علم کی دنیا: جب انگریزوں کا پہلی بار راکٹ سے ہوا سامنا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 24-05-2021
میسور کے راکٹوں نے انگریز فوج کو گھٹنوں کے بل لٹا دیا تھا
میسور کے راکٹوں نے انگریز فوج کو گھٹنوں کے بل لٹا دیا تھا

 

 

منجیت ٹھاکر / نئی دہلی

یہ بات ہے 1780 کی ۔ پولیلورمیں (آج کل کے تمل ناڈو میں کانچی پورم) انگریزوں اور میسور کے مابین جنگ جاری تھی۔ اس جنگ کو دوسری اینگلو میسور جنگ بھی کہا جاتا ہے۔ انگریزوں کی سربراہی کرنل ولیم بیلی نے کی اور میسور کی سربراہی حیدر علی نے کی۔ اچانک ایک اڑتی ہوئی آگ کا گولا فضا میں نمودار ہوا اور اس نے برطانوی بارود خانے کو آگ لگا دی۔ لیکن یہ توپ کا گولہ نہیں تھا ، بارود سے بھری لمبی بانس کی نلیاں حیدر علی کی فوج کی طرف سے برطانوی فوج پر حملہ اور ہو رہی تھیں اور دیکھتے ہی دیکھتے انگریز فوج کا بارود خانہ راکھ کا ڈھیر بن رہا تھا ۔

فتح کی جانب گامزن انگریز فوج اچانک گھوٹنوں پر آ گئی کیونکہ یہ راکٹ لانچر ایک ہزار گز دور سے فائر کیے جارہے تھے اور انگریزی بندوقیں اتنی دوری تک نشانہ بنانے کے قابل نہیں تھیں۔ انگریز پہلی بار راکٹ سے نبرد آزما ہو رہے تھے ۔

یہ کمال کیا تھا میسور راکٹ اسکواڈ نے اور حیدر علی کے دور حکومت میں میسور آرمی کے پاس اس اسکواڈ میں 1200 جوان شامل تھے۔ ان راکٹوں نے جنگ کا پانسہ ہی پلٹ دیا۔ یہ شاید ہندوستان میں انگریزوں کی بدترین شکست تھی۔ انگریز حیران و پریشان تھے کہ ہندوستانیوں نے یہ راکٹ آخر بنایا کیسے؟

حیدر علی اور اس کے بیٹے ٹیپو سلطان نے یہ راکٹ میسور سے بہت بڑی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کے خلاف اینگلو میسور جنگ میں استعمال کیے۔ بعد میں انگریزوں نے اس ٹیکنالوجی میں دلچسپی لی اور انیسویں صدی میں اسے مزید ترقی دی۔ ٹیپو سلطان نے بھی کچھ ضروری سدھار کرتے ہوئے اس کی رینج کو ایک میل (تقریبا 2 2 کلومیٹر) تک بڑھا دیا ۔

مورخین کے مطابق ، دھماکہ خیز مواد سے بھرے راکٹ کا پہلا پروٹو ٹائپ حیدر علی نے تیار کیا تھا ، جسے بعد میں اس کے جانشین اور فرزند ٹیپو سلطان نے آگے مزید آگے بڑھایا ۔ ان میں بارود بھرنے کے لئے لوہے کی نلیوں کا استعمال کیا جاتا تھا اور ان کے ساتھ تلواریں جڑی ہوئی ہوتی تھیں۔

ٹیپو سلطان ان راکٹوں کو متوازن بنانے کے لئے بانس کا بھی استعمال کرتا تھا۔اس کے پروٹو ٹائپ جدید راکٹ کا جد امجد کہا جاسکتا ہے۔ اس میں کسی بھی دوسرے راکٹ کے مقابلے میں زیادہ حد ، بہتر اکیوریسی اور زیادہ تباہ کن دھماکہ کرنے کی صلاحیت تھی ۔ ان خصوصیات کی وجہ سے اسے اپنے وقت کا بہترین ہتھیار سمجھا جاتا تھا۔

 سن 1793 میں ہندوستان میں برطانوی افواج کے نائب اسسٹنٹ جنرل میجر ڈیروم نے بعد میں میسور کی فوج کے زیر استعمال راکٹوں کے بارے میں کہا کہ کچھ راکٹوں میں ایک خیمہ تھا ، اور وہ گولے کی طرح پھٹتے تھے ۔ کچھ راکٹوں کی سانپ جیسی رفتار ہوتی تھی ، اور جب وہ زمین سے ٹکراتے تھے ، تو وہ دوبارہ اٹھ کھڑے ہوتے اور پھر جب تک دھماکے کا خاتمہ نہیں ہوتا تب تک حملہ کرتے رہتے تھے ۔

راکٹ ٹکنالوجی پر مزید تحقیق کے لئے ٹیپو نے سرینگپتنم ، بنگلور ، چترڈورگا اور بیدنور میں چار تحقیقی مراکز قائم کیے۔

یہ کچے لوہے کے بنے راکٹ زیادہ طاقتور تھے کیونکہ ان کے چیمبر لوہے سے بنے تھے اور وہ دھماکہ خیز طاقت کا زیادہ دباؤ جھیل سکتے تھے۔ ٹیپو سلطان نے ان کو 1792 اور 1799 کے درمیان ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف بہت موثر انداز میں استعمال کیا۔

ٹیپو سلطان نے فتح المجاہدین کے نام سے ایک فوجی مینوو ل بھی لکھا ، جس میں میسور کی ہر بریگیڈ میں 200 راکٹ ماہرین کی تعیناتی کا ذکر ہے۔ میسور میں 16 سے 24 انفنٹری بریگیڈ تھے۔ ان راکٹ لانچروں کو اہداف کا حساب لگانے کے لئے تربیت دی گئی تھی۔ ان کے پاس راکٹ لانچر بھی تھے جو ایک وقت میں پانچ سے دس راکٹ لانچ کرسکتے تھے۔

آج سرنگاپٹنا میں ایسا کچھ زیادہ نہیں بچا ہے جو ٹیپو سلطان اور ان کے تیار کردہ راکٹوں کے بارے میں بتاسکے ، لیکن میسورین راکٹ کا نقش عالمی فوجی تاریخ پر ہمیشہ قائم رہے گا۔