ہوا جسے خود خورشید اقبال نے ہندی میں ترجمہ کیا۔‘اڑیا ’زبان میں ‘‘اُڑان’’ کومحترمہ سبیتا بانک راؤت نے 2023 میں ترجمہ کیا ہے۔افریقی
کہانیوں کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ اب تک یہ کتاب اردو ،ہندی اور اڑیا میں شائع ہو چکی ہے۔
حالانکہ خورشید اقبال خود کو ایک ٹیچر کہلانا پسند کرتے ہیں۔پڑھاتے سائنس ہیں لیکن ادب سے بھی اتنی ہی دلچسپی ہے۔انگریزی کے مشہور ناول نگار ڈین براؤن اُن کے پسندیدہ ادیب ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ڈین براؤن کے ناولوں کا تحقیقی،تنقیدی و تاثراتی جائزہ پیش کرتے ہوئے آل اباوٹ ڈین براون اینڈ ہس ناول نام سے 357 صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب لکھی۔جسے ادبی حلقوں میں کافی سراہا گیاہے۔
علم ہے انساں کی بہبود و بقا کے واسطے
‘‘جب میں خود زیرِ تعلیم تھاتو اردو میں کتابیں نہیں ملتی تھیں ۔ہمیں ہندی کی کتابوں سے مدد لینا پڑتی تھی۔بی ایس سی مکمل کرنے اور ایم ایس سی میں داخلہ کے دوران ہی میں نے ساتویں جماعت کے لیے کتاب لکھی ۔جو شائع ہوئی اور بے حد مقبول ہوئی۔اُس کے بعد نویں اور دسویں کے بچوں کے لیے بھی کتابیں لکھیں۔’’وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک ٹیچر بننے سے پہلے ہی میں رائٹر بن گیا تھا۔وہ اردو میں سائنس کی انگریزی اصطلاحات کے ثقیل اردو میں ترجمہ کرنے کے سخت مخالف ہیں۔وہ اعتراض جتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ‘‘اردو میں سائنس کی اصطلاحات کو عربی آمیز ترجمہ کر کے بے حد ثقیل بنا دیا جاتا ہے۔بہت عام اصطلاحات جیسے نیوکلیس،سیل،پروٹین وغیرہ کو انگریزی زبان میں ہی لکھنے میں کیا قباحت ہے؟بچے کو اسکول کے بعد انگریزی میں ہی اپنی تعلیم جاری رکھنا ہوتی ہے۔’’کمپیوٹر،سائنس اور ٹیکنالوجی کی ضرورت اور اہمیت کا اعتراف کرنے والے خورشید اقبال صاحب کو نئی نسل سے شکایت ہے کہ نئی نسل بے حد سہل پسند ہوگئی ہے۔انہیں جس طرح کی محنت کرنا چاہئے وہ بالکل نہیں کر رہے ہیں۔کتابیں پڑھنا لوگوں نے ترک کر دیا ہے۔وہ مانتے ہیں کہ ٹیکنالوجی نے آسانیاں پیدا کی ہیں لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ مطالعہ کرنا ہی بند کر دیا جائے۔وہ کہتے ہیں کہ‘‘انٹرنیٹ یقیناً بہت کار آمد ہے لیکن مطالعہ کی اہمیت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ٹیکنالوجی کو بالکل اِس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ایک چھری سبزی کاٹنے کے لیے ہے لیکن اُس سے خون بھی ہو سکتا ہے۔اِس لیے جدید ٹکنالوجی کو بہتر طریقے سے استعمال کرنا ضروری ہے ۔’’آج جو کچھ بھی انسان کے پاس ہے اور جو کچھ بھی اُسے مستقبل میں حاصل ہو سکتا ہے وہ سب تعلیم کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔اِس لیے تعلیم پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یہی جانا کہ کچھ نہ جانا ہائے
آواز دی وائس سے ٹیلیفونک گفتگو کے دوران ان کا کہنا ہے کہ‘‘اردو سائنس فکشن سے متعلق اپنی تحقیق کی ابتدا میں نے لغتوں سے کی۔میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ ان میں لفظ ‘سائنس فکشن’ کے اردو میں کیا معنی لکھے ہیں۔مجھے یہ دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی، کہیں بھی مجھے سائنس فکشن کے معنی نہیں مل سکے۔’’وہ بہت مایوسی سے کہتے ہیں کہ مولوی عبدالحق نے بھی اپنی ڈکشنری میں لفظ سائنس کے معنی تو لکھے ہیں لیکن ‘سائنس فکشن’ کو شامل نہیں کیا ہے۔واضح رہے کہ کلیم الدین احمد نے بھی اپنی چھ جلدوں پر مشتمل ڈکشنری میں ‘سائنس فکشن’ کے معنی صرف‘سائنسی قصّے’ لکھنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔خورشید صاحب کہتے ہیں کہ‘‘اردو ادب کا دامن بہت وسیع ہے۔اِس میں ادبِ عالیہ کے علاوہ رومانی،تاریخی،مہماتی،جاسوسی،ڈراؤنی وغیرہ کہانیاں ،ناول افسانے لکھے جاتے ہیں لیکن ایک صنفِ ادب ایسی ہے جو اردو میں تقریباً ناپید ہے اور وہ ہے‘سائنس فکشن’۔جو دنیا کی دیگر زبانوں میں بے حد مقبول ہے۔
خورشید اقبال صاحب نے ایک اسٹوڈیو تیار کیا ہے جہاں پر وہ طلبا کے لیے ویڈیو بنا رہے ہیں ،لیکچر کا انتظام کر رہے ہیں۔تاکہ وہ نوجوانوں کو اُن کی تیاری میں مدد کر سکیں۔سائنس کے استاد ،کمپیوٹر کے ماہر ،محقق اور ادیب میں چھپا ایک شاعر بھی ہے جو اپنی ایک نظم ‘مثلث’ میں کہتا ہے