زیبا نسیم : ممبئی
لسمان کی بے پایاں وسعتوں اور زمین کے سینے پر اگر کوئی ہستی تھی جو رسولِ رحمت ﷺ کے دل کے سب سے قریب تھی، تو وہ اُن کی نورِ نظر، لختِ جگر—سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا—ہی تھیں۔ آپ ﷺ جب اُنہیں دیکھتے تو دل خوشی سے بھر جاتا۔ یہاں تک کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ ﷺ اُن کی خوشبو سونگھ کر فرماتے تھے کہ ’’مجھے ان سے جنت کی خوشبو آتی ہے‘‘ کیونکہ معراج کی رات جبرائیلؑ نے جو پھل آپ ﷺ کو پیش کیا تھا، اسی سے بی بی فاطمہؓ کی تخلیق ہوئی۔
امّ المومنین حضرت خدیجہؓ کے بطن مبارک سے آپ ﷺ کی چار بیٹیاں تھیں: حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت امِّ کلثومؓ اور سب سے چھوٹی اور سب سے زیادہ پیاری—حضرت فاطمہ الزہراؓ۔ تینوں بڑی بیٹیاں حضور ﷺ کی زندگی میں انتقال کر گئیں، صرف سیدہ فاطمہؓ ہی تھیں جو وصالِ نبوی کے وقت موجود تھیں۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے بیٹی کے کان میں کچھ کہا تو وہ رونے لگیں۔ پھر دوبارہ کچھ فرمایا تو فاطمہؓ مسکرا اٹھیں۔ بعد میں انہوں نے بتایا کہ پہلی خبر یہ تھی کہ بابا جان دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں، اور دوسری خوشخبری یہ کہ ’’میرے گھر والوں میں سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملوگی‘‘۔ یہ رشتہ باپ بیٹی نہیں، دل سے دل کا تعلق تھا۔
سیدہ فاطمہؓ کی پیدائش بعثت کے پانچویں سال، جمعے کے دن صبح صادق کے وقت ہوئی۔ قریش، بنی ہاشم، بنی عبدالمطلب—سب سے اونچا حسب و نسب، مگر اصل عظمت اُن کی شخصیت اور سیرت میں تھی۔ پوری امت میں سب سے زیادہ محبت جس نام سے جڑی ہے، وہ ’’فاطمہ‘‘ ہے۔ اسی لیے ہر زمانے میں مسلمان بیٹیوں کو یہ نام برکت سمجھ کر دیتے ہیں۔
آپؓ کے القابات کی فہرست بھی محبت سے بھری ہوئی ہے: ’’زہرا‘‘، ’’سیدہ نساء العالمین‘‘، ’’خاتونِ جنت‘‘، ’’ام الحسنین‘‘، ’’ام السبطین‘‘، ’’بتول‘‘—اور سب کا ایک ہی مرکز: پاکیزگی، عظمت اور نور۔
پیدائش کے بعد حضور ﷺ نے خود ان کی تربیت فرمائی۔ امّ المومنین خدیجہؓ بھی ساتھ تھیں، مگر ان کے انتقال کے بعد کئی پاکباز خواتین نے فاطمہؓ کی پرورش میں حصہ لیا—سیدہ فاطمہ بنت اسدؓ، ام الفضلؓ، ام ہانیؓ، اسماء بنت عمیسؓ، اور حضرت صفیہؓ۔ یہ وہ ستارے تھے جن کی روشنی میں ایک چاند پروان چڑھا۔ مکے کے مشکل زمانے میں فاطمہؓ نے وہ دکھ دیکھے جنہیں دیکھ کر بڑے بڑے مرد کانپ جائیں۔ ابو لہب کے گھر کی دیوار ساتھ تھی، روزانہ کانٹے بچھائے جاتے، اور ننھی فاطمہؓ اپنے چھوٹے ہاتھوں سے راستہ صاف کرتی تھیں۔ انگلیاں زخمی ہوتیں مگر وہ چپ رہتیں۔
جب کفار نبی ﷺ پر اوجھڑی پھینکتے تو فاطمہؓ پانی لاکر صاف کرتیں اور روتی جاتیں۔ نبی ﷺ بیٹی کو سمجھاتے، تسلی دیتے، اللہ کی مدد کا یقین دلاتے۔ شعبِ ابی طالب کی بھوک اور تنگی میں بھی یہ چھوٹی سی بیٹی اپنے والدین کے ساتھ کھڑی رہی۔
