حضرت نظام الدین اولیا - ملک کے دل میں روشن ایک چراغ

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 09-10-2025
حضرت نظام الدین اولیا - ملک کے دل میں روشن ایک چراغ
حضرت نظام الدین اولیا - ملک کے دل میں روشن ایک چراغ

 



زیبا نسیم : ممبئی
دہلی کے دل میں آج بھی ایک چراغ جل رہا ہے... وہی جو سات صدیوں پہلے محبوبِ الٰہی نے روشن کیا تھا۔27 صفر 636 ہجری، بدایوں کی سرزمین۔اسی دن ایک ایسا نور پیدا ہوا جس نے صدیوں کے اندھیروں کو روشنی میں بدل دیا ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ۔آپ کا نام نبیِ کریم ﷺ کے اسمِ مبارک پر رکھا گیا “محمد ، مگر زمانہ آپ کو محبوبِ الٰہی، سلطان المشائخ، تاج المقربین، سلطان العارفین کہہ کر یاد کرنے لگا۔
 
نسب کی روشنی، ایمان کی خوش

آپ نجیب الطرفین سادات میں سے تھے۔ پندرہ پشتوں کے بعد سلسلۂ نسب حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ سے جا ملتا ہے۔دادا سید علی بخاریؒ اور نانا سید عرب بخاریؒ بخارا سے ہجرت کر کے بدایوں میں آباد ہوئے۔اور پھر سید عرب بخاریؒ کی نیک سیرت بیٹی بی بی زلیخاؒ ، جنہیں زمانہ اپنے وقت کی رابعہ بصری کہتا تھا، نے محبوبِ الٰہی کو جنم دیا۔
 
ماں کی دعائیں، فاقے کی مہمانی

محض پانچ برس کی عمر تھی کہ والد کا سایہ اٹھ گیا۔ مگر بی بی زلیخاؒ نے صبر و توکل سے اپنے یتیم بچے کو پروان چڑھایا۔وہ سوت کاتتیں، بازار بھیجتیں، اور انہی پیسوں سے گزر بسر ہوتي۔ ہفتے میں ایک دن فاقہ ہو جاتا۔ایسے دنوں میں جب بچہ بھوکا ہوتا تو بی بی زلیخا مسکرا کر کہتیں،
"بابا نظام! آج ہم اللہ کے مہمان ہیں۔"
اور ننھا نظام ہنستا، خوش ہوتا، اور دعا مانگتا —
"یا اللہ! اپنے بندوں کو روز اپنا مہمان بنا۔"
یہی دعا اس بچے کی پوری زندگی کا رنگ بن گئی۔
 
علم کی جستجو، دستارِ فضیلت

بچپن ہی سے ذہانت اور عبادت آپ کے مزاج میں گھلی ہوئی تھی۔ جلد ہی قرآن حفظ کرلیا، پھر مولانا علاءالدین اصولیؒ سے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔جب فقہِ حنفی کی مشہور کتاب قدوری مکمل کی، تو بی بی زلیخاؒ نے علماءِ بدایوں کو دعوت دی۔اسی مجلس میں استاد نے شاگرد کے سر پر دستارِ فضیلت باندھی،یوں علم کی امانت اگلی نسل کو منتقل ہوئی ،ایک لمحہ جو روحانیت کی تاریخ میں ہمیشہ روشن رہے گا۔
 
فرید کے در پر محبوبِ الٰہیؒ

دہلی پہنچ کر آپ کے دل میں حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کی محبت جاگ اٹھی۔آپ پاکپتن شریف روانہ ہوئے۔ بابا فریدؒ نے دیکھا تو فرمایا:
 
اے آتشِ فراغت دل با کباب کردہ
سیلابِ اشتیاقت جانہا خراب کردہ
 
یعنی تیری جدائی نے دل جلا دیے، اور شوق کے سیلاب نے جانوں کو برباد کر دیا۔اسی لمحے آپ نے بیعت کی، اور بابا فریدؒ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہو گئے۔اسی در سے آپ کو علم و معرفت کے وہ خزانے ملے جنہوں نے دہلی کو روحانیت کا مرکز بنا دیا۔
 
دہلی میں نور کا قیام

659 ہجری میں مرشد کے حکم پر دہلی آئے اور غیاث پورہ میں قیام کیا۔یہیں سے وہ روشنی پھیلی جو آج بھی برصغیر کے دلوں کو منور کرتی ہے۔آپ نے تیس برس سخت مجاہدے کیے۔ قرآن و حدیث، فقہ و تصوف، ادب و لغت - ہر علم میں کمال پایا۔لیکن علم کے ساتھ آپ کا کمال، محبت تھا۔آپ فرماتے: دلوں کو جیتنا، علم جیتنے سے زیادہ بڑا کمال ہے۔بادشاہ بھی آپ کے مرید بن گئے، مگر آپ نے کبھی دنیا کی طرف نگاہ نہ کی
 
وصال اور روحانی امانت

چورانوے برس کی عمر میں، 18 ربیع الثانی 725 ہجری کو بعد نمازِ ظہر،آپ نے اپنے مرید خاص شیخ نصیر الدین روشن چراغ دہلویؒ کو خرقہ، عصا، مصلا، تسبیح اور تمام تبرکات عطا کیے،اور فرمایا: “دہلی میں رہو، اور لوگوں کو اللہ تک پہنچاؤ۔یوں ایک روحانی سلسلے کی امانت ان کے سپرد کر دی
 
کتابیں جو دلوں کو جگاتی ہیں

آپ کی علمی وراثت میں کئی انمول تصانیف شامل ہیں:راحت القلوب، ملفوظاتِ بابا فریدؒ، افضل الفوائد، فوائد الفواد، سیرالاولیاء ۔یہ کتابیں آج بھی دلوں کو روحانی تسکین دیتی ہیں۔
 
مزارِ محبوبِ الٰہی — دہلی کا دل

18 ربیع الثانی 725 ہجری کی شام، سورج غروب ہوا  مگر دہلی میں ایک نیا چراغ جل اٹھا۔یہ وہی چراغ ہے جو آج بھی محبوبِ الٰہی کے مزار پر جلتا ہے۔جہاں لاکھوں لوگ آ کر سکون پاتے ہیں،جہاں دلوں کی گرد دھلتی ہے،اور جہاں ہر صدی میں عشقِ الٰہی کی خوشبو تازہ ہوتی ہے۔