اے ایم یو ۔ بریگیڈیئر محمد عثمان پر کتاب کا اجرا۔ نئی نسل کو قربانیوں سے روشناس کرانا لازمی

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 23-09-2025
محب وطن بریگیڈیئر اے ایم یو ۔  بریگیڈیئر محمد عثمان پر کتاب کا اجرا۔ نئی نسل کو  قربانیوں سے روشناس کرانا لازمی محمد عثمان
محب وطن بریگیڈیئر اے ایم یو ۔ بریگیڈیئر محمد عثمان پر کتاب کا اجرا۔ نئی نسل کو قربانیوں سے روشناس کرانا لازمی محمد عثمان

 



 علی گڑھ-  ایسے وقت میں جب ملک کی تکثیری اور ہمہ جہت ثقافت پر منظم حملے ہو رہے ہیں اور مشترکہ تہذیبی بیانیہ کو سماج کے حاشیے پر دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے، پاکستان کے خلاف 1948 کی جنگ میں محض 35 برس کی عمر میں وطن پر جان قربان کرنے والے اور نوشیرہ و جھنگر میں پاکستانی فوج کی پیش قدمی کو روکنے والے محب وطن بریگیڈیئر محمد عثمان کی یاد تازہ کرنا اور ان کی زندگی و خدمات کو کتابی شکل دینا ایک اہم اور لائقِ تحسین اقدام ہے۔ مقررین نے کہا کہ ایسی شخصیات پر مزید کتابیں شائع کی جانی چاہئیں تاکہ نئی نسل ان کی قربانیوں سے روشناس ہو اور اپنے ملک کی مشترکہ تہذیب و تاریخ پر فخر کر سکے۔

یہ خیالات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی سرسید اکیڈمی میں منعقدہ تقریبِ اجراء کے دوران پیش کیے گئے، جس میں انگریزی تصنیف "The Line of Nowshera: The Life and Times of Brigadier Mohammad Usman" کو منظرِ عام پر لایا گیا۔ اس موقع پر وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے معززین کی موجودگی میں مصنفین، سینئر صحافی ضیاء السلام اور آنند مشرا کے ساتھ مل کر کتاب کا اجراء کیا۔

 کتاب کے شریک مصنف اور دی ہندو اخبار سے وابستہ سینئر صحافی ضیاءالسلام نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ اس تصنیف کی تیاری ایک کٹھن تحقیقی مرحلے سے گزری ہے۔ انھوں نے کہا کہ بریگیڈیئر عثمان کے حوالے سے مواد بہت محدود تھا، اس لیے اس کی جستجو ایسے ہی تھی جیسے ایک چڑیا بڑی محنت اور صبر کے ساتھ تنکا تنکا جمع کرکے گھونسلا تیار کرتی ہے۔ ضیاءالسلام کے مطابق بریگیڈیئر عثمان کی شخصیت نہ صرف ایک فوجی افسر کی تھی بلکہ وہ ایک اعلیٰ قدروں کے حامل انسان بھی تھے۔ وہ ہر منگل اپنے فوجی جوانوں کے ساتھ روزہ رکھتے، ایک متحد ہندوستان کا خواب دیکھتے اور اپنی تنخواہ کا حصہ اسکولوں کے لیے عطیہ کرتے تھے۔

انھوں نے زور دے کر کہا کہ آج کے دور میں، جب تکثیریت، رواداری اور مختلف مذاہب کے درمیان بھائی چارے کو کمزور کرنے والی طاقتیں سرگرم ہیں، ایسے میں بریگیڈیئر عثمان اور ویر عبدالحمید جیسے ہیروز کی قربانیوں کو اجاگر کرنا اور یاد رکھنا لازمی ہے۔ ان کے بقول، جو قوم اپنے ہیروز اور اپنی تاریخ کو فراموش کر دیتی ہے، وہ اپنی اصل شناخت بھی کھو بیٹھتی ہے