ہجرت کے وقت بھی فاطمہؓ نے باقی خواتین کے ساتھ سفر کیا۔ مدینے میں پہلے فاطمہ بنت اسدؓ کے زیر سایہ رہیں، پھر ام سلمہؓ کے ساتھ۔ ام سلمہؓ کہتی تھیں: ’’میں انہیں ادب سکھانا چاہتی تھی، مگر وہ پہلے ہی باادب تھیں‘‘۔
نکاح کے معاملے میں بڑے بڑے صحابہؓ نے خواہش کا اظہار کیا، مگر ہمیشہ وحی کے انتظار کی ہدایت ملی۔ حضرت علیؓ دل میں چاہت رکھتے تھے مگر ادب مانع تھا۔ آخرکار حضرت سعد بن معاذؓ نے بات پہنچائی۔ پھر وہ مبارک لمحہ آیا جب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ فاطمہؓ کا نکاح علیؓ سے کردوں‘‘۔
یکم ذوالحجہ 2 ہجری کو مسجد نبوی میں یہ مقدس نکاح ہوا۔ مہر پانچ سو درہم تھا۔ حضرت علیؓ نے زرہ بیچ کر یہ رقم دی۔ جہیز سادہ تھا: چند برتن، چکی، چاندی کا پیالہ، کھجور کی چھال کا بستر، چمڑے کی مشکیزہ، ایک چادر، ایک کمبل—ایک ایسا سادہ جہیز کہ آج دیکھ کر آنکھیں نم ہو جائیں۔
رخصتی کے وقت سلمان فارسیؓ اونٹنی کی مہار تھامے ہوئے تھے۔ ازواجِ مطہراتؓ رجز پڑھتی آگے آگے چل رہی تھیں۔ نبی ﷺ نے دونوں کے لیے دعا فرمائی اور ان کے گھر میں برکت کی دعا کی۔ حضور ﷺ کے لیے بیٹی کا گھر اتنا محبوب تھا کہ علیؓ کا حجرہ قریب تر کرنے کے لیے ایک صحابی سے جگہ بھی تبدیل کروائی۔ فجر کے وقت آپ ﷺ خود دروازہ کھٹکھٹاتے اور فرماتے: ’’اے اہلِ بیت! نماز کے لیے اٹھو۔‘‘
شروع کی زندگی غربت بھری تھی، مگر فاطمہؓ نے کبھی شکوہ نہ کیا۔ سوت کات کر شوہر کی مدد کرتیں۔ اخلاق اتنا بلند کہ حضرت علیؓ نے کبھی ان سے کوئی شکایت نہ سنی۔ شوہر کو ادب سے ’’ابوالحسن‘‘ کہہ کر بلاتیں، گھر میں صفائی، حسنِ سلوک اور محبت بھرے انداز نے گھر کو جنت بنائے رکھا۔
جنگ اُحد میں جب نبی ﷺ زخمی ہوئے تو فاطمہؓ خود مرہم پٹی کرتی رہیں۔ میدان جنگ کے شور میں بھی ان کی ہمت نہ ٹوٹی۔
مباہلہ کے موقع پر جب مسیحی وفد سامنے آیا تو اللہ کے حکم پر نبی ﷺ فاطمہؓ، علیؓ، حسنؓ اور حسینؓ کو لے کر میدان میں آئے۔ دشمن نے چہرے دیکھے تو لرز گیا اور مباہلہ سے پیچھے ہٹ گیا۔ یہ واقعہ فاطمہؓ کی عظمت کا زندہ نشان ہے۔
حدیث میں فرمایا: ’’فاطمہؓ خواتینِ جنت کی سردار ہیں‘‘ اور ’’جس نے فاطمہؓ کو رنج پہنچایا، اس نے مجھے رنج پہنچایا‘‘۔
رسول اللہ ﷺ سفر پر جاتے تو سب سے آخر میں فاطمہؓ سے ملتے، واپسی پر سب سے پہلے انہی کے گھر جاتے۔ بیٹی نے کبھی آرام کی خواہش نہ کی، جب پوچھا کہ کام زیادہ ہے تو حضور ﷺ نے تسبیحِ فاطمہ عطا کی—33 مرتبہ سبحان اللہ، 33 الحمدللہ، 34 اللہ اکبر۔
وصالِ نبوی کے چھ ماہ بعد، 3 جمادی الثانی 11 ہجری کو بی بی فاطمہؓ نے بھی دنیا سے رخصت ہووصیت کے مطابق رات کی تاریکی میں جنازہ ہوا، بقیع میں آرام فرما ہیں۔سیدہؓ کی زندگی ہر عورت کے لیے مشعلِ راہ ہے—صبر، قناعت، حیا، وقار، محبت، وفا۔ اپنے ہاتھ زخمی کر لیے مگر یتیموں پر ترجیح دی۔ فاقے برداشت کیے مگر دروازے سے سائل خالی نہ گیا۔یہ وہ پاک گھرانہ ہے جس پر درود پڑھے بغیر ہماری نماز بھی پوری نہیں ہوتی۔ ان سے محبت ایمان کی علامت ہے، اور دوری گمراہی کی۔جو عورت دنیا اور آخرت میں کامیابی چاہتی ہے، وہ فاطمہؓ کی سیرت سے بہتر کوئی مثال نہیں پا سکتی۔