 کتاب کے دوسرے مصنف اور فرنٹ لائن کے پولیٹیکل ایڈیٹر آنند مشرا نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تحقیق کے دوران جیسے جیسے بریگیڈیئر محمد عثمان کی زندگی کے نئے گوشے سامنے آتے گئے، ویسے ویسے ان کی شخصیت سے عقیدت بڑھتی گئی۔ انھوں نے بتایا کہ اس مقصد کے لیے انہوں نے 1947-48 کی پاکستان کی دراندازی اور جنگ کے زمانے کے اخبارات کا پارلیمنٹ کی لائبریری میں مطالعہ کیا۔ ساتھ ہی بریگیڈیئر عثمان کے اہل خانہ اور قریبی رشتہ داروں، بشمول سابق نائب صدر جناب حامد انصاری سے بھی قیمتی معلومات یکجا کیں۔

آنند مشرا نے زور دے کر کہا کہ بریگیڈیئر عثمان کی زندگی کی کہانی ہر ہندوستانی خصوصاً نوجوان نسل تک پہنچنی چاہیے، کیونکہ اس میں حب الوطنی، قربانی اور خدمت کے جذبے کی روشن مثالیں موجود ہیں۔ ان کے مطابق اس عظیم سپاہی کے بارے میں جتنا زیادہ بات کی جائے، قوم کے اندر اتنا ہی جوش اور اتحاد پیدا ہوگا

 کتاب کی اہمیت اور پیغام

وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے اس موقع پر کہا کہ یہ لمحہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لیے باعثِ فخر ہے کیونکہ بریگیڈیئر عثمان کبھی یہاں تعلیم کے لیے آئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی مشترکہ تہذیب اور ملی جلی ثقافت کی علامت ایسی محب وطن شخصیت نوجوانوں کے لیے تحریک کا ذریعہ ہیں۔

پروفیسر آفتاب عالم (ڈین، فیکلٹی آف انٹرنیشنل اسٹڈیز) نے کتاب کو ایک ایسا بیانیہ قرار دیا جو سماج کو جوڑنے والا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ بریگیڈیئر عثمان پاکستان کے خلاف جنگ میں قربان ہونے والے سب سے سینئر فوجی افسر تھے، جنہیں بعد از مرگ مہاویر چکّر سے نوازا گیا

 کتاب کی معنویت اور تاریخی پس منظر

پروفیسر محمد محب الحق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ تصنیف محض ایک کتاب نہیں بلکہ آئیڈیا آف انڈیا یعنی ہندوستان کے اصل تصور کی نمائندہ ہے۔ ان کے مطابق بریگیڈیئر عثمان کی شخصیت پر تحقیق اور تصنیف آج کے ماحول میں، جہاں نفرت اور تقسیم کو ہوا دی جا رہی ہے، امید اور یکجہتی کا پیغام ہے۔ انہوں نے اس کتاب کو موجودہ وقت میں تاریخ نویسی کی ایک اہم کاوش قرار دیا۔

بریگیڈیئر عثمان اور اے ایم یو کی وابستگی
سرسید اکیڈمی کے ڈائرکٹر پروفیسر شافع قدوائی نے اپنے خطبۂ استقبالیہ میں بتایا کہ بریگیڈیئر محمد عثمان نے اپنی تعلیم کا آغاز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کیا تھا لیکن 1932 میں وہ انگلینڈ چلے گئے اور سندھرسٹ میں واقع رائل ملٹری اکیڈمی میں داخلہ لیا۔ بعدازاں 19 مارچ 1935 کو وہ ہندوستانی فوج میں شامل ہوئے۔ اگرچہ انہوں نے اے ایم یو سے کوئی ڈگری حاصل نہیں کی، تاہم ان کی وابستگی فرزندانِ علی گڑھ کے لیے باعث فخر ہے۔

پروفیسر قدوائی نے مزید کہا کہ یہ کتاب معروضی انداز اور گہری تحقیق کی بہترین مثال ہے اور مصنفین کی انتھک محنت اسے ایک گرانقدر تصنیف بناتی ہے۔

تقریب کے آخر میں ڈاکٹر محمد شاہد نے کلماتِ تشکر ادا کیے، جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر سید حسین حیدر نے انجام دیے۔ اس موقع پر یونیورسٹی کے معزز اساتذہ، سابقہ و موجودہ عہدیداران اور طلبہ بڑی تعداد میں موجود تھے